یتی اور موتی

0
85
  • اشک بھدرواہی
    +919419212394
    یتی کو جانوروں سے بہت پیار تھا۔چاہے وہ گائے ہو،بھینس یا پھر بکری ہو،لیکن موتی کو ان سب جانوروں سے بڑھ کر پیار کرتا تھا ،موتی جب بہت چھوٹا تھا تو وہ ایک دن گاڑی کے نیچے آتے آتے بچا،اُس وقت یتی سڑک کے نزدیک دفتر کے صحن میں کام کر رہا تھا اُس کی نظر ننھے موتی پر پڑھی جو سڑک کے بیچ کھڑا تھا ،فوراًجا کر اُسے اُٹھا لیا اور اپنے پاس بٹھا لیا،تب سے لے کر اب تک موتی اُس کی زندگی سے الگ نہیں ہوا ۔یہ پیار بھی عجیب شئے ہے ۔کس سے ہو جائے کب ہو جائے پتہ نہیں وہ چاہے انسان ہو یا پھر حیوان کوئی فرق نہیں پڑتا۔جب سے خدا نے اس کائنات کو بنایا ہے تب سے انسان اور جانوروں کے پیار کے قصے سُنتے آرہے ہیں خاص کر آدمی اور کُتے کے جن میں جانوروں نے انسان کے پیار کے رشتے کو بخوبی نبھایا ۔ایسے شاندار طریقے سے کے شائد اس طرح انسان بھی نہیں نبھا پاتا ۔یتی کا اس دنیان میں اپنا کوئی نہیں تھا۔بالکل تنہا زندگی۔شائد اُس کی وجہ سے اس کو جانوروں سے پیار تھا ۔اس کمی کو پورا کیا موتی نے ،موتی کے آنے سے یتی کی زندگی میں رونق آگئی وہ گھنٹوں اُسے باتیں کرتا اور موتی بھی چُپ چاپ بیٹھا سب کچھ سُنتا جیسے وہ یتی کی ہر ایک بات کو سمجھتا ہو۔موتی کے آنے سے اُسے بھی اب اکیلا پن محسوس نہیں ہوا ۔ویسے یتی کے بارے میں لکھنے کے لئے کوئی دلچسپ باتیں نہیں تھیں لیکن جب بھی میں کچھ لکھنے کے لئے قلم اُٹھاتا تو وہ میری نظروںکے سامنے کھڑا ہو جاتا اور فرمائش کرتا کے ـــ صاحب کچھ ہم پر بھی لکھو ۔نا جانے کیوں اُس کا یہ خیال ذہن میں آتے ہی اُس پر کچھ لکھنے کی خواہش میرے دل میں پیدا ہو جاتی۔لیکن کیا لکھوں یہ سوال بار بار میرے ذہن میں اُٹھ رہا تھا ۔ مجھے سوائے اس کے کچھ یاد نہ تھا کے وہ میرے دفتر میں مالی کا کام کرتا تھا اور تین ہزار تک تنخواہ لیتا تھا ،اُس میں سے وہ کمرے کا کرایہ ا ور بس کے کرائے کے ساتھ ساتھ راشن پر خرچ کرتا تھا ۔راشن کے بعد اُس کا جو دوسرابڑا خرچا تھا وہ بیڑی کا تھا ۔اُس کی زندگی بس دو سہاروں پر چل رہی تھی ایک موتی اور دوسری بیڑی ۔بیڑی جب شروع کی تھی تب سے منہ سے لگائے رکھی تھی اور موت تک مُنہ سے لگی رہی ۔جب سے موتی ملا تب سے اُسے بھی کبھی خود سے جُدا نہیں ہونے دیا ۔ان باتوں پر بھلا کوئی کیا لکھے۔لیکن جب میں کسی کے بارے میں لکھنے کی کوشش کرنے لگتا ہوں تو یہ دونوں خاص کر موتی اُچھل اُچھل کر میرے ذہن کو جھنجوڑتا ہے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ تم میرے سیدھے سادے دوست یتی پر کچھ کیوں نہیں لکھتے ؟جو شائید تمہاری دنیاں میں اس قابل نہ ہو ،لیکن میری نظروں میں اُس کے مقابلے میں تمہاری دنیاں میں شائید ہی کوئی موجود ہو ۔تمہاری دنیاں اور اُس میں رہنے والوں کے دلوں میں سوائے لالچ ،دھوکے اور نفرت کے کچھ موجود نہیں ہے لیکن میرے دوست کے دل میں سوائے پیار کے کچھ نہیں ہے وہ ہر ایک چیز سے چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان وہ ہر ایک سے محبت کرتا ہے ،انسان جانوروں کے علاوہ میں نے کئی بار اُسے پیڑ پودوں سے باتیں کرتے دیکھا ہے ۔اُسے کتنی فکر تھی ہر اُس پھول اُس پودے کی ۔لیکن یہ سب کچھ تمہیں بتانے سے کیا فائدہ ۔حالانکہ تم نے بھی اُسے یہ سب کچھ کرتے دیکھا ہے ۔لیکن آپ کو اس سے کیا غرض،آپ کو تو تب تک غرض رہی جب تک وہ زندہ تھا اور تمہارے صحن میں دفتر کے کام مُفت کرتا تھا ۔اس کی دل کی کیفیت کو تو صرف میں ہی جان سکتا ہوں جو ہر وقت اس کت ساتھ سایہ کی طرح رہا ۔اُسے آپ پر بڑا گمان تھا کہ صاحب کچھ ضرورمیرے اور تمہارے بارے میں لکھیں گے پر اُسے پتہ نہیں تھا کے صاحب اُس کے بارے میں لکھتے ہیں ۔جس کے جوانی میں عشق کے چرچے ہوں جو ساری دنیاں مہشور ہو، جس کانام ہر ایک کی زبان پر ہو ،جس پر لکھنے سے صاحب کو واہ واہ ملتی ہو۔تمہارے اور میرے بارے میں کیا لکھیں گے ۔تم نے جوانی میں کبھی عشق نہیں کیا جیسا کے تم کہتے ہو،ساری عمر کنوارے رہے شادی نہیں کی بیچاری رام چرن کی بیوہ نے کافی کوشش کی تمہیں پٹانے کی لیکن تم نے اُسے گھاس تک نہیں ڈالی۔اگر اُسے ہی آنکھیں چار کی ہوتی تو صاحب کچھ تم پر لکھتے ۔اب ایسی بے رنگ زندگی والے کے بارے میں لکھ کر صاحب اپنے نام کو بٹا تھوڑی لگائیں گے موتی نے یتی کی طرف اشارہ کیا اور میری طرف دیکھنے لگا۔
    کافی دیر تک یتی اور موتی نے میرے ذہن میں بسے خیالوں میں اُچھل کود مچائی میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ دونوں مجھے نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی کچھ لکھنے دیں گے ۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کہاں سے شروع کروں اور اُن کی کون سی بات ایسی تھی جس کے بارے مین لکھوں۔میں اُلجھن میں اُلجھا ہوا تھا ؁ کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ ایک بار میں نے یتی کو دفتر کُتے کو لانے سے منع کیا تھا ــ’’یتی تم نے اگر اس دفتر میں کام کرنا ہے تو کل سے اس کُتے کو دفتر میں لے کر مت آنا یہ دفتر ہے اور یہاں پر کچھ قائدہ قانون ہوتا ہے ۔تمہارے دماغ میں میری بات پڑ رہی ہے یا نہیں ؟‘‘
    ’’ہاں صاحب پڑ رہی ہے مگر ‘‘
    ’’مگر کیا؟‘‘‘
    ’’ صاحب ! بڑے پیار سے پالا ہے اس سُسرے کو کبھی مجھ سے الگ نہیں رہا ،اب میں نے خود کئی بار کوشش کی کے اس کہ ڈیرے پر رکھوں ،ایک دو بار رکھا بھی لیکن اس نے محلے والوں کو بھونک بھونک کر پریشان کر دیا ۔اب صُبح میرے نکلنے سے پہلے ہی میرا تھیلا منہ میں لے کر بس اسٹاپ پر پہنچ جاتا ہے ۔اب ایسے میں صاحب!آپ ہی کچھ کریں تاکہ موتی کو دفتر لانے میں مشکل نہ ہو ‘‘
    یتی تم کچھ سمجھ نہیں رہے ہو ؟یہ بڑے صاحب کا حُکم ہے اور ہاں گھر میں میرے صحن کی حالت بہت خراب ہو چُکی ہے ۔سارے پھول پودے مُر جھا چُکے ہیں ۔کل وہاں چلے جانا‘‘نہیں نہیں کل نہیں پرسوںاتوار آجانا میں گھر پر ہوئو گا‘‘
    ’’پرسوں کیوں میں کل ہی چلا جائوں گا۔لیکن صاحب! آپ موتی کے بارے میں کچھ‘۔۔۔۔۔۔۔’’دیکھو یتی میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں یہ بڑے صاحب کا حکم ہے ۔میں اس معاملے میں تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتا بے شک تم میرا لان رہنے دو‘‘
    صاحب!میرے لئے تو آپ ہی بڑے صاحب ہیں جو کچھ کرنا ہے آپ نے ہی کرنا ہے ۔اتنا تو میں جانتا ہوں صاحب!رہی لان کی بات وہ تو میں نے ہی کرنا ہے چاہے آپ موتی کو ساتھ لانے کی اجازت دیں یا نہ دیں۔
    میرے ذہن میں جو مرضی کی تصویریں اُبھر رہی تھی اچانک دھندلی ہو گئی ۔میں پھر مشکلات میں پڑ گیا کہ اس کے علاوہ اور کیا تھا یتی کی زندگی میں کیا صرف اتنا ہی جانتا تھا س کے بارے میں تقریباًبیس برسوں تک وہ میرے ساتھ آفس میں رہا اور میری خدمت کرتا رہا ،جس نے شادی نہیں کی تھی اور اُس کا اس دنیاں میں سوائے کُتے کے کوئی نہیں تھا۔اور جب اُس کی موت ہوئی تو دفتر والوں نے اُس کا انتم سنسکار کیا تھا۔میں ایک بار پھر اپنی یادوں کی تہہ خانوں اُتر گیا،کے آخر اُس کی موت کیسے ہوئی تھی ؟عمر کا یہ پڑائو بھی کتنا نازک ہوتا ہے ،جس میں ایک جھونکے میں انسان کو سب کچھ یاد آجاتا ہے اور ایک پلک جھپکتے ہی دوسرے جھونکے میں وہ سب کچھ بھول جاتا ہے ۔میں یتی کے ساتھ گزارے پلوں کو یاد کرنے لگا ۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے نہ جانے میں کتنے تہہ خانوں کی خاک چھان چکا تھا ،لیکن یتی کا سایہ تک ان میں نظر نہیں آیا ۔میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے بری طرح سے تھک چکا تھا۔میرا ذہن اب تھکاوٹ کی وجہ سے پھٹا جارہا تھا ۔اُس میں سوچنے اور سمجھنے کی طاقت ختم ہو چکی تھی ۔میں اپنی بے بسی پر افسوس کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ خواہ مخواہ یتی اور موتی کے چکر میں پڑ گیا ۔لکھنے کے لئے کیا کم تھا ۔بہت سارے لوگ تھے جن کے بارے میں اچھی جانکاری بھی تھی ۔ان پر لکھنے سے شاباشی بھیملتی، لیکن بے کار میں یتی اور موتی کو لے کر بیٹھ گیا ،ایک بے زبان اور دوسرتا بے رنگ اب کروں تو کیا کروں ۔پنگا لے کر پھنس گیا۔یکا یک میری آنکھوں کے سامنے یتی آکر کھڑا ہو گیا ۔’’کیا بات ہے صاحب‘‘؟آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے بیس برسوں کے اس لمبے ساتھ میں اگر آدمی دن کا صرف پانچ منٹ بھی کسی کے بارے میں یاد رکھے تو حساب آپ خود لگا لیجئے صاحب! کتنا ہو جاتا ہے۔دنیاں سچ کہتی ہے صاحب! بڑے لوگوں کی یاداشت بہت کمزور ہوتی ہے ۔آج پتہ چل گیا صاحب!میرے ساتھ ساتھ اُس حادثہ کو بھی آپ بھول گئے ہیں اور اُس کو بھی بھول گئے ہیں جس نے اس حادثہ میں آپ کے بیٹے کی جان بچائی تھی ۔یاد بھی کیوں رکھو گے آپ ؟ہم کون سے آپ کی برابری کے ہیں۔ یاد آیا کچھ؟نہیں آیا؟صاحب!یاد کیجئے جب میں اپنا تھیلہ آپ کی لانمیں بھول آیا تھا اور اُس کو لانے کے لئے موتی کو بھیجا تھا اور وہ اُسی وقت واپس آکر آپ کی پتلون پکڑ کر آپ کو کھینچ رہا تھا ۔اور آپ مجھے ’’ہاں ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔یکایک میرے زنگ آلودہ ذہن کا پردہ کھولنے لگا اور مرضی کی تصویریں پھر اُبھرنے لگی ۔
    ’’کتنی بار یتی تمہیں کہا ہے کے کتے کو دفتر میں لے کر مت آئو لیکن تمہیں کوئی اثر نہیں ہوتا دانت لگتے لگتے بچ گے ہیں ‘‘۔۔۔۔مجھ سے تھپڑ کھانے کے بعد یتی بولا۔
    ’’صاحب یہ آپ کو کاٹنے کے لئے تھوڑی آیا ہے یہ تو آپ کو کھینچ رہا ہے کہ وہ آپ کو کچھ دکھانے کیلئے لے جانا چاہتا ہے ‘‘گال ملتے ہوئے یتی نے کہا ۔جیسے وہ موتی کی بات سمجھ گیا ہو ۔میرا غصہ بھی ٹھنڈا ہو چکا تھا ،مجھے یتی پر رحم آرہا تھا ،لیکن جو میں کر چکا تھا اس کا سوائے پچھتاب کے اب کوئی حل نہ تھا ۔اُس کی لال ہوئی گال دیکھ کر مجھے بے حد افسوس ہو رہا تھا اور دلاسا دیتے ہوئے میں نے کہا ۔
    ’’اسلئے تو میں تمہیں بار بار کہتا تھا جانوروں کا کوئی پتہ تھوڑی ہوتا ہے کب کسی کو کاٹ لیں‘‘
    ’’لیکن صاحب !موتی اُن جانوروں میں سے نہیں ہے ،صاحب کل سے نہ ہی یہ اور نہ ہی میں آئو گا،کام کی کوئی کام تھوڑی ہے ۔لیکن پہلے گھر چلیں وہاں ضرور کچھ ہوا ہے ۔میںنے اسے تھیلا لانے آپ کے لان میں بھیجا تھا ۔یہ سُسرا وہاں سے جلدی بھاگ کر آیا ہے اور سیدھے آپ کے پاس گیا تھا ۔میرا دل کہتا ہے ضرور کچھ ہوا ہے ؟‘‘
    ’’مجھے بھی وہم سا ہو گیا ہے یا پھر یوں سمجھو میں اپنے کئے کے لئے پچھتاب کر رہا تھا ۔یتی کی بات مان کر جلدی جلدی گاڑی پر سوار ہونے کے بعد ہم گھر پہنچ گئے۔گاڑی سے اُترنے کے بعد موتی سیدھے ہمیں زمین میں بنائی گئی پانی کی ٹینکی کی طرف لے گیا جس کا ڈھکن کافی دنوں سے ٹوٹا ہوا تھا اور یتی کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی میں نیا نہیں خرید پایا تھا۔جو ہی میں نزدیک پہنچا تو بچے کے رونے کی آواز سُنتے ہی میرے پائوں تلے سے زمین کھسک گئی۔میرا تین سالہ بیٹا ببل ٹنکی میں گرا ہوا تھا ۔بھگوان کا شکر تھا کے اس میں اتنا پانی نہیں تھالیکن پانی کی سیدھی سپلائی ہونے کی وجہ سے پانی چل رہا تھا اور ٹنکی بھر رہی تھی ۔یتی جلدی سے ٹینکی میں اترا اور ببل کو باہر نکال دیا۔کسی انجانی طاقت نے میرے پائوں زمین کیساتھ جکڑ دئے تھے اور میں انہیں اُٹھانے میں ناکامیاب ہو رہا تھا ۔یتی ببل کو گود میں اُٹھائے کھڑا مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا ۔ببل بھی روتے روتے اب چُپ ہو چکا تھا۔اور پیار سے یتی کی ناک پکڑ رہا تھا۔اور یتی بھی اسے کھیل رہا تھا۔‘‘
    ’’صاحب! میں نہ کہتا تھا کہ ضرور کوئی بات ہوئی ہے۔اسلئے یہ سُسرا بھاگ کر آیا تھا۔ایک ہاتھ سے ببل کو اُٹھائے ہوئے یتی نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے موتی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔میں شرم کے مارے یتی اور موتی کے سامنے نہ ہی سر اٹھا سکااور نہ ہی نظریں ملا پایا۔میں بہت پچھتا رہا تھا ۔مجھے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا ۔میں یتی کے چرنوں میں گر گیا وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولا یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟پاپ چڑھائیں گے؟میرے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہ تھا ۔‘‘
    ’’صاحب کسسوچ میں پڑ گے ؟آپ بھگوان کا شکر کیجئے موتی کو پتہ چل گیا ور نہ کسی کا دھیان ادھر نہ جاتا‘‘
    ’’یتی بالکل سچ کہہ رہا تھا ۔سچ مچ اس طرف کسی کا بھی دھیان نہیں جاتا ۔میں بھگوان کے ساتھ ساتھ ان دونوں کا بھی بڑا احسان مند تھا۔ جن کی وجہ سے اتنا بڑا حادثہ ٹل گیا۔مجھے گیتا پر یعنی اپنی بیوی پر بھت زیادہ غصہ آرہا تھا میں نے یتی کو تھوڑی دیر ببل کو لے کر باہر رکنے کے لئے کہا اور میں اندر چلا گیا۔ یتی سمجھ چکا تھا کہ میں اندر کیا کرنے جا رہا ہوں ۔اُس نے پیچھے سے آواز لگائی۔
    ’’ صاحب! صاحب! بھگوان نے آپ پر بہت اُپکاعرا کیا ہے اُسی بھگوان کا واسطہ ہے آپ میڈم جی کو کچھ مت کہنا‘‘
    ’’نہیں یتی کچھ نہیں کہو گالیکن تھوڑا احساس دلانا ضروری ہے‘‘
    ’’گیتا!گیتا! کہاں ہو؟‘‘
    ’’آپ آج اتنی جلدی؟‘‘
    ’’بس بیٹھی ہوئی ٹی وی کے سامنے ،اس کے علاوہ اور بھی کچھ دیکھ لیا کرو!‘‘
    ’’اور کیا دیکھوں اب؟‘‘
    ’’خیر چھوڑو! ببل کہا ہے؟‘‘
    ’’ادھر ہی ہو گا دوسرے کمرے میں کھیلتا!
    ’[تم نے اسے کتنی دیر پہلے دیکھا تھا؟
    یہی کوئی کہتے کہتے گیتا رک گئی اُسے اچانک یادآیا کہ ببل کافی دیر پہلے کمرے سے باہر نکل چکا تھا ۔وہ کچھ گھبرا سی گئی۔اور کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں آوازیں دینے لگی جب کوئی جواب نہ ملا تو نوکر کو پکارا۔
    ’’جی میڈم جی! کیا بات ہے ؟نوکر نے پوچھا۔
    کیا کر رہے تھے؟
    میڈم جی کپڑے پریس کرس رہا تھا ۔‘‘
    ببل کہا ں ہے ؟وہ تو آپ کے پاس تھا میرے پاس کہاں تھا؟
    تمہارے پاس نہیں تھا ؟گھبراہٹ بھری آواز میں گیتا نے پوچھا۔
    ’’اب وہ پوری طرح سے ڈر چکی تھی اور ببل ببل پکارتی ہوئی باہر چلی گئی ۔یتی کو ببل اُٹھائے دیکھ کر اُسے یتی پر بہت غصہ آیا ۔وہ غریب یتی پر برس پڑی۔‘‘
    ’’کمال کے آدمی ہو تم ،بچے کو لیکر لان میں گھوم رہے ہو اور اسے اندر نہ دیکھ کر میری جان نکل گئی تھی ۔بے وقوف اس کو گھومانا ہی تھا تو کم از کم مجھے اندر بتا جاتا۔‘‘
    ’’یتی بیچارہ اس کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا ۔اور من ہی من میں سوچنے لگا کہ صاحب کون سا احساس دلانے گئے تھے ابھی وہ سوچ ہی رہاتھا کہ میڈم جی کے دو تین جملے اور سن کر وہ چونک پرا ۔
    بدتمیز نالائق انسان تو نے ‘‘ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ میرے تھپڑ نے اسے چونکا دیا ۔وہ میرا یہ نیا انداز دیکھ کروہ حیران سی رہ گئی‘‘۔
    ’’کیا بکواس کر رہی تھی؟ہزار بار کہا ہے کہ کچھ بولنے سے پہلے تھوڑا سوچ لیا کرو۔اگر یتی اور موتی نہ ہوتے تو‘‘ میں ساری بات گیتا کو بتائی ۔اس کا سر بھی شرم سے جھک گیا ۔یتی ہم دونوں کے دل کی کیفیت بھانپ چکا تھا ’’صاحب! آپ کس لئے پریشان ہیں ؟آپ لوگوں نے کچھ نہیں کیا ۔یہ ہماری قسمت کی بات ہے ۔ہم بدقسمت لوگ ڈھلان زمین کی طرح ہیں جہاں پانی ہلے بھر جاتا ہے۔اسلئے قصور ہمارا ہو یا نہ ہو سزا ہمیں ملتی ہی ہے‘‘
    ’’یتی ہم اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہیں ہمیں معاف کر دو ۔تم بھگوان کا روپ ہو ۔ہم نے آپ کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ۔‘‘
    ’’میں اسکی یادوں کے تہہ خانے سے باہر نکلا تو یتی میری آنکھوں کے سامنے مسکرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔‘‘
    ’’کیا صاحب یاد آیا کچھ ؟یا پھر کچھ اور بتائوں‘‘
    ’’ہاں میں نے سر ہلا کر جواب دیا ۔‘‘
    ’’کچھ دیر کے لئے میں نے اس کی یادوں کی کھڑکی کو بند کر کہ چپ چاپ صوفے پر لیٹ گیا میں سوچ رہا تھا کے یتی آج پھر مجھے پچھتاب کی آگ میں جلنے کیلئے چھوڑ گیا ہے میں کیسے اس بڑے حادثہ کو بھول گیا ،میں کیسے یتی اور موتی کے اس بڑے احسان کو فراموش کر گیا ۔ ایک بار پھر میں یتی کے سامنے چھوٹا نظر آیا ۔میں نے قلم اُٹھایا اور پھر یتی پر پر لکھنے کی کوش کرنے لگا جیسے مجھے اس کے بارے میں سب کچھ یاد آ چکا ہو۔لیکن دو تین الفاظوں کے سوائے زیادہ کچھ نہ لکھ پایا۔میرے ذہن کے دروازے ایک بار پھر یتی اور موتی کے لئے بند ہو چکے تھے ۔میں نے یوں ہی یاد کرنے کیلئے آنکھیں بند کی تو پھر میری آنکھوں کے سامنے یتی بیڑی پیتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔‘‘
    ’’کیوں صاحب! آپ تو کہہ رہے تھے آپ کو سب کچھ یاد آ چکا ہے ۔اب کیا ہوا ؟رُک کیوں گئے ؟کیا واقعی مجھ پر کوئی کہانی نہیں بن سکتی؟کیا میری زندگی اتنی بے رنگ ہے ؟ایک آہ بھرتے ہوئے پھر بولا ۔میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں اب میں آپ کو کبھی تنگ نہیں کروں گا ۔لیکن صاحب میرے موتی کی زندگی میری طرح بے رنگ نہیں ہے ۔کم از کم اس کے بارے میں لکھیں ۔کس طرح اس نے میری خدمت کی تھی جب میں بیمار تھا ۔میں نے بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہا۔‘‘
    ’’بس یتی مجھے یاد آگیا اب میں دونوں پر کہانی لکھ سکتا ہوں‘‘
    ’’اچھا صاحب آپ سچ کہہ رہے ہو؟‘‘
    ’’ہاں!‘‘
    ’’یہ کہہ کر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔موتی ہمیشہ کی طرح دُم ہلاتا ہوا اُس کے ہپیچھے پیچھے چلا گیا ۔اُس کے بعد وہ کبھی میری آنکھوں کے سامنے نہیں آئے ۔‘‘
    ’’ یتی اور موتی کا رشتہ بھی عجیب تھا ۔یتی نے اُس کے ساتھ ایک باپ کا رشتہ نبھاتے ہوئے اولاد سے بھی زیادہ پیار کیا ۔سُکھ میں ،دُکھ میں ،شادی ہو یا پھر غمی،وہ ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھتا ۔جس پر کئی بار لوگوں نے اعتراض بھی کیا ۔اُن میں سے ایک میں بھی تھا لیکن یتی نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور مرتے دم تک موتی کو اپنے سے الگ نہیں کیا ۔ جب یتی سخت بیمار تھا اور بستر پر پڑا ہوا تھا ۔تب موتی میرے پاس دفتر میں آیا ۔‘‘
    ’’صاحب! یتی کا کتّا آپ کے دفتر کے دروازے پر چھلانگ لگا کر شیشے سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے ۔بار بار باہر نکالتے ہیں پھر اندر آ جاتا ہے اچھا ہوا آپ آگئے پتہ نہیں کیا بات ہے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا اس نے ‘‘ باہر سے آتے ہی چپراسی نے موتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘‘
    ’’یتی کہاں ہے ؟‘‘
    ’’دو تین دنوں سے نہیں دیکھا میرے خیال میں کہیں گیا ہوا ہے ‘‘
    موتی آکر میرے پائوں چاٹنے لگا اور پتلوں پکڑ کر باہر کھینچنے لگا ۔چونکہ میں جانتا تھا کہ موتی مجھے کہیں لے کر جانا چاہتا ہے ۔میں اُلٹے پائوں مڑ کر موتی کے ساتھ چل پڑا ۔میں نے اُسے گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کی وہ نہیں بیٹھا اور میری گاڑی کے آگے آگے بھاگنے لگا اور مجھے سیدھے یتی کے ڈیرے پہنچا دیا ۔یتی کی حالت نازک تھی وہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا ۔میں نے اُسے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا ۔موتی بھی اُس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔راستے میں ایک دو بار یتی سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔میں نے نظر اُٹھا کر شیشے میں دیکھا تو موتی اُس کی گود میں بیٹھا ہے اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا ۔ہسپتال پہنچ کر جب میں نے اُسے اُٹھانے کی کوشش کی تو وہ مر چُکا تھا چونکہ یتی کا اس سنسار میں کوئی نہیں تھا اس لئے دفتر والوں کو ہی اُس کے انتم سنسکار کا انتظام کرنا پڑا ۔باقی لوگوں کے لئے اُس کی حیثیت صرف ایک مالی کی تھی ۔لیکن میری نظروں میں اُس کا قد بہت اونچا تھا ۔مجھے اُس کے مرنے کا بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا ۔اس سے کہیں زیادہ بیچارے موتی کو پہنچا تھا ۔میں نے چتا کے لئے موکھ اگنی کیلئے جلتی ہوئی لکڑی اُٹھائی یکا یک موتی نے چھلانگ لگا کر میرے ہاتھوں سے وہ چھین لی اور آنسوں بھری نگاہوں سے ایسا دیکھنے لگا جیسے میں اُس کا کوئی حق چھین رہا تھا ۔اور بات صیح بھی ہے۔بے شک وہ ہمارے لئے جانور تھا لیکن یتی کیلئے وہ ایک اولاد سے کم نہیں تھا ۔یتی کے مرنے کے بعد موتی پھر دوبارہ کہیں نظر نہیں آیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا