ناول’ لفظوں کا لہو‘ کا تنقیدی جائزہ

0
108

ڈاکٹرسیّد احمد قادری

اپنے افسانوں،ناول، تنقید اور صحافت کے حوالے سے سلمان عبدالصمد اردو دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان بنا نے کے بہت قریب ہیں۔ 2016 ء میں ان کا ناول ’’لفظوں کا لہو‘‘ منظر عام آیا اوربہت ساری خصوصیات اور حسن و معیار کے باعث اس ناول کو نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ ادبی حلقوں میں موضوع بحث بھی رہا۔ اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی کے درمیان جو چند ناول سامنے آئے اور ان پر جو مضامین لکھے گئے ان میں سلمان عبدالصمد کے اس ناول کا تذکرہ بھی خوب رہا۔ اس ناول کی شہرت اور مقبولیت کا ہی یہ ثمرہ ہے کہ 2019 ء میں اسے ساہتیہ اکادمی کے یوا ساہتیہ پورسکار کا اعزاز بخشا گیا۔
عہد حاضر کے جبر، ظلم، استحصال، حق تلفی،عدم رواداری اور ناانصافیوںکے گھٹن بھرے ماحول میںجس طرح لوگ،سماجی انتشار،خوف و دہشت اور سراسیمگی کے عالم میں جینے پر مجبور ہیں۔ ان کی بھرپور عکاسی اس ناول میں کی گئی ہے۔ہمارا سماج،معاشرہ اور اس سماج و معاشرے کی خواتین جو عہد حاضر میں اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم کی جارہی ہیں۔ مختلف طرح کے استحصال، ان کے ہر بڑھتے قدم کو روک رہا ہے۔ خواتین کو آزادی اور ان کے حقوق دینے کی باتیں تو کی جا رہی ہیں لیکن در حقیقت ان کے سیاسی و سماجی استحصال کا سلسلہ تھم نہیں رہاہے۔ ایسے بہت سارے مسائل کے خلاف احتجاج کرنے اور آواز اٹھانے والی صحافت کی بے اعتنائی اور صارفیت کے ہجوم میں اپنی تمام تر صحافتی ذمّے داریوں کو فراموش کر دینے والی صحافت کی کریہہ شکل کو بھی بے نقاب کرنے کی سلمان عبدا لصمد نے اپنے اس ناول میں کامیاب کوشش کی ہے۔
سلمان عبدا لصمد نے عہد حاضر کی کربناکیوں کو جس طرح اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے۔وہ اس امر کا غمّاز ہے کہ موجودہ عہد کے دھندلکے میں زندگی کی جو رعنائی، شادمانی، سرشاری، انبساط معدوم ہوتی جا رہی ہیں ان کے تئیں سلمان عبدا لصمد فکر مند ہیں اور صحافت جو کہ سماج کے ناسور پر نشتر لگانے اور سماج کے دکھ درد سے پریشان حال لوگوں کے زخموں سے بھرے دلوں پر مرہم لگانے کا بھی کام کرتی ہے۔ وہ صحافت اپنے مثبت راستے سے بھٹک کر ایسی راہ پر چل پڑی ہے، جو ملک وقوم کو تباہی وبربادی کے دہانے تک پہنچا سکتی ہے۔ اس ناول کی ابتدا ٔمیں محسن جس طرح ایک اہم کردار بن کر سامنے آتا ہے۔ اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ ناول کا یہ مرکزی کردار ہے۔ لیکن ناول جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اور زنیرا، نائلہ اور نیلا ناول کے حدود میں داخل ہوتی ہیں ویسے ویسے ناول کا منظر نامہ بدلتا چلا جا تا ہے۔ یہ لڑکیاں اپنے استحصال کے خلاف اور نسائی آزادی کی پرزور صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خواتین اپنی خودداری اور نسوانی حقوق کی پامالی کی تمام تر زنجیروںکو توڑ دیںگی۔
ـَ ’ہم تو بیڑیاں توڑنے ہی نکلے ہیں‘۔ (صفحہ: 219 )
اپنے ناول کی جزئیات کو سلمان عبدا لصمد نے اس خوبصورتی اور فنکارانہ ڈھنگ سے بیان کیا ہے کہ قاری ان کے تخلیقی اسلوب میں ڈوبتا چلاجاتا ہے اور یہی اس ناول اور ناول نگار کے فکر و فن کا حسن و کمال ہے۔ یہ ایک اقتباس دیکھئے، جو بہت کچھ عیاں کر تا ہے:
’’ قیمتی سرمایے پر مول بھاؤ کرنے والے ایڈیٹر کے ساتھ ذرا بازاری پن کا سا رویہ کیا گیا تھا -بس اتنا ہی نا: لیکن ان ہی بازاری لفظوں میں نیلا نے ایڈیٹر کو ایسا پھانس لیا کہ:
یہ مجبوری تھی اس کی۔
حالات کا تقاضا تھا۔
قوانین کی بساط پر انوکھا کھیل تھا — اپنے مطلب کے لئے نہیں، معاشرہ کی بھلائی کے لئے!
کچھ کر گزرنے کے لئے!
نئی پہل کے لئے!
کیڑے مکوڑوں کا صاف کرنے کے لئے!
جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے!
(لفظوں کا لہو، صفحہ: 190)
سلمان عبدالصمد نے صحافت کی پگڈندیوں پر بھی سفر کیا ہے اور اس سفر میں اپنے پاؤں کو لہولہان کیا ہے اور ان رِستے لہو کے ہر قطرہ میں ایک نئی داستان چھُپی ہے۔ اپنے صحافتی سفر میں انھوں نے صحافت کی معدوم ہوتی قدروں اور سیاست کی چیرہ دستی کو بہت قریب سے دیکھا اور شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے اپنی محسوسات کا اظہار اپنے ناول میں فکری و فنّی آمیزش کے ساتھ کیا ہے۔ سلمان عبدالصمد نے ناول کے ساتھ ساتھ افسانوی ادب میں بھی اپنے وجود کا احساس کرایا ہے۔ ان کے کئی افسانے مثلاََ دامور داس، چوتھا ستون، بریانی، گاگل، نیا خدا اور نیا بجوکا وغیرہ اپنے متنوع موضوعات، کردار نگاری اور جزیات نگاری کے باعث اہمیت کے حامل ہیں۔ ان افسانوں میں سلمان عبدالصمد نے اپنے مشاہدات کا بڑی چابکدستی اور فنکارانہ انداز میں منفرد اسلوب کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ دیہی سماج کو اپنے افسانے کا موضوع بنا کر انھوں نے ایک خاص تاثر دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ صارفیت کے اس دور میںہماری تہذیب اور قدریں کس طرح پامال ہو رہی ہیں۔ ایسے موضوعات پر بھی سلمان عبدالصمد کے کئی عمدہ افسانے ہیں۔ اپنے افسانہ ’’نیا بجوکا‘‘ میں سریندر پرکاش کے مشہور افسانہ ’بجوکا‘ کی روایت کو آگے بڑھانے کی بھی انھوں نے کامیاب کوشش کی ہے۔ سریندر پرکاش کے دور میں بجوکے فصل تیار ہونے کے بعد اپنے حصے کا مطالبہ کرتے تھے،لیکن سلمان عبدالصمد کے دور کے بجو کے ایسے ہیں جو شہر میں بھی موجودہیں اور کسانوں کا استحصال کرنے میں آگے نظر آتے ہیں۔ سلمان عبدالصمد کے کردار یوں توویسے ہی ہیںجنھیں پریم چند اور سریندر پرکاش نے پیش کیا ہے، لیکن سلمان عبدالصمدنے ان کرداروں کی حالیہ نسل کے معاملات زندگی سے رشتہ استوار رکھا ہے۔ جس کی وجہ کران کے کردار ماضی میں مدغم ہوتے ہوئے بھی حال کے نمائندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سلمان عبدالصمد کی افسانہ نگاری کی یہی رفتار رہی تومستقبل میں ان سے مزید اچھے اور معیاری افسانوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔
سلمان عبدالصمد اپنے تنقیدی مضامین کے حوالے سے بھی اپنی ایک خاص شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مکتوباتِ اکبر، مجالس النسائ، تضاداتِ نیاقانون، عصمت کے فکشن میں مماثل عناصر،علاقائی تناظر میں صحافت، خسرو کا ہندوی کلام: محتویات واشکالات،ولی کی دلی آمد اور ان کی لسانی عظمت اور اقبال کا تصور فرد اور سماج، فاروقی کی تنقید اور شعر شوانگیز پر سوالات، کے علاوہ کئی دوسرے مضامین میں بھی انھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت کا بیّن ثبوت پیش کیاہے۔ ان کے غیر مطبوعہ مضامین مسودے پر پروفیسر عتیق اللہ نے لکھا ہے:
’’سلمان عبدالصمد میں جو بصیرت ہے اس کے اہل کم ہی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی نسل میںنمایاںدکھائی دیتے ہیں۔ فکشن میں شاعری ہی کی طرح گہری ساخت میں معنی کے کئی ابعاد پردہ خفاد میں ہوتے ہیں انھیں نمایاں کرنے کی کوشش اگر سلمان کے تجزیوں میں ملیت ہے تو اسے ضرور سراہنے کی ضرورت ہے۔ ان کا ذہن ناقدانہ ہے۔ا ن کے متن ہی نہیں زبان بھی قدرے انحراف کی مظہرہے۔ وہ بڑا اچھا نفسیاتی درک رکھتے ہیں۔ ان سے بہت سی امیدیںوابستہ کی جاسکتی ہیں۔ ‘‘
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سلمان عبدالصمد نئی نسل اور نئی فکر کی بھرپور نمائندگی کرنے میں بے حد کامیاب ہیں۔ اب جب کہ وہ ملک کی ایک اہم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سلمان عبدالصمد اپنے بعد کی نسل کو اردو زبان و ادب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ جدید ادب تک کے سفر کو اپنے افکار و خیالات کی روشنی میں آگے بڑھانے کا فریضہ بخوبی انجام دیںگے۔ سلمان عبدالصمد نئی نسل کے فنکاروں میں اس لئے بھی اپنی انفرادیت رکھتے ہیں کہ انھوں نے اردو افسانے، ناول اور تنقید کے ساتھ ساتھ اردو صحافت میں بھی اپنی گرانقدر خدمات سے ان اصناف ادب و صحافت میں ایک منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اپنی ان صلاحیتوں،تجربات اور خدمات سے وہ درس و تدریس کے میدان میں بھی ایک مقام حاصل کریںگے، اس کی مجھے توقع ہے۔سلمان عبدالصمد کے اس مختصر تعارف کے بعد ہم ایک بار پھر ان کے ناول’’ لفظوں کے لہو ‘‘ کی طرف لوٹتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے ناول کے کئی اہم پہلو ہیں۔ صحافت اس کی نمایاں خصوصیت ہے جس کے متعلق مندرجہ بالا سطور میں گفتگو کی گئی ہے ۔ یوں تو پریم چند اور حیات اللہ انصاری نے اپنے ناولوں میں صحافت اور صحافیوں کو کردار کے طور پر پیش کیا ہے مگر ظاہر سی بات ہے کہ صحافت کا منظم نظام اس زمانے میں موجود نہیں تھا ۔ اس لیے صحافت کے متعلقات اس طرح ان کے ناولوں میں نہیں آسکتے تھے ۔ آج صحافت کی اہمیت اور افادیت دوچند ہے ۔ میڈیا نے سماج کو سونا پڑھنا لکھنا سکھارہا ہے ۔معاشرتی تشکیل میں اس کا اہم کردار ہے ۔ اس لیے اُس زمانے کی بہ نسبت موجودہ عہد کے ناولوں میں صحافت کو پیش کرنا ممکن ہوسکتا ہے ۔ سلمان عبدالصمد نے یقیناصحافت کے جن مباحث کو اپنے ناول میں جگہ دی وہ اہم ہے ۔ اس ناول میں فقط صحافت کی ابتری کا ذکر کا نہیں بلکہ ان صحافیوں کی زندگی کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی جو یقینا صحافی ہوتے ہیں مگر ان کا استحصال ہوتا رہتا ہے ۔اس ناول کے دیگر پہلوؤں کی وضاحت سے قبل ناول کے فلسفیانہ اساس پر توجہ ضروری ہے۔ کیوں کہ فلسفیانہ اساس نے بھی اس ناول کو بامعنیٰ بنایاہے :
’’ انسانی ذہن ایک ایسا قبرستان ہے جہاں معقول سوالات کو چٹکیوں میں دفنا دیا جاتا ہے۔ ان دفن ہونے والے سوالوں کی تعداد شاید دنیا بھر میں مرنے والے انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کیوںکہ ایک انسان کے اندر ایک سوال دفن نہیںہوتا!انسانی آنتوںکو چاک کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مفاد کی خاطر لاکھوں سوالات زندہ درگورکردیے گئے۔‘‘ (ایضاً؛ص : 12)
اس اقتباس میں صحافت کی بنیاد کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے ۔ کیوں کہ میڈیا یا صحافت میں سوال کو اساس کا درجہ حاصل ہے ۔ ناول نگار نے سوال کے مسئلے کو فلسفیانہ تناظر میں پیش کیا ہے۔ مذکورہ جملوں میں جہاں صحافت پر طنز ہے،وہیںمعاشرے کو سوال کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ یہ اقتباس نہ صرف صحافت کے پس منظر میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ غیر آزاد ذہنیت پر بھی ایک طنز ہے ۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہے کہ سوال دفن کردینے یاسینے میں سوالوں کو اپنی موت مرنے دینے سے دنیا کے بہت سے کام نہیں ہوپاتے ہیں۔ سوال زندہ دلی کی علامت ہے ۔ بہترین معاشرے کے لیے لازمی ہے ۔ ناول کی شروعات میں جس طرح سوالات کی عظمت واضح کی گئی ہے اس سے ناول دل چسپ بھی ہوجاتا ہے اور از اول تاانتہا مربوط بھی نظر آتا ہے ۔ صحافت کے پس منظر میں ایک دوسرا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’عوام اخبار خریدتے ہیں اور سیاست داں اخباروالوں کو۔پھر اخبار والے قلم والوںکو خرید لیتے ہیں۔یہاںپہنچ کر خرید نے کا مرحلہ تمام ہوجاتا ہے اور شروع ہوتا ہے بیچنے کاسلسلہ۔ اس سلسلے میں قلم کی نب کے عوض قوم بک جاتی ہے۔ گویا آج صحافت خریدنے سے زیادہ بیچنے یابِک جانے میں یقین رکھتی ہے۔ (ایضاً؛ص ؛ 54)
ناول نگار نے معاصر میڈیا کی جو تصویر پیش کی ہے وہ حقیقی تصویر ہے ۔ عالمی اور ملکی میڈیا کی جو صور ت حال ہے،انھین بڑی خاش اسلوبی سے یہاں بیان کیا گیا ہے ۔ حالیہ دنوں میںرویش کمار ، اڈانی ، حکومت اور میڈیا گھرانے سے میڈیا کا جوچہرہ سامنے آیاہے اس سے نہ صرف میڈیا کی ساکھ خراب ہوئی ہے بلکہ ابلاغ وذرائع پر جو لوگوں کا اعتماد اور اعتبار تھا، وہ ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ ناول نگار نے ان ناگفتہ بہ حالات کو بھی شدّت سے محسوس کیا ہے ۔ایسی صحافت کو سامنے رکھتے ہوئے صحافت اور سیاست کے درمیان جو متنازعہ رشتے دیکھنے کو مل رہے ہیں انھیں بھی بڑی خوبصورتی سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس ضمن میں یہ اقتباس دیکھیں، جو چونکاتا ہے:
’’کوکھ اور نطفے کی سلامتی سے بچہ ثابت النسل ہوتاہے مگر سیاست وصحافت کے درمیان آج اتنے ناجائز تعلقات ہیں کہ ان کی جنس مشکوک ہوکر رہ گئی ہے۔ اس لیے پتا ہی نہیں چلتا کہ کس کانطفہ ہے اور کس کی کوکھ، بچہ تو بچہ اب خبر وخیال بھی ثابت النسل نہیں۔ (ایضاً :ص ؛ 65)
صحافت میں کہا جاتا ہے کہ میڈیا میں آنے والی خبروں میں سب سے زیادہ صداقت کھیل کی خبروں میں ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اس میں فقط اطلاعات مقصود ہوتی ہیں۔ ادارتی صفحہ ہوں کہ خبر کے تعلق سے دیگر خبروں سے بھرے صفحات، ان میں جانب داری کی کہانی چھپی ہوتی ہے ۔ مدیراپنی منشا کے مطابق خبر میں عناوین لگاتے ہیں۔ گویا خبر میں جانب داری کئی سطح پر برتی جاتی ہے ۔ کبھی عناوین سے تو کبھی لے آوٹ سے ، کبھی لفظوں میں ہیر پھیر سے، مگر کھیل کی خبروں میں ایسی کوئی کیفیت نہیں ہوتی ہے۔ اس صور ت حال کے مدنظر مندرجہ بالا اقتباس کو دیکھیں تو حقیقت اور فسانے کا ادغام بھی نظر آئے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتاہے کہ ان دنوں واقعی خبروں کی صداقت بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے ۔
اس پورے تناظر میںدیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سلمان عبدالصمد کا یہ ناول’’ لفظوں کا لہو ‘‘ پہلا ناول ہے ۔جس میں ایک نوجوان فنکار نے میڈیا اور معاشرتی رشتوں کو کسی پہاڑی کے ٹیلے پر کھڑے ہو کر نہیں دیکھا ہے بلکہ بہت قریب سے دیکھا اور شدّت سے محسوس کیا ہے اور اپنی ان محسوسات کو فنکارانہ طور پر پیش کرتے ہوئے فکر ومعنیٰ کی ایک دنیا بسائی ہے۔انداز بیاں میں کہیں کہیںخام زبان دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس میں صحافت اور تخلیقی زبان و بیان میں فرق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔حالانکہ ایسی خامی صرف اس ناول میں ہی نہیں ہے ،بلکہ عہد حاضر میں لکھے گئے کئی ناولوں کا یہ المیہ ہے ۔جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
سلمان عبدالصمد نے اپنے اس ناول ’’ لفظوں کا لہو ‘‘ میں سیاست اور صحافت کے درمیان کے رشتے کوبڑے ہی خوبصور ت اندازمیں پیش کیا ہے ۔ ساتھ ہی انھوں سماج کے اندر سوتنوں کے معاملات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ جس میں رشتوں کے بہت سارے ایسے پس منظر ابھرتے ہیںجو ہمارے لئے اجنبی نہیں ہیں۔اس ناول کی قرأت سے کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کتھار سس کا عمل جاری ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سلمان عبدالصمد کی تخلیقی اور فکری و فنّی آمیزش سے تیار ہونے والا یہ ناول اردو میں لکھے گئے اس عہد کے چند معتبر ناولوں کی مختصر فہرست میں جگہ پانے میں کامیابی حاصل کرے گا ۔
ٔ٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا