’پیر پنجال کا ایک اور ستارہ چمکا‘

0
50

سینٹرل یونیورسٹی میں پروفیسر تعینات ہونے والے ریاست کے پہلے گوجرپروفیسر مشتاق احمد
درہال کے گائوں سونبلی میں ایک مزدورپیشہ والدکے صاجزادے کی محنت رنگ لائی
سیدبشارت حسین

  • جموں؍؍جموں و کشمیر کے ضلع راجوری کی تحصیل ملکاں کے گائوں سونبلی کے ڈاکٹر پروفیسر مشتاق احمد نے سینٹرل یونیورسٹی میں پہلا مسلم گجر پروفیسر ہونے کا سہرااپنے سرباندھا ہے ۔موصوف سینٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش میں شعبہ انوائرنمنٹل سائنس میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔واضح رہے ڈاکٹر مشتاق کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے ان کے والد ایک مزدور پیشہ ہیں ۔اپنی تعلیم کے دوران موصوف اپنے گھر سے دس کلومیٹر کی مسافت پر ہائی اسکول درہال ملکاں میں پیدل جایا کرتے تھے انہوں نے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی ڈگریاں جموں یونیورسٹی سے حاصل کیں اور 2001میں انہوں نے پہلے ہی موقع میں لائف سائنس میںCSIR-NET-JRFمیں کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹریٹ دگری بنارس ہندو یونیورسٹی سے حاصل کی ۔یاد رہے کہ موصوف جموں و کشمیر سے پہلے مسلم ہیں جنہیں بنارس ہندو یونیورسٹی میں شعبہ باٹنی،انسٹیچوٹ آف سائنس میں2004میں بطور اسسٹینٹ پروفیسر تعینات کیا گیا ۔اس کے بعد 2012میں ڈاکٹر مشتاق کو 39سال کی عمر میں سینٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش میں شعبہ انوائرنمنٹل سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر تعینات کیا گیا جبکہ موصوف ضلع راجوری کے پہلے شخص ہیں جو سینٹرل یونیورسٹی میں اس عہدے تک پہنچے ہیں۔ڈاکٹر مشتاق احمد نوجوان انوائرنمنٹل سانسدان ہیںجو بایو کنٹرول ایجنٹ برائے پائدار ذراعت پر کام کر رہے ہیںتاکہ ماحول سے کیمیائی کیڑے مار ادویات کو ختم کیا جا سکے اور ان کے ریسرچ پیپروں کو بین الاقوامی سطح پر شائع کای جا چکا ہے۔ڈاکٹر مشتاق نے حال ہی میں ڈاکٹر یوسف اختر اسکول آف لائف سانئس سینٹرل یونیورسٹی ہماچل پردیش کے ساتھ ملکر ایک ماڈل تیار کیا ہے جو سونگی (Trichoderma)کی قابلیت کو بڑھاتا ہے اور اس ریسرچ کو یو ایس اے سے نکلنے والے ایک جرنل بایو مالیکیولر سٹرکچر ان ڈائنامکس میں شائع کیا گیا ہے ۔موصوف کی ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ ٹریکوڈیرمن کے میکانزم کی پیش گوئی کی تھی اور یہ تحقیق ’دا جین‘ نامی ایک جرنل میں شائع ہوئی۔داکٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ان کی اس تحقیق کے پیچھے سونگی(trichoderma) کے استعمال کی سوچ تھی جو کہ کیمیات کے متبادل ہے اور یہ ماحول دوست ثابت ہو سکتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سونگی (Trichoderma)کو اتر پردیش کے کچھ علاقہ جات میں استعمال کیا جاتا ہے اور اب ہم دھرم شالا کے گرد و نواح میں مقامی علاقہ جات اور جموں و کشمیر میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ سونگی (Trichoderma) کیلئے زمینی سطح پر ٹرائل اور لیبارٹری منعقد کر رہے ہیں ۔جس سے آنے والے نتائج اس بات کو ثابت کر رہے ہیں کہ سونگی (Trichoderma) کسانوں کی کیمیای کھاد سے نجات میں مدد کر سکتا ہے ۔ڈاکٹر مشتاق نے اپنی کامیابی پر مالک حقیقی کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے والدین، عزیز و اقرباء اور پروفیسر کلدیپ چند اگنیہوتری وائس چانسلر سینٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا