پریم چند نے جس خوبی سے اپنی کہانیاں لکھیں اسی خوبی سے اسلم صاحب نے ہمیں عیدگاہ سے واپس بھیجا: عارف نقوی (جرمنی)

0
134

پریم چند نے قاری کو اپنی کہانی سے باندھ رکھا ہے: پروفیسر ریشما پروین
شعبہ اردو،سی سی ایس یو میں ادب نما کے تحت ”عید کی ادبی روایت“ پرآن لائن پروگرام کا انعقاد
میرٹھ 18/اپریل2024ء
پریم چند نے جس خوبی سے اپنی کہانیاں لکھیں اسی خوبی سے اسلم صاحب نے ہمیں عیدگاہ سے واپس بھیجا اور اس جگہ بھیجا جہاں ہماری تہذیبی قدریں گھٹ رہی تھیں۔ جب ہم عید پر کوئی کہانی یانظم لکھتے ہیں تو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج عید آئی ہے تو شاعر یاافسانہ نگار سوچنے لگتا ہے کہ عید پر ہمیں کوئی نظم یا کہانی لکھنا چاہیے مگر وہ بھول جاتے ہیں لیکن یہ سوچنا چاہیے کہ جب کوئی بات ہمارے دل میں نہیں ہوتی تو اس کا اثر نہیں ہوتا۔ عید صرف دعوت کا کھانا نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے۔ یہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب عارف نقوی کے جو شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجوان ان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد”عید کی ادبی روایت“میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہ نعت ایم۔اے سال دوم کی طالبہ فرحت اختر نے پیش کیا اور پروگرام کی سرپرستی صدر شعبہ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری اور آیوسا کی صدر پروفیسر ریشما پروین نے فرمائی۔اس موقع پر مائنارٹی ایجوکیشنل سوسائٹی، میرٹھ کے صدر آفااق احمد خان نے منشی پریم چند کی کہانی”عید گاہ“ اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے پروفیسر اسلم جمشید پوری کی تخلیق کردہ”عید گاہ سے واپسی“ کی شاندار قرأت کی۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر الکا وششٹھ اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔
اس موقع پر صدر شعبہئ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہاکہ ادب میں عید کی روایت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ ہمارے بہت سے شعراء اور ادباء نے عید کے موضوع کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔علامہ اقبال، نظیر اکبر آبادی، مولانا حالی وغیرہ نے اپنی نظموں کے ذریعے عید کی اہمیت و معنویت کو پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر شاداب علیم نے اپنا مقالہ”عید کی ادبی روایت“ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے ملک کے باشندے ہیں جو ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار رہاہے۔ جہاں مختلف تہذیبوں اور مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے محبت و اتفاق کے ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ جن کی زبانیں، رسم و رواج، رہن،سہن ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن یہ سب ایک قو میت کی لڑی میں مضبوطی کے ساتھ جڑے ہیں۔ اسی بنا پر ہمارے ملک کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں انیکتا میں بھی ایکتا ہے اور یہی اس ملک کی پہچان ہے اور یہی پہچان نہ صرف اس کی خوبصورتی ہے بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں اسے سر بلندی و سرفراز بھی عطا کرتی ہے۔ہندوستان کی یہی خوبصورتی پورے عالم کو محبت و اتفاق، امن و استحکام اور بھائی چارگی کا درس دیتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عید ہماری تہذیب و تمدنی روایت کا اظہار بھی ہے جس کی بہت قوی روایت رہی ہے ساتھ ہی یہ ادب کا حصہ بھی رہی ہے اردو ادب میں عید پر نہ صرف شاعری میں سینکڑوں اشعار موجود ہیں بلکہ نثر میں بھی شاہکار افسانے عید پر موجود ہیں جن میں ایک شہرہئ آفاق افسانہ منشی پریم چند کا”عید گاہ“ بھی ہے۔ اس کے علاوہ قلی قطب شاہ،مرزا غالب، مولانا حالی، علامہ اقبال وغیرہ کے یہاں بھی عید کے تعلق سے خاصا مواد موجود ہے۔
ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ عید الفطر کا ہماری تہذیب اور انسانی زندگی سے گہرا رشتہ ہے۔عید کے موقع پر ہم غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ شاعری کی روایت سے بھی عید کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔شاعر عید کے موضوعات میں نئی نئی باریکیاں پیدا کرکے ادب میں عید کی معنویت کو اجاگر کرتا ہے۔
محترم آفاق احمد خان نے منشی پریم چند کی کہانی عید گاہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ادب میں منشی پریم چند کی کہانی عیدگاہ اپنی ایک شاہکار حیثیت رکھتی ہے اسی طرح اسلم جمشیدپوری کی کہانی عیدگاہ سے واپسی بھی میل کا پتھر ثابت ہوئی ہے۔ منشی پریم چند کی کہانی کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔منشی پریم چند کی یہ خوبی ہے کہ اس کہانی کے ذریعے انھوں نے سماج میں فرقہ واریت کے مسائل کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ادب نما کے اس پروگرام میں دو کہانیاں بھی پیش کی گئیں۔ آفاق احمد خان نے منشی پریم چند کی کہانی عیدگاہ پڑھی اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے پروفیسر اسلم جمشید پوری کی مقبول کہانی عیدگاہ سے واپسی کی قرأت کی۔محترم بھارت دبھوشن شرما نے دونوں کہانیوں پراظہار خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ عیدگاہ کے تعلق سے منشی پریم چند کی کہانی ادب میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ منشی پریم چند کو اس بات میں مہارت حاصل تھی کہ قاری جب نظروں سے اس کہانی کو پڑھتا ہے تو یہ کہانی دل تک پہنچتی ہے۔ اسی طرح پروفیسر اسلم جمشید پوری نے عام انسانوں کے مسائل فرقہ وارانہ فسادات کو اپنی کہانی عیدگاہ سے واپسی میں منفرد انداز میں پیش کیاہے۔
ڈاکٹر عبدالحیئ نے آج کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عید کا تیوہار ہمیں خوشیاں ہی عطا نہیں کرتا بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے گھر جاکر خوشیاں باٹتے ہیں اور گلے ملتے ہیں ادب میں بھی عید کی بڑی معنویت ہے۔حالی، اقبال وغیرہ نے بھی عید پر اچھی نظمیں لکھی ہیں۔
پروگرام کی سرپرستی کرتے ہوئے پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ پریم چند نے قاری کو اپنی کہانی سے باند رکھا ہے اور اسلم صاحب کے یہاں بھی حالات سے گذرنے والے لوگوں کا مشاہدہ موجود ہے۔ دونوں کہانیوں کی زبان موقع محل کے اعتبار سے عمدہ ہے جو ہمارے دماغ پر اثر کرتی ہے۔ ایسی کہانیاں قارئین کے دلوں میں بستی ہیں۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا