0
95
  • ’عربی‘ (بفتح الراء) لفظ اردو بھی ہے اور عربی بھی۔ اردو میں عربی لفظ کا مطلب ہے عربی زبان اور عربی میں لفظ عربی کا معنی ہے عرب ملک کا باشندہ۔زبان کے لیے عربی میں العربیہ کا لفظ مستعمل ہے جو کہ اللغۃ کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔اردو کی طرح عربی میں زبان کے لیے عربی لفظ مستعمل نہیں ہے۔یہ لفظ عرب یعرب سے مشتق ہے جس کا مفہوم ہے فصیح عربی بولنا۔ اعرب الشیء کا معنی ہے ظاہر کرنا۔ چونکہ عرب یہ سمجھتے تھے کہ صرف وہی اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر ہیں باقی قومیں نہ تو ان کی باتیں سمجھتی ہیں نہ ان کی زبان میں کلام کرتی ہیں اس لیے انہوںنے دوسری قوموں کو عجمی یعنی گونگا اور خود کو عربی کہنے لگے۔عربی زبان تاریخی، لسانی ، ادبی ، دینی اور دنیاوی پہلوؤں سے امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ ’عربی‘ (بفتح الراء) لفظ اردو بھی ہے اور عربی بھی۔ اردو میں عربی لفظ کا مطلب ہے عربی زبان اور عربی میں لفظ عربی کا معنی ہے عرب ملک کا باشندہ۔زبان کے لیے عربی میں العربیہ کا لفظ مستعمل ہے جو کہ اللغۃ کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔اردو کی طرح عربی میں زبان کے لیے عربی لفظ مستعمل نہیں ہے۔یہ لفظ عرب یعرب سے مشتق ہے جس کا مفہوم ہے فصیح عربی بولنا۔ اعرب الشیء کا معنی ہے ظاہر کرنا۔ چونکہ عرب یہ سمجھتے تھے کہ صرف وہی اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر ہیں باقی قومیں نہ تو ان کی باتیں سمجھتی ہیں نہ ان کی زبان میں کلام کرتی ہیں اس لیے انہوںنے دوسری قوموں کو عجمی یعنی گونگا اور خود کو عربی کہنے لگے۔عربی زبان تاریخی، لسانی ، ادبی ، دینی اور دنیاوی پہلوؤں سے امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ تاریخی اعتبار سے عربی زبان دنیا کی سب سے پہلی زبان ہے۔اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جس زبان میں اسماء (ناموں) کی تعلیم دی وہ بہ ا تفاق روایات عربی ہی تھی۔نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب البلغۃ فی اصول اللغۃ میں ایک روایت ذکر کی ہے کہ سب سے پہلی زبان جس کو لے کر آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے وہ عربی تھی۔علامہ سیوطی نے اپنی کتاب اتقان میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جتنے بھی آسمانی صحیفے اور کتابیں نازل ہوئیں سب عربی میں تھیں۔روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں فرشتوں کا سوال وجواب بھی عربی میں ہوگا اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہوگی۔ لسانی اعتبار سے دنیا کی کوئی اور زبان کسی بھی پہلو سے عربی زبان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔مثلا یہ ۲۸ حروف پراور بعض ماہرین لغت کے بقول ۲۹ حروف پر مشتمل ہے۔ اس کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ہر حرف کا کوئی نہ کوئی معنی ہے۔ مثلا لفظ (ب) استعانت اور مددکے لیے آتا ہے اور (لام) اور (ت) قسم کھانے کے لیے۔ ہر حرف ایک خاص مخرج اور خاص صوتی آہنگ سے ممتاز ہوتا ہے۔اس کی وسعت میں دنیا کی کوئی دوسری زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ایک اندازے کے مطابق فرانسیسی زبان صرف ۲۵ ہزار الفاظ اور انگریزی ایک لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے جب کہ ابن درید کی جمہرہ اور خلیل بن احمد کی العین کے مطابق عربی میں پانچ کروڑ چھ لاکھ انسٹھ ہزار چار سو الفاظ ہیں۔اور ان میں سے پانچ کروڑ چھ لاکھ بیس ہزار مستعمل ہیں اور باقی مہمل ومتروک۔اس کے بیشتر الفاظ تین حروف پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد چار اور پانچ حروف پر۔کیونکہ چار اور پانچ حروف والے الفاظ کو بولنا مشکل ہوتا ہے۔ عربی زبان کا سب سے خوب صورت لفظ لفظ اللہ ہے۔اسے عربی میں لفظ الجلالۃ کہتے ہیں۔لفظ اللہ کا لام ثقیل یعنی پُر پڑھا جاتا ہے۔ اس کی ادائیگی کے وقت دونوں ہونٹ آپس میں نہیںملتے اور انسان ایک خاص کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ اس لفظ کا اعجاز یہ ہے کہ اس کے کسی بھی حرف کو حذف کردینے کے بعد بھی یہ لفظ اللہ کے مفہوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اعراب عربی زبان کا وہ طرۂ امتیاز ہے جو دنیا کی کسی اور زبان میں موجودنہیں۔اسی اعراب کی وجہ سے الفاظ کی حرکتوں کی جانکاری حاصل ہوتی ہے۔فعل فاعل اور مفعول کا پتہ چلتا ہے اور کسی بھی لفظ کو جملے میں مقدم وموخر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ایجاز کے اعجاز کا یہ عالم ہے کہ لفظ الحمد کا ترجمہ یہ ہے کہ تعریف وتوصیف کی جتنی شکلیں دنیا میں ہوسکتی ہیں، یاآئندہ ہوںگی سب اس رب کائنات کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ خصوصیت لفظ الحمد میں صرف ال سے پیدا ہوتی ہے۔ مترادفات واضدادکی بھی شاندار خصوصیت سے یہ زبان آراستہ ہے۔ علمائے لغت نے سال کے لیے ۲۴ نام، روشنی کے لیے ۲۱ نام، تاریکی کے لیے ۵۲ نام، کنویں کے لیے ۸۸ نام ، پانی کے لیے ـایک سو ستر نام، شیر کے لیے تین سے پچاس نام، اونٹنی کے لیے دو سو پچپن نام ذکر کیے ہیں۔عربی میں ایک لفظ سے کئی معانی بھی نکالے جاتے ہیں۔ فال ستائیس معانی کو ظاہر کرتا ہے ، تو عین کا لفظ پینتیس معانی کو اور عجوز کا لفظ ساٹھ معانی کو۔ ادبی اعتبار سے یہ زبان ایک عظیم ادبی سرمائے سے ممتاز ہوتی ہے۔ اس زبان کا سب سے اعلی ادبی شہ پارہ قرآن کریم ہے اور رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم اس زبان کے سب سے فصیح وبلیغ انسان ہیں۔ آپ نے خود فرمایا ہے انا افصح العرب (میں عربوں میں سب سے فصیح وبلیغ انسان ہوں)زمانۂ جاہلیت سے لے کر موجودہ زمانے تک اس زبان کے ادب نے ایسے ایسے گلہائے سر سبد کھلائے ہیں جن کی وجہ سے عربی شعر وادب کا گلشن آج بھی معطر ومعنبر ہے۔جب علم عروض کے موجد وموسس خلیل بن احمد فراہیدی نے وجودکا جامہ نہیں پہنا تھا اور علم عروض کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا اس وقت اس زبان نے وہ معیاری شاعری تخلیق کی جو نہ صرف تخیل کی فراوانی، جذبے کی صداقت وحرارت اور استعارہ وکنایہ کی رمزیت سے ممتاز ہوتی ہے بلکہ جس کا کوئی بھی مصرع وزن سے خارج نہیں۔آج تک اس زبان میں اتنے شعراء پیدا ہوئے جن کا شمار مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ دینی اور مذہبی اعتبار سے اس زبان کی عظمت وفضیلت اور مرتبت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس زبان میں اللہ کا مقدس کلام نازل ہوا۔اللہ کے مقدس کلام ہی کا اعجاز ہے کہ صدیوں سے اس زبان کے کسی لفظ یا کسی حرکت اور زیر وزبر میں کسی قسم کی تبدیلی یا تحریف نہیں کی جاسکی۔اسی زبان میں اللہ کے حبیب نے کلام کیا اور کہاجاتا ہے کہ اہل جنت بھی اسی زبان میں گفتگو کریں گے۔یہ نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے بلکہ عالم عرب میں واقع ارٹھوڈکس ،اور پروٹسٹنٹ عیسائی چرچ میں بھی مذہبی شعائر کی ادائیگی عربی زبان ہی میں ہوتی ہے۔ دنیاوی اعتبار سے عربی زبان دنیا کی تین ہزار زبانوںمیں سے ایک اہم زبان ہے۔یہ چار سو بائیس ملین عربوں کی قومی اور ایک ہزار ملین مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ تقریبا بائیس عرب ممالک میں لکھی ، پڑھی ، بولی اور سمجھی جاتی ہے۔مسلمانوں کے ہندوستان آمد کے ساتھ عربی زبان ہندوستان میں وارد ہوئی ۔نماز جیسے اسلامی شعائر وعبادات کی ادائیگی، اور اللہ کے کلام کی تلاوت ، اور فقہ وشریعت کے فہم کے پیش نظر مسلمانوں نے ہر دور میں اس زبان کا اہتمام کیا اور اس کے تعلیم وتعلم کے وسائل پیدا ہوتے رہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ عربی زبان کی تدریس وتعلیم محض اسلامی نقطۂ نظر سے ہوتی تھی لیکن ماضی قریب میںعرب ممالک میں پٹرول اور گیس کی پیداوارکے بعد نہ صرف پوری دنیا کی توجہ عرب ممالک کی طرف بڑھ گئی بلکہ عالمی بازار میں عربی زبان کی حیثیت واہمیت میں بے انتہااضافہ ہوگیا ہے اور عربی زبان تجارت وصنعت وحرفت کی زبان بن گئی ہے۔گذشتہ زمانوں میں عربی کی تعلیم وتدریس کا زیادہ تر تعلق مذہبی تعلیم سے تھا مگر آج کے زمانے میں یہ کسب معاش کا بھی یہ ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے جہاں ہندوستان میں بے شمار مدارس قائم کیے گئے اور عربی زبان کی تدریس کا سلسلہ جاری کیا گیا وہیں موجودہ زمانے میں عصری جامعات میں اس زبان کا بہت زیادہ اہتمام شروع ہوگیا ہے۔ ہندوستان کی ہر مرکزی یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ تقریبا تمام ریاستی یونیورسٹیوں میں بھی عربی کے شعبے قائم ہیں جہاں سے ایسے فضلاء پیدا ہورہے ہیں جو نہ صرف کلاسیکی عربی زبان پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ انہیں کاروباری ضروریات کے پیش نظر جدید عربی زبان پر دستر س کے ساتھ عربی اور انگریزی اور انگریزی وعربی ترجموں پر بھی بے انتہا قدرت ومہارت حاصل ہے۔ 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا