اردو ادب کی منفرد شاعرہ: حبیبہ اکرام خان

0
98

۰۰۰
محمد قمرانجم فیضی
میڈیا سکریٹری ایم ایس او،یوپی
۰۰۰

معروف قلمکار محسن حجازی لکھتے ہیں: اردو شاعری غالباً اتنی ہی پرانی ہوگی جتنی کہ اردو ،قیاس اس بنیاد کی تقین پر ہے کہ فارغ البال لوگ ہر دور میں ہوتے ہوں گے اب اردو کی تاریخ سے تو ہم زیادہ آگاہ نہیں تاہم اردو کے اساتذہ پر نظر ڈالی جائے تو کسی خاتون شاعرہ کا نام کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اب خواتین شاعرات کی تعداد نہ صرف اچھی خاصی ہے بلکہ اب تو اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہرچوتھی خاتون شعر گوئی کی صلاحیت سے مالامال نظر آتی ہے۔ نیز اسی حوالے سے پاکستان کی بیحد مقبول ادیبہ ڈاکٹر نزہت عباسی لکھتی ہیں_ اردو زبان و ادب اج جس تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے،اسے سینچنے ، سنوارنے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین قلم کاروں و شاعرات نے بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔بالکل ابتدائی دور میں اردو زبان و ادب کے اسمان پر مردوں کا ہی غلبہ اور بول بالا تھا۔لیکن جب خواتین کو اپنی بات کہنے اور اپنی تخلیقات کو منصئہ شہود پر لانے کا موقع ملاتو انہوں نے بھی تمام اصناف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اور اردو زبان وادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
عربی‘ فارسی اور اردو شاعری میں نعت اپنے تنوع ‘ مقدار ‘ موضوع اور معیار کے اعتبار سے تمام اصنافِ شاعری میں نمایاں اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اردو کی نعتیہ شاعری میں جہاں مرد شعرائ￿ نے عقیدت و محبت کے گلزار کھلائے ہیں،وہیں خواتین شاعرات نے بھی حضورسرورِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں اپنے احساسات ‘ جذبات‘ خیالات اور کیفیات کا نہایت پاکیزگی اور وارفتگی سے اظہار کیا ہے، اور نعت کے تمام موضوعات اور اسالیب کو اپنے نسائی اسلوب میں پیش کیا۔ان خواتین شعراء نے حضور کی زندگی اور سیرت کے توسط سے انسانی زندگی کے تمام مذہبی ‘ تہذیبی‘ سماجی پہلوؤں کو بیان کردیا ہے۔ حضور کے اسوہ حْسنہ ‘ حلیہ اقدس ‘شمائل و فضائل‘ عبادات‘ آدابِ مجلسِ ‘ معجزات ‘ حسنِ انتظام وغیرہ کے ساتھ حضور کی کیفیات کو بھی نہایت دلگداز انداز میں بیان کیا ہے۔ انہیں عظیم ترین شاعرات و قلمکاروں میں ایک اہم اور معتبر نام مشہور و معروف صحافی ادیبہ مقبول ترین شاعرہ محترمہ خان ام حبیبہ اکرام ممبئی کا بھی ہے۔ آپ کا مختصر تعارف پیش قارئین ہے۔
آپ کا نام خان ام حبیبہ ہے والد ماجد کا نام اکرام حسین ہے اسی نسبت کی بنیاد پر مکمل نام حبیبہ اکرام لکھتی ہیں۔ آبائی وطن بسڈیلہ ضلع سنت کبیر نگر یوپی ہے مگر فی الحال پوری فیملی مہاراشٹرا میں سکونت پذیر ہے ، آپ وہیں 23/فروری 1993ء / میں پیدا ہوئیں، اور پوری فیملی میں واحد لڑکی ہیں جنھوں نے اردو زبان وادب کی خدمات حاصل کی، تصنیف و تالیف،صحافت کے میدان میں قدم رکھا، نیز پورے خاندان میں آپ ہی ہیں جنھوں نے اعلی تعلیم گریجویٹ ،جرنلزم ڈی ایڈ،ایم اے ،وغیرہ، حاصل کر کے اپنے خاندان کا نام روشن و تابناک کیا ہے ، اور اردو زبان و ادب کے قد آور شخصیات سے کئی سندی اعزاز، ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
ابتدائی دور سے ہی تحریر و تصنیف، صحافت،نیز شعرو شاعری سے خاصہ شغف رکھتی ہیں، آپ نے شاعری کی ابتداء 2018ء / میں کی اور جناب توقیر رضا میکش جرولی سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ آپ سوشل میڈیا سائٹ پر کافی سرگرم رہتی ہیں، بین الاقوامی سطح کے مشاعروں میں بڑے بڑے شعراء و شاعرات کے ساتھ مشاعروں میں مدعو کی جاتی ہیں ، آپ بہترین لب و لہجے کی مالکہ ہیں، زیادہ تر اپنی ہی لکھی ہوئی غزل پڑھتی ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ جرنلزم کا کورس بھی مکمل کیا ہے جس کی بنیاد پر بہترین اور حالات حاضرہ کے مطابق معاشرے کے اہم ترین مفسدات کے سد باب کے لئے مضامین اور افسانچے بھی وقت بر وقت لکھتی رہتی ہیں۔
ان کے نعتیہ اشعار پڑھ کر یہی محسوس ہوتاہے کہ انھوں نے جذبہ صادق میں مستغرق ہو کر اپنے جذبات کو نعتیہ اشعار کی صورت میں تطہیر کیا ہے۔ عشقِ رسول میں سر شار ہو کر نعت گوئی کو بخشش کا سامان اور اللہ و رسول کے قرب کا وسیلہ بنایا ان کے کلام میں جذبات کی فراوانی بھی ہے اور سخنوری کی دلنوازی بھی۔ علم کے خزانے بھی ہیں اور فکر کی گہرائی بھی۔ حضور کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں انسانی زندگی کے مسائل کے حل تلاش کرنے کی کوشش بھی نظر آتی ہے۔ اگر سردست غزلیہ کلام کی بات کریں تو
خان حبیبہ اکرام صاحبہ نے اپنے غزلیہ اشعار میں اپنے جذبوں کی تمام صداقتوں کو سمو دیا ہے۔ ان کی شاعری دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ ان کی نعت کے رباعیات ان کے عشقِ رسول کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کینعتیہ اشعار کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوقِ عقیدت کو نہایت سلجھے ہوئے الفاظ میں پیش کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں ان کی غزل گوئی کہیں نہ کہیں ان کی قادر الکلامی اور فن شعر گوئی پر کمال مہارت اور جذبہ ایمانی کی صداقت کو ظاہر کرتے ہیں__
حبیبہ اکرام صاحبہ کی شاعری کی زبان نہایت سادہ اور سسلیس ہے۔ وہ غزل کہیں یا حمد، نعت منقبت رباعیات یا مخمس زبان کی سادگی شگفتی اور برجستگی برقرار رہتی ہے۔ انداز ایسا ہے کہ بات سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ اور قاری شروع سے آخر تک پڑھنے پر مجبور ہوجاتا ہے، نعت میں عشق رسول کے جذبات کا ایک دریا ہے جو موجزن نظر اتا ہے۔ ان کے یہاں بلا کا سوز و گداز ہے۔
رسول کریم علیہ الصلوٰ? والسلام کے روضے کے دیدار کی تڑپ، عشق رسول کی کیفیت اور جذبات کی پاکیزگی حبیبہ اکرام کے ان اشعار سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
__________
نگاہ مصطفی جس شخص پر پڑی ہوگی
حبیبہ اس کی تو دنیا سنور گئی ہوگی
فرشتے آکے کریں گے ہمارا استقبال
در رسول پہ جس روز حاضری ہوگی
ملک کے حالات کے پیش نظر بیٹیوں کی تکالیف محسوس کرتی ہوئی
آپ لکھتی ہیں۔۔۔۔۔
ستم تو دیکھئے کرتے ہیں اپنی شان کا سودا
جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کرتے نہیں نقصان کا سودا
حفاظت ہم کریں گے بیٹیوں کی جن کا نعرہ تھا
وہی اب کر رہے ہیں بیٹیوں کی جان کا سودا
جو تھے بلقیس کی عزت پہ ڈاکہ ڈالنے والے
حکومت ان سے کر بیٹھی ہے اب ایمان کا سودا
سزا ان کو ملے جو بیٹیوں پر ظلم ٍڈھاتے ہیں
ہم ہر گز نہیں منظور یوں سمّان کا سودا
حبیبہ محسن ہندوستاں وہ خود کو کہتے ہیں
جنھوں نے کر لیا ہے ملک ہندوستان کا سودا
اپنے غزل کے صداقت و ایمانداری کے حوالے سے لکھتی ہیں___
چھپا کر اپنے آنسو میں ہمیشہ مسکراتی ہوں
غموں پر میں خوشی کے رنگ بآسانی
چڑھاتی ہوں
میں ہوں اردو کی بیٹی میرے لہجے میں ہے شیرینی
مخاطب جس سے ہوجاتی ہوں اس کا دل لبھاتی ہوں
مری غزلوں میں تہذیب و صداقت پائی جاتی ہے
ادب کے دائرے میں رہ کے حالِ دل سناتی ہوں
سخن والوں میں ہوتی ہیں کبھی جب حاضری میری
حبیبہ اپنا شعری ذوق میں بھی آزماتی ہوں
______
ماں باپ کے حوالے سے یہ شعر قابل تحسین و آفرین ہے:
اس کی قسمت میں میسر نہ نوالا ہوگا
بوڑھے ماں باپ کو جو گھر سے نکالا ہوگا
قارئین کرام، محترمہ حبیبہ اکرام کے مضامین اور غزلیں ملک ہندوستان و بیرون ملک کے موقر و مستند اخبارات، ویب سائٹ اور رسائل و جرائد میں روز، بروز، ماہ در ماہ شائع ہوتے رہتے ہیں، جسے قارئین پڑھ کر خوشی حاصل کرتے ہوئے اردو ادب کی چاشنی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ اب تک آپ نے کئی افسانے لکھ چکی ہیں، لیکن آپ کے افسانوں میں (1) اعتبار، (2)دل کے رشتے(3) سبھی دیوانے جہیز کے،
نامی افسانچے اردو خواں حلقے میں کافی پسند اور بے حد مقبول ہوئے ہیں۔نیز ایک تخلیقی کاوش بنام "سسکیاں” جوکہ 100/ صفحات پر مشتمل ہے منظر عام پر آکر اردو خواں حلقے میں داد و تحسین حاصل کر رہی ہے۔
یہ بھی اشعار قابل مطالعہ ہیں_
____
کن سوچوں میں ڈوب گئے ہو تم بھی نا
خود ہی خود سے بھاگ رہے ہو تم بھی نا
تم کو دیکھے بن اک پل بھی چین نہیں
ایسے دل میں آن بسے ہو تم بھی نا
لاکھ جتن کر کے دل تم کو بھولا تھا
پھر سے مجھ کو آن ملے ہو تم بھی نا
تھک ہاری میں ڈھونڈ تمہیں ویرانوں میں
لیکن تم تو دل میں چھپے ہو تم بھی نا
دو قالب یک جان ہیں ہم تم جان وفا
پھر کیوں مجھ سے دور کھڑے ہو تم بھی نا
اب کی بار جدائی سہہ نا پاؤں گی
پھر سے مجھکو چھوڑ چلے ہو تم بھی نا
آج تو ہیں انداز سبھی بیگانوں سے
اپنے ہوکر غیر بنے ہو تم بھی نا
ایسا بھی کیا جرم ہوا ہے سوچو تو
ہاتھ چھڑا کر چل دیتے ہو تم بھی نا
دو شعر اور ملاحظہ کریں___
افسوس ترے دل کی سدا ہو نہ سکی
فریاد وفا حرفِ دعا ہو نہ سکی
مدت سے رلایا ہے مجھے تم نے جو
ہر بات سہی پھر بھی خفا ہو نہ سکی
کسی صاحب نے ان کی ایک نظم کو سرقہ کرکے تھوڑا سا رد و بدل کرکے اپنی نظم بتا کر کئی اخبارات میں تصویر کے ساتھ شائع کروایا تھا، اس وقت انہیں اپنا ادبی اور ذہنی کاوشوں سے تیار شدہ نظم کے چوری ہوجانے پر کافی رنج و ملال ہوا تھا، اس موقع پر انھوں نے کلام و مضمون چوری کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کچھ اشعار قلمبند کی تھیں،پیش قارئین و ناظرین ہے اور پڑھ کر بخوبی اندازہ لگائیں کہ اس کارکردگی میں اور اپنی بات قاری کے ذہن میں پیوست کرنے میں انھوں نے کتنی کامیابی حاصل کی ہے …
دے کے صدقہ تجھے رسوا کروں مجھے منظور نہیں
تیری غیرت کا تماشہ کروں مجھے منظور نہیں
میری غزلیں مری نظمیں مری میراث ہیں کْل
میں کسی اور کو صدقہ کروں مجھے منظور نہیں
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا