کتابی باتیں کس کے لئے ؟

0
91
  • نگینہ ناز منصور ساکھرکر
    نوی ممبئی–9769600126
  • جلدی جلدی سب کاموں سے فراغت پاکر میں آٹو اسٹینڈ کی طرف نکل پڑی، جم جانے کا وقت ہو گیا تھا ۔ میں ہر روز دس بجے کے قریب جاتی ہوںاسٹینڈ پر آٹو نہیں تھامیں انتظار کرنے لگی دھوپ بھی اتنی تھی کہ رُکا نہیں جا رہا تھا تبھی ایک بچی میرے پاس آکر کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے ہاتھوںکو اپنے منہ کی طرف ہلاتے ہوئے اپنے بھوکے ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔۔آنکھوں میں نمی تھی اور سوکھے بیڑی زدہ ہونٹ اُسکے پیاسے ہونے کی گواہی دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے بیگ سے پانی کو بوتل نکالی اور اس کی جانب بڑھائی اُس نے لپک کر وہ بوتل پکڑی اور پل بھر میں گٹ گٹ کر ادھی بو تل خالی کر لی ۔۔۔۔۔میرا ہاتھ بیگ میں ہی تھا ایکسر سائز کے بعد کھانے کے لئے لیا گیا سیب میرے ہاتھوں میں تھا میں نے وہ سیب اسکی طرف بڑھایا اُسکی آنکھوں میں چمک اُبھر آئی میرے ہاتھوں سے سیب لیتے ہی وہ بھاگ گئی رُکی نہیں۔تھوڑی دورمیں اسٹینڈپر ایک چھوٹی بچی جس کی عمر مشکل سے۱ سال ہو گی کھڑی رو رہی تھی۔میں نے اُس لڑکی کی طرف دیکھااُس نے اس بچی کو گود میں اُٹھایا اور سیب کو اپنے دانتوں سے کُتر کُتر کر اس کو کھلانے لگی ۔ روتی ہوئی اُس چھوٹی سے بچی کے چہرہ پر مُسکان آگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھی اٹو پکڑ کر جم چلی آئی۔۔۔۔پر سارا دھیان اُن بچوں پر لگا رہا ۔۔۔گھر میں کتنا کچھ ہوتا ہے پر ہمارے بچے نکھرے کر کر کھاتے ہیں ۔۔۔۔۔ممی یہ نہیں چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔وہ بنا دو ۔۔۔۔۔پیزا منگا دو ۔۔۔گھر سے باہر کی دنیا میں کتنی بھوکی ، ننگی ، بدحال بے بس زندگیا ں ہیںجس پر ہماری نظر نہیں جاتی ۔۔۔۔یا پھر جاتی تو پر ہم کھبی تر س کھا کر تو کھبی منہ پھیر کر چلے جاتے ہیںکہ یہ بیکھاری لوگوں کو کتنا ہی دو یہ بھیک ہی مانگے گئے۔۔۔۔۔۔کیا سارے مانگنے والے پیشہ وار فقیر ہو تے ہیں؟۔۔دوسرے دن وہ لڑکی پھر وہیں پر کھڑی ملی دیکھتے ہی وہ میرے قریب آگئی ۔۔۔میں پھر اپنے بیگ سے پانی کی بوتل اور ایپل اُسکی طرف بڑھایا ۔۔۔۔اب وہ روز ہی مجھے ملتی میں گھر سے اُس کے لئے کچھ نہ کچھ لے جاتی ۔۔۔۔۔وہ اب مُسکرا کر مجھے ملنے لگی تھی ۔میں بھی اس کا انتظار کرتی اُس نے اپنا نام شہزادی بتایا تھا وہ پاس کے پُل کے نیچے ہی رہتی ہے ۔۔اُس دن میں نے اُس کا کھانہ لیا اور جم بیگ اُٹھا کر اسٹینڈ پر آگئی پر آج شہزادی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔۔انتظار کر کے میں جم چلی آئی چار دن ہو گئے تھے شہزادی نہ جانے کہا چلی گئی مجھے فکر ہونے لگی تھی جیسے میرا اپنا کہیں کھو گیا ہو ۔۔۔آج دل بہت اُداس ہو رہا تھا میری نظریں شہزادی کو ہی ڈھونڈ رہی تھی دوسری طرف کچھ بچے مانگتے دکھائی دئے میں انکی طرف بڑی مجھے دیکھ کر پھر وہ مانگنے والے انداز مجھے دیکھنے لگے ۔۔میں نے ایپل اور بسکٹ اُن کی بڑھایا اور پوچھا بچوبتائو وہ لڑکی جو یہاں روزانہ مانگتی تھی کیا اُپ اُس سے جانتے ہو ۔۔۔۔ایک لڑکا جھپٹ کر بھولا کون وہ شہزادی میں نے ذھت ہاں میں گردن ہلائی ۔۔۔۔وہ بوالا اس کی طبیعت خراب ہے وہ بہت بیمار ہے میری آنکھوں میں اُتارئی خوش مانند پڑ گئی میں نے جھٹ پوچھا کہاں ہے وہ کون سے ہسپتال میں ہے ۔۔۔۔وہ بولا دوا کھانے کدھر کو میڈم وہ تو اُدھر ہے پُل کے نیچے ۔۔آہ میرے منہ سے نکل گیا میں نے جم جانے کا رادہ ترک کیا اُس سے کہا مجھے اُس کی طرف لے چلو وہ بولا ہاں ۔۔۔۔میں اسکے ساتھ تھوڑی دُور پل کی طرف بڑھی راستہ سے کچھ پھل لئے اور کھانے کو کچھ سامان ۔۔۔پُل کے قریب پہنچ کر دیکھا الگ الگ جگہوں پر چولے اور برتن کے ساتھ کچھ سامان پڑا ہے اور کم سے کم پچاس گھروں کی بستی اُس پل کے نیچے رہتی ہوگی ۔۔۔ایک کونے میں ایک عورت میلے کپڑے پہن کر ایک بچے کو گود میں لئے بیھٹی تھی اور دوسری طرف شراب کے نشے میں دھت ایک شخص زمیں پر لیٹا اپنے آپ سے بڑ بڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔وہ لڑکا مجھے اسی طرف لے گیا ۔۔۔یہ ہے پرانی فٹی دری پر شہزادی لیٹی ہوئی تھی میں نے اسے پوچھا کیا ہوا۔۔۔میں نے سہارا دے کر اس سے بٹھایا اُس کا منہ سوجا ہو ا تھا ۔۔جسم پر جگہ جگہ نیلے نشان تھے وہ دس بارہ سال کی بچی بے حال ہوئی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔میں نے اُسے پوچھا کیا ہو تمہیں بتائو مجھے ؟وہ رونے لگی وہ عورت میری طرف دیکھ کر شاید سمجھ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔شاید شہزادی نے میرا ذکر کیا تھا اپنی ماں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ عورت بڑی روہانسی آواز سے بولی ۔۔۔آپ بس اسٹاپ والی میم صاحب ہو نہ ؟ میں نے گردن ہلا کر ہاں میں جواب دیا اور پھر اپنا سوال دہرایا ۔۔۔۔۔شہزادی پھر بھی کچھ نہ بولی میں نے اس سے بیٹھا کر جوس کی بوتل اس کے منہ سے لگائی ۔۔۔اس نے مشکور نظروں سے میری طرف دیکھا اور خاموش سے جوس پی گئی ۔۔۔۔۔میں نے نظر اُٹھا کر اُس عورت کی طرف دیکھا وہ زمین پر بیٹھ کر میری طرف غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔میری سوالیہ نظریں اسکی طرف اُٹھی اس نے اپنی آنکھیں صاف کی اور کہنا شروع کیا ۔۔۔۔۔میم صاحب یہ میری بیٹی ہے شہزادی ہم سب ادھر ایک روٹی کے بھی مہتاج ہیں پر نام سب کے راجے مہارجے والے ہیں۔۔۔کوئی نواب ہے تو کوئی شہنشاہ تو کوئی شہزادہ تو کوئی شہزادی یہ جو دورا پی کر پڑا ہے وہ نواب ہے میرا آدمی (شوہر ) شہزادی کا باپ نوکری چاکر ی کچھ نہیں دن بھر بچے اور میں سنگل پر بھیک مانگتے ہیں کچھ ملا تو کھا لیا نہیں تو دن بھر کھبی دس تو کھبی پچاس تو کھبی کچھ نہیں۔۔۔۔جو ملتا ہے اسے شام کو چولہا جلتا ہے ۔۔۔۔دل تو ہمارا بھی اچھا کھانے کو کرتا ہے روٹی کے آٹے میں ہی پیسہ ختم ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔دال تو ہفتوں نصیب نہیں ہوتی ۔۔۔کھبی مرچی کھبی چٹنی تو کھبی بازار میں زمین پر گرے پڑے پیاز لائو تو کچھ کھایا جا ئے نہیںتو کھبی کھبی صرف پانی میں سوکھی روٹی ڈوبا کر پیٹ کا کنواں بھرنے کو کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔اُس پر شام ہو یا صبح جو کچھ ہم مانگ کر لاتے ہیں اس کا باپ مار کر لے جاتا ہے اور دارو پی کر تماشا کرتا ہے ۔۔۔۔اسے کچھ فکر نہیں کہ رات کو ان ننھے بچوں کے پیٹ کی آگ کیسے بجھے گی۔۔۔۔۔میں نے اپنا سوال پھر دھرایا ۔۔۔۔۔شہزادی کو کیا ہوا ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ہو گا میم صاحب یہاں ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی نہ کسی کا یہ حال ہو تا ہے ۔۔ادھر کے لوگ رات کو کسی نہ کسی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔۔اس دن شام کو ہی زبر دستی دو چھوکرے اٹھا کر کر لئے گئے۔۔۔۔میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی میں نے گھبرا کر شہزادی کی جانب دیکھا اُس نے اپنی نظریں جھکا لی تھی جیسے وہ ہی گنہگار ہو ۔۔۔۔رات کو لاکر پھینک دیا اسکی ماں نے اپنی بات ختم کی میں حیران تھی میں نے غصہ بھری آواز میں پوچھا آپ نے پولیس میں کمپلیٹ کیوں نہین کی ؟ ارئے میم صاحب ہماری کون سنتا ہے ہم کو پولیس اسٹیشن میں گھسنے بھی نہیںدیا جاتا ہے ۔۔۔اُلٹا ادھر کا رہنے کا بھاڑا ب ب بھی ہمیں روز کا روز دینا پڑتا ہے ۔۔۔۔میرا سر شرم سے جھک گیا ۔۔۔۔کتنے بے بس ہیں یہ اور ان سے بھی لاچار ہم ہیں ۔۔۔۔اپنے پڑے لکھے ہونے کا کتنا مان ہے ہمیں ۔۔۔۔۔ہم دوسروں کو لکھ لکھ کر بتاتے ہیں کہ اپنی زندگی کو کیسے سنوار جائے ۔۔۔۔کیسے جیا جائے۔۔۔۔پر ہمارے یہ بڑے بڑے مضامیں کس کے لئے؟۔۔وہ جو یہ سب پڑتے ہیں۔۔۔۔اُنکا کا کیا جو انپڑھ ہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ شخص شراب کے نشہ میں دھت پڑا ہے اُسے کون بتائے کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔۔۔۔۔یہ بھی مسلمان ہے پر قران اس نے نہیں پڑا ۔۔۔۔مرد کی ذمہ داریاں کیاہیں؟ کوئی کتاب اس کے لئے معنی نہیں رکھتی ۔۔۔کہاں ہیں وہ سماج سدھارنے کا مشن لے کر نکلنے والی تنظمیں یہ سب اسے پُل کے نیچے کیوں نہیں دیکھی ؟ ۔۔۔۔ایجوکیش ٹرسٹ یہاں کہ بچوں کو تعلیم کیوں نہیںدیتی ۔۔۔یہ عورتیں جن کے پاس تن ڈھاکنے کو کپڑا نہیں۔۔۔۔۔پیٹ بھرنے کو کھانہ نہیںوہ اپنے پھٹے حال جھونپڑوںسے نکل کر بھڑیوں بھرے جنگل میں نہ نکلے تو کیا کریں ۔۔۔۔۔۔یہ بڑی بڑی جماعتیں مسجد کے آرامدہ پنکھوںاور پیٹ بھر کھانے اور بیان بازی تک ہی محدد کیوں ہیں۔۔۔۔یہ ان مردوں کو جا کر ایسے جھو نپڑیوں میں کیو ںنہیں دیکھتے۔۔۔۔۔اُنھیں کیوں نہیں سدھارتے۔۔۔کہاں ہیں وہ عورتوں اور مردوں کے حقوق کا دعویٰ کرنے والے لوگ۔۔۔کھبی اس طرف بھی مڑو۔۔۔تاکہ پھر کوئی شہزادی چھوٹی سی عمر میں بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو ۔۔۔۔۔کوئی شہزادی اپنی آبرو لٹ جانے پر بھی احتجاج کی محتاج نہ ہو۔۔۔۔اُن کا بھی ایک گھر ہو جہاں وہ عزت کے ساتھ رہ سکیں ۔۔کہاں ہیں وہ ڈاکٹر جن کو خدمت خلق کی قسم دی جاتی ہے ؟ کھبی فری آف چارج ان کا علاج کرو ۔۔۔۔لاکھوں اور ہزاروں روپییہ تمہیں جنت نہیں دلا سکتے جو ان معصوم کے دل سے نکلی دعا کر سکتی ہے ۔۔۔میں نے شہزادی کو اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔۔۔دو دن بعد شہزادی اپنے گھر چلی گئی ۔۔۔۔۔میں اکثر اس سے ملتی رہی۔۔۔اب شہزادی وہاں نہیں رہتی شاید کہیں اور ٹھکانہ کر لیا انہوں نے۔۔۔۔۔ہماری تعلیم ہمیں کیا سکھاتی ہے دوسروں کی مدد کر آج ہم کیا کرتے ہیں جن کی مدد کرنا چاہتے ہم ان سے ہی منہ موڑتے ہیں ۔۔۔کچھ لوگوں کا دھندہ ہے بھیک مانگنا مگر ہم انہیں تعلیم کی اہمیت اور تعلیم کی دولت سے اشنا کرائے گئے تو شاید وہ بھی اپنی زندگی کو منور کر سکیں گئے ۔۔مالک ہم سبھوں کو نیک حدایت دے ۔( آمین )

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا