سرکاری درندگیـ:بے غیرت نمائندگی!

0
51

2008امرناتھ ایجی ٹیشن کے دوران صوبہ جموں میں اقلیتی طبقہ کوکسی نہ کسی طرح یہاں سے کھدیڑنے ،ڈرانے ،دھمکانے کی خوب سازشیں رچی گئیں لیکن اکثریتی طبقہ کی سیکولر اکثریت نے ان کوششوں کوکامیاب نہیں ہونے دیا،اقلیتی طبقہ نے بھی تمام ترمشکلات وخطرات کے باوجوداپنی مِٹی سے محبت برقرار رکھتے ہوئے اپنے آشیانوں میں ڈٹے رہے، اس ایجی ٹیشن کے دوران اقلیتی طبقہ خاص طورپرگجربکروالوں پرجگہ جگہ حملے ہوئے، ان بدنصیب بستیوں میں ایک بستی راجپورہ ،مڑھ کی بھی تھی جسے شرپسندوں نے راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کردیاتھا،مارپیٹ ، لوٹ مار کرکے غریبوں کی محنت کی ساری کمائی اُڑالی اورمعصوم بچوں، بزرگوں ،خواتین کوکھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پرمجبورکردیا،خیروہ2008امرناتھ اراضی تنازعہ تھا،ایک فرقہ پرستی کی لہرتھی، نفرت کی فضاتھی، لیکن آج انتہائی شرمناک طریقے سے وہی راستہ اختیار کرتے ہوئے راجپورہ ،اکھنورمیںسرکاری حکام وملازمین نے بدترین اورانسانیت کوشرمسارکرنے والی’درندگی‘کامظاہرہ کرتے ہوئے غریب گجرطبقے کی بستی پردھاوابولتے ہوئے نہ صرف وہاں مارپیٹ کی بلکہ ان کے عارضی رہائشی ڈھانچے(کلہے)آگ کی نذرکردئیے،ایک جمہوری دورِحکومت میں سرکاری حکام بغیرکسی نوٹس کے کئی دہائیوں سے بسی بستی میں اس طرح حملہ کریں ،یہ انتہائی شرمناک اورقابل مذمت ہے،خواتین کولہولہان کردیاگیا،اورزخمی حالت میں یہ مصیبت زدہ ظلم کی ماری خواتین اپنے بچوں سمیت ڈپٹی کمشنردفترکے باہراحتجاج کرنے پہنچیں، ان کے ہاتھوں وجسم سے خون بہہ رہاتھا او وہ اپنادکھڑاڈپٹی کمشنرکوسنانے اُ نکے درپہ نہ صرف دستک دے رہی تھیں بلکہ چیخ چیخ کران کے ضمیرکوجھنجھوڑنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن شائدڈپٹی کمشنرکسی بڑی طاقت کے دبائوکے تحت فوری طورپران تک نہ پہنچ پائے، سرکاری اراضی کوخالی کرانے کی منتخبہ مہم انتہائی شرمناک ہے جہاں صر ف اورصرف ایک طبقے کونشانہ بنایاجارہاہے،دوسری جانب گجربکروال طبقہ کے نمائندگان اس قدربے غیرت ہیں جومگرمچھ کے آنسوبہانے ہمیشہ کی طرح واردات کے بعد پہنچتے ہیں،تسلیاں دیتے ہیں بیان بازی کرتے ہیں، اپنے وجودکوزندہ کرتے ہیں اورپھرخاموش ہوجاتے ہیں، ابھی چندروزقبل ہی گوجردیش چیریٹیبل ٹرسٹ میں گوجربکروال تنظیموں کاایک مشترکہ اجلاس ہوا، لیکن اسطرح کے پلیٹ فارم صرف سیاسی جماعتوں کواپنی طاقت کامظاہرہ کرنے کیلئے استعمال کیاجارہاہے، کبھی کوئی لیڈر ایم ایل سی بننے کی چاہت میں حکمران جماعت کے لیڈران کو مہمان خصوصی بناکروہاں اپنے چمچوں کی بھیڑجمع کرتاہے اور یہ ظاہرکرناچاہتاہے کہ سب کے سب گوجربکروال اس کیساتھ ہیں، توکبھی کوئی دوسرالیڈریہی فارمولہ اپناتاہے، اگرواقعی یہ خلوص نیت رکھتے ہیں جوقوم کے خانہ بدوش طبقہ کی حالتِ زارپررحم کھائیں، آج اگران کے کلہے شرپسنداورسرکاری’درندے‘نذرِ آتش کررہے ہیں تویقینااس طبقہ کے ان نام نہاد لیڈران کے شیش محل بھی مستقبل قریب میں محفوظ نہ رہیں گے، ایک منظم جدوجہدکے ذریعے متحدہوکرخانہ بدوش طبقہ کی مستقل بازآبادکاری کیلئے اگرآج بھی یہ طبقہ غفلت کی نیند سے نہیں جاگاتوبلاشبہ …تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!۔ 2008امرناتھ ایجی ٹیشن کے دوران صوبہ جموں میں اقلیتی طبقہ کوکسی نہ کسی طرح یہاں سے کھدیڑنے ،ڈرانے ،دھمکانے کی خوب سازشیں رچی گئیں لیکن اکثریتی طبقہ کی سیکولر اکثریت نے ان کوششوں کوکامیاب نہیں ہونے دیا،اقلیتی طبقہ نے بھی تمام ترمشکلات وخطرات کے باوجوداپنی مِٹی سے محبت برقرار رکھتے ہوئے اپنے آشیانوں میں ڈٹے رہے، اس ایجی ٹیشن کے دوران اقلیتی طبقہ خاص طورپرگجربکروالوں پرجگہ جگہ حملے ہوئے، ان بدنصیب بستیوں میں ایک بستی راجپورہ ،مڑھ کی بھی تھی جسے شرپسندوں نے راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کردیاتھا،مارپیٹ ، لوٹ مار کرکے غریبوں کی محنت کی ساری کمائی اُڑالی اورمعصوم بچوں، بزرگوں ،خواتین کوکھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پرمجبورکردیا،خیروہ2008امرناتھ اراضی تنازعہ تھا،ایک فرقہ پرستی کی لہرتھی، نفرت کی فضاتھی، لیکن آج انتہائی شرمناک طریقے سے وہی راستہ اختیار کرتے ہوئے راجپورہ ،اکھنورمیںسرکاری حکام وملازمین نے بدترین اورانسانیت کوشرمسارکرنے والی’درندگی‘کامظاہرہ کرتے ہوئے غریب گجرطبقے کی بستی پردھاوابولتے ہوئے نہ صرف وہاں مارپیٹ کی بلکہ ان کے عارضی رہائشی ڈھانچے(کلہے)آگ کی نذرکردئیے،ایک جمہوری دورِحکومت میں سرکاری حکام بغیرکسی نوٹس کے کئی دہائیوں سے بسی بستی میں اس طرح حملہ کریں ،یہ انتہائی شرمناک اورقابل مذمت ہے،خواتین کولہولہان کردیاگیا،اورزخمی حالت میں یہ مصیبت زدہ ظلم کی ماری خواتین اپنے بچوں سمیت ڈپٹی کمشنردفترکے باہراحتجاج کرنے پہنچیں، ان کے ہاتھوں وجسم سے خون بہہ رہاتھا او وہ اپنادکھڑاڈپٹی کمشنرکوسنانے اُ نکے درپہ نہ صرف دستک دے رہی تھیں بلکہ چیخ چیخ کران کے ضمیرکوجھنجھوڑنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن شائدڈپٹی کمشنرکسی بڑی طاقت کے دبائوکے تحت فوری طورپران تک نہ پہنچ پائے، سرکاری اراضی کوخالی کرانے کی منتخبہ مہم انتہائی شرمناک ہے جہاں صر ف اورصرف ایک طبقے کونشانہ بنایاجارہاہے،دوسری جانب گجربکروال طبقہ کے نمائندگان اس قدربے غیرت ہیں جومگرمچھ کے آنسوبہانے ہمیشہ کی طرح واردات کے بعد پہنچتے ہیں،تسلیاں دیتے ہیں بیان بازی کرتے ہیں، اپنے وجودکوزندہ کرتے ہیں اورپھرخاموش ہوجاتے ہیں، ابھی چندروزقبل ہی گوجردیش چیریٹیبل ٹرسٹ میں گوجربکروال تنظیموں کاایک مشترکہ اجلاس ہوا، لیکن اسطرح کے پلیٹ فارم صرف سیاسی جماعتوں کواپنی طاقت کامظاہرہ کرنے کیلئے استعمال کیاجارہاہے، کبھی کوئی لیڈر ایم ایل سی بننے کی چاہت میں حکمران جماعت کے لیڈران کو مہمان خصوصی بناکروہاں اپنے چمچوں کی بھیڑجمع کرتاہے اور یہ ظاہرکرناچاہتاہے کہ سب کے سب گوجربکروال اس کیساتھ ہیں، توکبھی کوئی دوسرالیڈریہی فارمولہ اپناتاہے، اگرواقعی یہ خلوص نیت رکھتے ہیں جوقوم کے خانہ بدوش طبقہ کی حالتِ زارپررحم کھائیں، آج اگران کے کلہے شرپسنداورسرکاری’درندے‘نذرِ آتش کررہے ہیں تویقینااس طبقہ کے ان نام نہاد لیڈران کے شیش محل بھی مستقبل قریب میں محفوظ نہ رہیں گے، ایک منظم جدوجہدکے ذریعے متحدہوکرخانہ بدوش طبقہ کی مستقل بازآبادکاری کیلئے اگرآج بھی یہ طبقہ غفلت کی نیند سے نہیں جاگاتوبلاشبہ …تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا