اوم پرکاش شاکر کا شعری رویہ‎

0
115

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
09419336120
اسسٹنٹ پروفیسر :شعبہ اُردو،باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی

او ۔پی شاکر یعنی اوم پرکاش شاکر ایک طویل عرصے سے اردو شعر وادب سے وابستہ ہیں۔اکھنور جیسے غیر اردو ماحول میں رہتے ہوئےانھوں نے اردو سیکھی۔پڑھی اور اسی میں اپنے جزبات واحساسات اور تجربات و مشاہدات کا اظہار کرتے ہیں۔خوشی اس بات کی ہے کہ وہ افسانے اور ڈرامے لکھنے کے علاوہ شاعری بھی کرتے ہیں۔پچھلے چند برسوں میں انکے دو افسانوں کے مجموعے”موسم سرما کی پہلی بارش” اور جیتا ہوں میں”منظر عام پر آچکے ہیں۔”حدیث حیات”انکا پہلا شعری مجموعہ ہے جو 2013 میں چھپا ہے۔اس میں انکی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ نظموں میں کچھ پابند۔کچھ آزاد اور کچھ نظم معری’ کی صورت میں ہمارے شعری وجدان کو متحرک کرتی ہیں ۔ 204 صفحات پہ مشتمل مزکورہ شعری مجموعہ اس مرکزی فکر ونظر کو آشکار کرتا ہے کہ آدمی دنیا میں انسان بن کے رہے۔علم وادب کے سارے سرچشمے انسانیت کے فروغ اور مہزب معاشرے کی تشکیل پہ زور دیتے ہیں ۔ او پی شاکر چونکہ اپنی عملی زندگی میں نہایت شریف النفس اور امن پسند آدمی ہیں چنانچہ انکی شاعری میں اسی نوعیت کے جزبات واحساسات درآے ہیں۔ دکھ درد کی وارداتیں۔پرآشوب حالات میں انسان کےذہنی انتشار۔محبت کے نام پہ دھوکہ وفریب۔داخلی درد وکرب اور یاس وحسرت کی باتیں ایسے روائتی موضوعات ہیں جو او پی شاکر کے شعر ی مکالمے میں شامل ہیں۔انکی غزلوں سے ماخوذ یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں جنکی قرات سے انکے داخلی درد وکرب اور حالات حاضرہ کی ستم ظریفیوں کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
چلے گی ساتھ ترے اس کا انتظار نہ کر
ہے مشورہ مرا دنیا کا اعتبار نہ کر
وفا خلوص محبت پرانی باتیں ہیں
کہ دور ماضی کا تو ذکر بار بار نہ کر
——-
خلوص و وفا کا نہیں ہے گماں تک
نہیں آدمیت کا باقی نشا ں تک
ہر اک ظلم ہوتا ہے معصوم دل پر
میں خاموش رہ کر یہ دیکھوں کہاں تک
——–
حال دل کا سنائیں کیسے دوستو
دوستی بھی ہے اب دشمنی کی طرح
——–
کوئی تو ایسا ملے جو مجھے کرے یکجا
ہزا روں ٹکڑوں میں کب سے بٹا ہوا ہوں میں
ہے دور تک یہاں ویرانوں کا اک عالم
یہ کیسی بستی ہے جس میں بسا ہوا ہوں میں
———-
موت تو اک اٹل حقیقت ہے
کب یہ آے خبر نہیں ہوتی
——–
او۔ پی شاکر کے ان اشعار میں نصیحت آموذ باتیں تو ہیں ہی اک داخلی دردو کرب اور سراسیمگی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔زندگی کے نشیب وفراز میں جب وہ محرومیوں اور تلخیوں سے دوچار ہوتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ کسی بھی صاحب حیثیت شخص کےآگے اپنا دست سوال دراز نہیں کرتے بلکہ اپنے خالق ومالک حقیقی سے اس طرح التجا کرتے ہیں۔
اے مرے مشکل کشا مشکل میری آسان کر
تیرے در پرآگیا ہوں تجھ کو اپنا جان کر
نیند میں بھی اک ترا ہی نام ہو ورد زبان
یا خدا تو کر سکے تو مجھ پہ یہ احسان کر
زندگی میری گناہوں میں کٹی ہے سر بہ سر
جس طرح ہو رحم کر مجھ پہ تو ناداں جان کر
اردو غزل میں حسن وعشق۔محبوب کی جفاوں اور وفاوں کا ذکر اسکے جسمانی خدوخال اور نازوادا کا بیان ہمارے اردو شاعروں کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔بڑے اور چھوٹے شاعروں نے اپنی غزلیہ شاعری میں صنف نازک کو موضوع بنایا ہے ۔او۔پی شاکر کے بیشتر غزلیہ اشعار میں بھی صنف نازک کا ذکر ملتا ہے۔یہاں انکے چند غزلیہ اشعار ملاحظہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی حسن و عشق اور محبوب کی محبوبیت کے لطیف تصور کا ذکر بڑے پر لطف الفاظ میں کرتے ہیں۔مثلا”
کسی پر جان دیتے تھے کسی کا دم بھی بھرتے تھے
خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے
محبت فخر کرتی تھی ہماری ذات پر اکثر
محبت کی اگر ویران راہوں سے گزرتے تھے
———
معجزہ اس نے دکھا یا آخر
ہاتھ الفت کا بڑھا یا آ خر
اسکی تصویر ہے میرے دل میں
چیر کر سینہ دکھا یا آ خر
سارے خط کر دیے پرزہ پرز ہ
نقش الفت کا مٹا یا آخر
———
اے مرے محبوب جانے دے مجھے
یاں محبت کے تیئں آنچ نہ آے کوئی
درمیاں غم کی نہ دیوار بناے کوئی
بادہ غم کے اب جام نہ ساقی ہونگے
او۔پی شاکر کی غزلیہ شاعری میں سوزوگداز۔درد مندی ۔ حسن وعشق۔محبت واخوت اور جمالیاتی احساسات وجزبات کی آمیزش قاری کو ذہنی حظ فراہم کرتی ہے۔لیکن جہاں تک انکی نظمیہ شاعری کا تعلق ہے میرے خیال میں شاکر کی نظموں میں ان کا تخلیقی جوہر زیادہ کھل کے سامنے آیا ہے۔موضوعاتی تنوع انکی نظموں کی ایک امتیازی خوبی ہے۔بہت سی نظمیں مقامی ماحول۔تاریخی واقعات۔وطن کی محبت۔عظیم شخصیات کے اخلاق وکردار۔انسان۔وقت۔حالات۔احساس شکست۔امن وجنگ۔خیروشر اور موت وحیات کے مختلف پہلووں سے تعلق رکھتی ہیں۔فطری ماحول کی عکاسی بھی شاکر کی اکثر نظموں میں نظر آتی ہے۔زندگی نے جس طرح کا بھی سلوک یا رویہ انکے ساتھ برتا ہے انھوں نے اپنا ردعمل شاعرانہ پیراے میں بیان کیا ہے۔اپنے ماحول ومعاشرے کو خوشگوار اورترقی یافتہ دیکھنے کی تڑپ انھیں ایسی نظمیں کہنے پر مجبور کرتی ہے جو ترقی پسند نظریے کی حامل معلوم ہوتی ہے۔امیری غریبی ظالم کی سنگدلی اور مظلوم کی دلدوز وارداتیں۔اندر ہی اندر سلگتا ڈوبتا آج کا انسان اور اسکے گوناگوں مسائل کو او۔پی شاکر نے خصوصی طور پر اپنی نظموں میں جگہ دی ہے۔نمونےکے طور پر انکی ایک نظم”بھوک” ملاحظہ ہو۔
"بھوک”
” صرف پو پھٹنے دے
میری پیاری منی
یہ رات کا آنچل
ڈھلنے دے
ذرا سا
اور پھر ہوٹل کے کچرے کا
یہ ڈبہ جو بھرا ہوگا
اس میں ہونگے روٹیوں کے چند ٹکڑے
ساتھ میں ہوں گی سبزیاں بھی
کل کی صورت
اس سے بجھ جاے گی
تیرے پیٹ کی آگ”
——–
ملک کی سلامتی اور سالمیت کے لیے ہر وقت فکر مند رہنے والے او۔ پی شاکر کی نظموں میں "1857 کے شہیدوں کی یاد” "بٹوارہ” "درس تقدس” "میں کہ اکھنور ہوں” اور باسی شبنم” جیسی نظموں کاتعلق بہت حد تک حب الوطنی کے جزبے سے ہے۔زیر نظر شعری مجموعہ”حدیث حیات” میں شاکر کی کچھ ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں طنز ورمز کی گدگداہٹ موجود ہے۔مثلا” گلی کی نکڑ کی لڑکی” "ایک پہیلی” اور سر کالا”اسی زمرے میں رکھی جاسکتی ہیں۔
بہرحال او۔ پی شاکر ریاست جموں کشمیر کے ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کے میدان میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کالوہا منوایا ہے مگر یہ بات بھی صحیح ہے کہ ادبی حلقوں میں انکی پزیرائی جس طرح ہونی چاہئیے تھی اس طرح نہیں ہوئی ہے۔مگر کیا کہیے اردو والوں کی گروہ بندیوں اور مصلحت پسندوں کے درمیان او۔پی شاکر جیسے محنتی۔شریف النفس اور دیانتدار ادیب کیا کرسکتے ہیں سوائے اسکے کہ وہ اپنے گوشئہ تنہائی میں کاغز اور قلم کے ساتھ اپنا رشتہ استوار رکھیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا