’’کہاں گئے وہ نمازی جو رمضان میں شاید بھولے سے آگئے تھے‘‘

0
116

قیصر محمود عراقی

ماہِ رمضان کا چاند کیا نظر آیا کہ ہر طرف گہماگہمی ہے۔ جن لوگوں کے پاس اللہ کے عبادت کیلئے فرصت نہیں تھی، اب وہ عشاء کی نماز کی تیاری کررہے ہیں، اچانک ایسا کیا ہوگیاکہ ایک لمحے میں پورا معاشرہ اسلامی معاشرے میں تبدیل ہوگیا۔ چاند نکلنے سے پہلے مغرب کے وقت وہی گنے چنے چند نمازی تھے پھر عشاء کی نماز کیلئے مسجد میں اتنے سارے لوگ کہاں سے آگئے؟ مسجد کے صحن میں آج ہر طرف نمازی ہی نمازی کیسے نظر آنے لگے جبکہ رمضان سے پہلے یعنی رمضان کا چاند نکلنے سے پہلے تک جو مسجد کا موذن پانچ وقت اللہ کی عبادت کیلئے آذان دیکر بلاتا رہا مگر چند لوگ ہی مسجدوں کا رخ کرتے تھے، آج رمضان کا چاند نمودار ہوتے ہی یہ کیا ہوگیا؟ کہی کسی جگہ سے مسلمانوں نے ہمارے علاقے میں ہجرت بھی نہیں کی ہے تو پھر اچانک اتنے مسلمان نمازی مسجد میں کہاں سے آگئے؟ کیا یہ اسی محلے اور آبادی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں؟ آخر معاشرے میں یہ کیسا انقلاب آگیا کہ عشاء میں مسجد کے صحن تک نمازی ہی نمازی نظر آرہے ہیں، جو لوگ دس پندرہ منٹ کیلئے مسجد آنا نہیں چاہتے تھے اب وہ پورا ڈیڑھ دو گھنٹہ نمازِ تراویح پڑھنے کیلئے مسجد میں گذارینگے۔ یقین نہیں آرہا ہے یہ خواب ہے یا حقیقت ، لیکن نہیں یہ حقیقت ہے۔
قارئین محترم! رمضان سے پہلے جو معاشرہ جن چڑھے تک سوتا رہتا تھا اچانک کیا ہوا کہ معاشرے کا ہر فرد مسلمان رات کو اٹھ کر عبادت اور سحری کا اہتمام کررہا ہے، پانچوں وقت بلاناغہ مسجدوں میں اللہ کے حضور حاضر ہوکر سجدہ ریز ہورہا ہے، حتیٰ کہ نمازِ فجر میں جمعہ کی نماز کا منظر نظر آرہا ہے، یہ دیکھ کر دل کو خوشی ہوئی اور آنکھوں سے خوشی کے آنسوں نکل آئے کہ یہ معاشرہ ابھی زندہ ہے۔ معاشرہ میں لوگ ہر طرف ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دے رہے ہیں، سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں، فرصت کے لمحات میں کوئی گانے نہیں سن رہا ، کوئی گیم نہیں کھیل رہا بلکہ ہر کوئی تلاوتِ قرآن میں مگن ہے، کچھ لوگ سننے میں مصروف ہیں، باربار چائے اور سگریٹ کے عادی افراد بھی صبر سے بیٹھے ہیں، معاشرے میں ہر طرف نیکی کی فضاء ہے، ہر طرف غریبوں کی داد رسی کی جارہی ہے، مخیرحضرات اور مختلف تنظیمیں زکوۃ، راشن اور بچوں کیلئے کپڑے تقسیم کررہی ہیں، محلے میں افطار کے پروگرام کیلئے دعوت دی جارہی ہے، گفتگو کا موضوع ہی تبدیل ہوگیا ہے، ایک دوسرے سے دنیاوی باتیں کرنے والوں کو عالم اسلام کی فکر ہوگئی ہے۔ بڑی روح پرور منظر ہے، مساجد کے علاوہ گھروں میں ، پارکوں میں تراویح کے اجتماعات کا اہتمام اور پورے معاشرے میں تلاوتِ قرآن کی آوازیں اس بات کا پتہ دے رہی ہیںکہ قرآن کو سننے ، پڑھنے اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گذارنے والے اس معاشرے میں موجود ہیں ، نیکی کی حصول کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، پورا معاشرہ اسلامی معاشرہ کا منظر پیش کررہا ہے، یقین نہیں آتا کہ یہ وہی معاشرہ ہے جو کل تک بے حسی کا شکار تھا، ایسا کیا ہوگیا؟ اس معاشرے کو کون سا انجکشن لگادیا گیا کہ یہ معاشرہ اللہ کی طرف پلٹ آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرلیا ہے، اللہ کا خوف اچانک دلوں میں بیٹھ گیا ہے، جنت کے حصول کی تڑپ اور دوزخ نجات کی خواہش پیدا ہوگئی ہے۔
قارئین حضرات! اورپھر شوال کا چاند نظر آگیا، یعنی عید کا چاند ، چاند کیا نظر آیا پورے معاشرے میں ایک بھونچال سا آگیا، افطار کے بعد ہر طرف افرا تفری کا بازار گرم ہوگیا ، مسجدیں ویران ہوگیںاور بازار آباد ہوگیا ۔ بچہ ، جوان ، بوڑھا ، مرد اور عورت سب نے بازار کا رخ کرلیا، اب کسے یاد ہے کہ فرض نماز کیا ہوتی ہے، قرآن کی تلاوت کرنا کیا ہے، اب تو کسی کا بھی رخ مسجد کی طرف نہیںبلکہ بازار کی طرف ہے، کریا نہ سے لیکر کپڑے کی دکان تک خریداروں کا رش ہے جس وجہ کر ٹرافک جام ہے، شاپنگ سنٹر پر اتنا رش ہے کہ جیسے مفت میں اشیاء مل رہی ہو، جگہ جگہ گلی گلی میںکھلے ہوئے پارلر کے باہر ٹینٹ لگاکر راستہ بند کردیا گیا ہے، حجام کی دکانوں پر نوجوانوں کا رش ہے، خواتین بیوٹی پارلر اور نوجوان حجام کی دکان پر ایسے جمع ہیںجیسے فری میں فیشیل اور میک اپ کا اعلان ہوگیا ہے۔ آج چاند رات ہے، عشاء کی آذان ہوچکی ہے مسجد میں وہی گنتی کے چند پرانے نمازی ہیں، آخر وہ سب نئے نمازی کہاں گئے؟ وہ ماحول جو ایک دن قبل تھاکہاں غائب ہوگیا ؟ چاند نظر آتے ہیں جو ماحول اور معاشرے میں تبدیلی آئی تھی، چاند نظر آتے ہیں وہ ماحول اور معاشرہ کیونکہ تبدیل ہوگیا؟ کیا رمضان کے بعد اللہ تبدیل ہوگیاہے؟(نعوذباللہ)، نہیں، اللہ تو وہی ہے اس کائنات کا خالق ومالک ، شاید نہیں بلکہ یقینی طور پر ہم صرف اور صرف رمضانی مسلمان ہیں اس لئے رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں ہم اپنے رب کے بجائے اپنے نفس کی بندگی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مومن اپنے رب کی مرضی کے مطابق زندگی گذارتا ہے جبکہ مسلمان(نام کا مسلمان)اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذارتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود رمضان کے بعد پھر اپنی پرانی روش پر چل پڑتے ہیں، پھر وہی ایک دوسرے کلمہ گو سے بغض و عداوت کا رکھنا اور آگے چل کر یہی بغض وعداوت مذہبی تفرقہ میں تبدیل ہوجاتا ہے، پھر ہم ایک مسلمان نہیں بلکہ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اور سنی میں بٹ کر ایک ایسے رہنما کو پسند کرتے ہیں جس کا دین سے کوئی سر وکار نہیںہوتا، کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہم خود کو مسلمان سمجھتے ہیںلیکن ہم رمضانی مسلمان تو ہوسکتے ہیں مومن مسلمان نہیں ہوسکتے ۔ ایک مہینہ نماز پڑھنے کے بعد بھی ہم نمازوں کے پابند نہیں ہوتے ، ایک ماہ روزہ رکھ کر بھوک پیاس کی شدت کو سمجھتے ہوئے بھی ہم روزہ کے بعد ان غریب لاچار اور بے بس لوگوں کی بھوک اور پیاس محسوس نہیں کرتے ، آخر ہم کیسے مسلمان ہیں جو ایک چاند دیکھ کر مسجد میں بھیڑ لگادیتے ہیںپھر ایک اور چاند دیکھ کر مسجد سے اس طرح غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کب ہم مسجدوں کو آباد کرنے والے ہونگے، کب ہماری پیشانی بارگاہِ ایزدی میں ہر روز جھکے گی، کب ہم نماز کو ایک عبادت جان کر پڑھینگے کیونکہ ہم نے تو ایک ماہ رمضان کے مہینے میں جو بھی کیا وہ عبادت نہیں محض ایک رسم کو ادا کیا ہے اور اجر عبادت کی ملتی رسم اور رواج کی نہیں۔ لہذا رسم ورواج والی عبادت سے توبہ کریں اور خشوع وخضوع والی عبادت کرو تاکہ اللہ بھی خوش ، اللہ کا رسول بھی خوش اور تمہیں بھی دلی خوشی میسر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان سے پہلے بھی اور رمضان کے بعد بھی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کریگ اسٹریٹ،کمرہٹی،کولکاتا۔۵۸
موبائل:6291697668

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا