مکافاتِ عمل (افسانہ)

0
173

۰۰۰
خان شبنم فاروق
مہارشٹرا ممبئی
۰۰۰
آج قلم میں سْرخ روشنائی بھری گئی تھی وہ روشنائی جو انسانی جسم کے رگوں سے کشید کرکے اس میں ڈالی گئی تھی۔ جب قلم نے سْرخ لہو کے ذریعے لفظوں کو ڈائری کے صفحوں پر بکھیرنا شروع کیا تو بوسیدہ کمرے کے در و دیوار بین کرنے لگے۔ اس نے جھجنھلاتے ہوئے اطراف میں نظر ڈالی تو اچانک ہی چیخیں خاموش ہوگئیں ، آہ بکاہ پر سکوت کا ملمع چڑھ گیا۔ اس نے قلم کو مضبوطی سے پکڑا اور پھر سے ڈائری پر الفاظ لکھنے کی سعی کی کہ اچانک ہی بین کی لرزاں دینے والی آوازیں سماعت سے ٹکرانے لگیں۔ سفیر نے ایک جھٹکے سے قلم کو دور پھینکا اور ڈائری کے صفحات کو اس بے دردی سے پھاڑا گویا ہاتھوں میں اس کی زندگی موجود ہو اور اسے اسی طرح تہس نہس کردینا چاہتا ہو۔ سامنے اپنا ہی عکس بیٹھے مسکرا رہا تھا ” یار ویسے اتنے کمزور ثابت ہوے تم ، بات تو بہت بڑی بڑی کرلیتے تھے ، اب کیا ہوا جب اس نے تمہارے سامنے آئینہ رکھ دیا تو وہ اتنی بری ہوگئی "اس کی حالت ایسی تھی کہ اس کے پاس اپنے دفاع کیلیے کوئی الفاظ ہی نہ تھے۔۔ آج اسے صرف سننا تھا صرف سننا۔۔ کیوں کہ اسے ہی تو کہتے ہیں مکافات عمل۔ لوگوں کو مختلف معیاروں پر پرکھنا اس کا بہترین مشغلہ تھا آج جب خود کی باری آئی تو آنکھوں میں لہو اترنے لگا.” ابھی تو اس نے صرف آئینہ دیکھایا ہے ابھی لفظوں کی تپش سہنا تو باقی ہے میرے دوست۔۔۔”
ہر شخص کے اندر نقص نکال کر دلیل کے ساتھ پیش کرنا اس کا بہترین مشغلہ تھا۔۔ لیکن جب وہی مشغلہ اس کے ساتھ کیا گیا تو روح تک زخمی ہوگئی۔۔ اس روح کو زخمی کرنے والی درفشاں تھی۔
سفیر درفشاں کے درمیان محض ہم جماعت ہونے کے علاوہ کوئی تعلق نہ تھا لیکن درفشاں کا سفیر سے گریز کرنا سفیر کو بے چین رکھتا تھا اور رکھے بھی کیوں نا۔۔ کیوں کہ اس شخص کی ذہانت کو یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے اور سراہتے بھی تھے۔ اور اس کی ذہانت کی بنا پر ہی لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی اس سے ہر وقت ہم کلام ہونے کیلیے بہانے تلاشتی تھیں۔ لیکن درفشاں اوروں کی طرح اس سے بھی کبھی کبھار ہی ہم کلام ہوتی یا مہینوں کوئی بات نہ ہوتی۔۔اور سفیر اس فراق میں ہوتا کہ کسی نہ کسی طرح اسے بھی اپنے رعب میں لایا جائے۔۔چند مہینے قبل کینٹین میں چند لڑکوں کے ہجوم میں ہشاش بشاش سفیر آج بہت خوش نظر آرہا تھا۔”ویسے سفیر تمہیں ثانیہ کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ، یار اگر تمہیں وہ پہلے سے ہی پسند نہیں تھی تو کیا ضرورت تھی اس کے ساتھ وقت گزارنے کی "اوووو سمیر پلززززز تمہیں پتا ہے میں اس میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتا تھا وہی آجاتی تھی اور شادی کیلیے بھی اسی نے کہا تھا۔”
تو تمھیں کیا ضرورت تھی اس کے جسم میں فالٹ نکال کر بتانے کی ، تم ویسے بھی انکار کرسکتے تھے "”میں نے بس حقیقت بتایا تھا اور کچھ نہیں کالی کو کالی نہ کہا جاے تو اور کیا کہوں ..؟ میں بہت حقیقت پسند ہوں مجھ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا جاتا ”
"سفیر۔۔۔ تمہیں اندازہ ہے اس نے خودکشی کی ہے۔۔ تم سے محبت کرتی تھی وہ لڑکی۔۔۔ تمہارے اس رویہ نے اسے ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے "سمیر لڑکیاں ایسی ہی جذباتی ہوتی ہیں تم اتنی سی بات کو حوا نہیں بناؤ۔۔ اور ہاں میری وجہ سے اس نے خودکشی نہیں کی ہے سفیر ہم تمہارے دوست ہے یار پلزززز اس کے ساتھ ایسا نہیں کرو اتنی پیاری ہے وہ۔۔۔ اور پھر تم سے کتنی محبت کرتی ہے۔۔” محبت و حبت کچھ نہیں ہوتی۔۔ خوبصورتی اور دولت میں اتنی کشش ہے کہ یہ محبت کروالیتی ہے اور میں ایسی لڑکی سے محبت کروں گا جس میں یہ دونوں ہو "اور پلزززز اب اس ٹاپک کو یہیں کلوز کرو۔۔ آج اتنے دن کے بعد ہم فرصت سے اکھٹے بیٹھے ہیں اور تم لوگ وہی بے سرو پیر کا قصہ لے کر بیٹھ گئے۔۔ اسی وقت پروفیسر ذولفقار کی آواز کہیں سے آئی
"سمیر بیٹا یہاں آؤ ”
سمیر نے ادھر ادھر دیکھا تو کیٹین کے دروازے پر پروفیسر ذوالفقار اور ان کے ساتھ ایک سوبر سی لڑکی کھڑی تھی دونوں کی نگاہیں سمیر کی طرف تھی۔۔
جی سر آیا۔۔
سمیر یہ درفشاں ملک ہے یہ کچھ مہینوں کیلیے ٹریننگ کیلیے یہاں آئی ہیں ان کا ریسرچ ورک چل رہا ہے فی الحال میں میٹینگ کیلیے نکل رہا ہو اور انہیں کچھ کتابیں درکار ہیں آپ لائبریری میں ان کی مدد کریں پھر میں ملاقات کرتا ہوں۔
سمیر تابعداری کے ساتھ حامی بھرتے ہو درفشاں کے ساتھ کینٹین سے نکل گیا۔
**********
یار سمیر ایک مہینہ گزرنے کو آرہا ہے پر وہ لڑکی تو بالکل اپنے خول میں ہی رہنا پسند کرتی ہے۔۔ میں نے سوچا تھا کم از کم کسی سے نہیں پر مجھ سے تو وہ ضرور بات کرے گی یا کسی موضوع کیلیے میری ضرورت اسے پڑے گی لیکن اس نے تو اب تک میری جانب دیکھا بھی نہیں ہے۔۔
"ہاں۔۔ بہت سنجیدہ مزاج اور کام سے کام رکھنے والی لڑکی ہے۔۔ مجھ سے بھی بس کتابوں کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتی ..”
خیر میں اسے زیر کروں گا بہت دلچسپ ہے کہتے ہوئے لائیبریری کی جانب بڑھ گیا۔۔
*********
لایبریری میں دائیں جانب کے آخری حصے پر چشمہ لگائے وہ ڈائری پر کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ ڈیکس پر چند کتابیں سلیقے سے رکھی ہوئی تھی جبکہ ایک کھلی کتاب پر بلو مارکر رکھا ہوا تھا۔۔ کتابوں کے سائیڈ میں ہی باتل رکھی تھی۔۔سفیر غور سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔۔ایکسکیوزمی کیا یہ پانی کی باتل میں لے سکتا ہوں۔۔اس دوران اس کی نظر کتاب کے ورق پر مارکر سے نشاندہی کیے گیے لفظ سگمنڈ فرائڈ پر پڑی تو سفیر لاشعوری طور پر دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
واؤ۔۔۔ گریٹ آپ اس شخص پر مقالہ لکھ رہی ہیں۔۔۔
درفشاں نے بغیر نظریں اٹھائیں محض ” ہمممممم ” کہنے پر اکتفا کیا۔
پھر تو میں آپ کی اس میں بہت مدد کرسکتا ہوں کیوں کہ سگمنڈ فرائڈ کو مجھ سے بہتر آپ کی کتابیں بھی نہیں جانتی ہوں گی۔۔
اور اس طرح پھر دونوں کی ملاقات لائبریری میں ہونے لگی۔۔ سفیر اسے زیر کرتے کرتے حقیقتاً محبت میں گرفتار ہوچکا تھا۔ یہ سوچے بغیر کے وہ دولت مند ہے یا نہیں۔۔ جب کہ وہ اتنی خوبصورت بھی نہ تھی لیکن ناجانے اس میں ایسی کیا کشش تھی جس کے حصار میں وہ خود کو ہر وقت محسوس کیا کرتا تھا۔۔
اور پھر ایک دن اچانک ہی وہ صبح نمودار ہوئی جس میں عجیب گٹھن زدہ مواد تحلیل تھا جو سانس لینے والے ہر ذی روح کی سانسوں کو زخمی کر رہا تھا۔۔
آج سن سان لائیبری میں موجود کتابیں ان دو نفوس پر آنکھیں جما بیٹھی تھی سماعت ہر ہر حرف کو ازبر کرلینا چاہتی تھیں۔”درفشاں میں مکمل آپ کا ہوچکا ہوں۔۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن میری روح تمہارے وجود کے حصار میں خود کو مقید پاتی ہے۔۔ دل پر صرف ایک ہی نام آکر ٹھر گیا ہے اور خیالات میں تم نے قبضہ کیا ہوا ہے۔۔ میرے خیالات ہے پر اس میں ہوتی آپ ہی ہو۔۔”
سامنے خاموشی تھی گہری خاموشی ..
"درفشاں کچھ تو کہو۔۔۔ میں آپ سے براہ راست کہہ رہا ہوں میرے والدین آپ کے وہاں آئیں گے "وہ تب بھی خاموش تھی۔۔ اور اسی خاموشی کو سفیر نے اپنے مطلب کے پیرائے میں لے کر ہاں سمجھا۔۔” ٹھیک ہے آپ کل یونیورسٹی کی چھٹی کیجیے۔۔ میرے والدین کل آپ کے گھر آئیں گے "یہ کہہ کر وہ مسرور ہوتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔۔
درفشاں نے ایک طویل سانس خارج کی گویا کوئی لمبی مسافت طئے کرکے آئی ہو۔۔ آنکھوں سے ایک آنسؤں بے اختیار لڑھکا اور کھلی کتاب کے ورق نے اسے جذب کرلیا۔ثانیہ کل تم دیکھو گی اس شخص کو جس نے تمہاری محبت پر ھنسی اڑائی تھی۔۔۔ خود سے ہم کلام ہوتی درفشاں ایک تھکن زدہ سوچ کے ساتھ ڈیکس پر دونوں ہاتھوں کو رکھتے ہو? بیٹھ گئی ..
***********
( حال )
سمیر لیکن مجھے بلیک کوٹ ہی پہننا ہے اسے سیاہ رنگ بہت پسند ہے میں چاہتا ہوں آج مکمل اس کے رنگ میں رنگ کر جاؤں۔
” ہاں پر یہ تمہارے اوپر کچھ ڈھیلا سا لگ رہا ہے ” سمیر نے کوٹ کی بٹن لگاتے ہو کہا”ارے اپنے پاس آئیڈیا ہے نا میں اندر سے ٹی شرٹ پہن لیتا ہوں کچھ بہتر لگے گا ” "یار تم بھی تو تیار ہو۔۔ میں چاہتا ہوں ساتھ تم بھی رہو۔۔۔ آج تیرا یار بہت خوش ہے۔۔”سمیر ایک گھنٹہ قبل ہی سفیر کے کہنے پر آیا تھا اور اب دونوں درفشان کے گھر جانے کیلیے تیار ہورہے تھے۔۔ جبکہ گھر والے تیار ہال میں ان کا انتظار کررہے تھے۔۔ ” تجھے پہلے بتانا تھا میں گھر سے ہی ریڈی ہوکر آتا "”تونے بات ہی کہاں سنی فون ہی بند کردیا غلطی تیری ہے چل جلدی سے میرا ہی کوئی سوٹ پہن گھر والے نیچیے انتظار کررہے ہیں ”
” اچھا بابا”
آج سفیر کے ہر لہجے سے خوشی عیاں تھی۔۔
********
دروازے کی جانب سے دالان کی طرف آؤ تو صاف ستھرے سے دالان کے اختتام پر دائیں ، بائیں جانب مختلف قسم کے پودے رکھے تھے یہ اس گھر کے افراد کی نفاست پسندی اور ذوق کا اظہار تھے۔۔ موتیوں کے پودوں کی خوشبوں تروتازگی کا احساس پیدا کررہی تھی۔۔۔ لیکن ہال کی جانب آئیں تو عجیب سرد سا ماحول نظر آرہا تھا۔۔ ایک جانب سفیر ، سمیر اور سفیر کے امی ابو بوجھل سے انداز میں بیٹھے تھے جبکہ دوسری جانب درفشاں اور اس کے والد پرسکون سے نظر آرہے تھے۔
تو بیٹا سفیر آپ زرا اس کوٹ کو اتاریں گے تو اچھا رہے گا یہ تم پر کچھ جچ نہیں رہا ہے۔۔ اب گورے ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہوتا ہے آپ کچھ بھی پہن لو تو اچھے لگو گے۔۔ گوری رنگت تھوڑی سب کچھ ہوتی ہے۔۔ نین نقوش بھی تو ہونا چاہیے بھئی۔۔
ہے نا ہمدان صاحب۔۔۔
درفشاں کے والد ٹھر ٹھر کر کہتے ھوئے سفیر کے والد سے مخاطب ہوئے۔۔
ہاں بیٹا یہ نکال دو کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔۔ ویسے ملک صاحب میرے بیٹے کی ذہانت پر اساتذہ بھی آفرین پیش کرتے ہیں ۔۔ بہت لائق فائق بچا ہے ”
” اچھا "۔۔۔ درفشان زرا کمپنی کی وہ فائل تو لے آو جو کل پریزنٹیشن کیلیے دینا ہے ہم اس سے تھوڑا ڈسکس کرلیتے ہیں پتا تو چلیں یہ ذہانت ہمارے بھی کچھ کام آ گی یا نہیں۔۔۔
وہاں بیٹھے دو نفوس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا آگے کیا ہونے والا ہے۔۔۔
جی ابو۔۔۔
درفشاں نے سیل فون پر کچھ ٹائپ کیا۔۔ چند منٹوں میں ایک لڑکی سیاہ گاؤن میں ملبوس اور سر پر سفید اسکارف باندھے ہو حاضر ہوئی۔۔
محض دو فرد کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدل تھے۔ سفیر اور سمیر۔۔۔۔۔
ثانیہ سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں سے جانے لگی جب ملک نے رعب دار آواز کے ساتھ کہا
” ثانیہ یہ ہی ٹھرو ”
"بیٹا اس فائل میں کچھ چیزیں کلیش کھارہی ہے کیا تم اسے حل کردو گے ”
” جی ” کہتے ہو سفیر نے فائل اٹھائی۔۔۔ فائل کھولتے ہی چہرے کے تاثرات ایک دم متغیر ہوئے۔۔۔اس میں وہ تصاویر موجود تھی جن لڑکیوں کے ساتھ سفیر نے وقت گزارا تھا۔۔۔
بیٹا اسے آپ واضح کرکے اپنے والدین کو بتاؤ۔۔
اس نے جھٹ فائل بند کی اور درفشان کی جانب دیکھا جہاں محض انتقام کے کوئی اور جذبہ نہ تھا۔۔
” انکل سوری میں اسے حل نہیں کرسکتا”
” جبکہ ہمدان نے کہا بیٹا بتاؤ تو صحیح ہم ڈسکس کرکے دیکھتے ہیں شاید ہوجاے ” اور فائل ہاتھ سے لی۔۔
فائل کھول کر دیکھتے ہی چہرے کے تاثرات بگڑ گئے
” یہ کیا مزاق ہے ملک ” کیا ان بے ہودہ فوٹوز کو دیکھانے لیے ہمیں یہاں بلایا تھا۔۔
جی نہیں۔۔ بس آپ کے اس با کردار بیٹے کو یہ بتانے کہ ” انسان خدا کی بنائی تخلیق ہے اور خدا اپنی چیزوں کو بے نقص بناتا ہے ، خامیاں تو ہم انسان نکالتے ہیں ، کسی کو کالی رنگت کا طعنہ دے کر تو کسی کو کسی اور طریقے سے ”
میری بھانجی کے جسمانی خدوخال میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہمدانی صاحب۔۔۔ لیکن ہمارے کردار میں ہمارا پورا اختیار ہوتا ہے کہ ہم اسے باکردار بناتے ہیں
یا بد کردار۔۔۔۔۔
” میں ایسے لڑکے سے اپنی بیٹی کو ہرگز نہیں بیاہ سکتا جس کا کردار ہی مشکوک ہو۔۔ نہ جانے کتنی لڑکیوں کی زندگی تباہ کرچکا ہے پوچھے اپنے خوبصورت اور ذہین بیٹے سے حساب میں تو ویسے بھی بہت ماہر ہے ”
"اور یہ جو خوبصورتی ہے نا اس سے کہے سامنے آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھے اور بتائے اس نے اپنے جسم کے کس عضو کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔۔
یقیناً جواب نہیں آے گا۔۔ تو پھر جس میں اس کا کچھ کمال ہی نہیں۔۔ تو پھر لڑکیوں کو کیا سوچ کر یہ ان کے خدوخال پر طنز کرتا رہا ہے … اب کی بار ثانیہ نے چیخ کر کہا
"ویسے سفیر مجھے نا بڑی آنکھیں پسند ہیں یہ چھوٹی چھوٹی نہیں پلززز کیا تم اسے بدل نہیں سکتے ” درفشان کا چبھتا لہجہ اس کی سماعت سے ٹکرایا۔۔
اور ہاں مجھے اتنے ذہین لوگ ہرگز نہیں پسند جنھیں اپنی ذات کی خامیاں ہی نظر نہ ا۔۔ جو خود کو ہی نہ سمجھ سکیں اس لیے میں تمہیں ریجیکٹ کرتی ہوں۔۔
یہ الفاظ یہ انداز ایک دم سینے میں چھبن ہونے لگی۔۔ سفیر کی آنکھوں نے لمحوں میں رنگ بدلا جہاں سرخی عروج پر تھی۔۔۔ رگوں کا خون منجمد ہونے لگا۔۔۔ اور ماضی میں کہا گیا اپنا ہی جملہ سماعت پر پگھلے سیسہ کی طرح محسوس ہونے لگا ” محبت و حبت کچھ نہیں ہوتی ”
کیا واقعی محبت کچھ نہیں ہوتی۔۔۔ اس نے زور سے آنکھیں رگڑی۔۔۔۔۔
*********
یہ وہی دن کا اختتام تھا جس کی صبح خوشگوار تھی دل کو مسرور کررہی تھی لیکن اختتام۔۔۔
وہ کمرے کی ساری بتیاں بجھاے رایٹینگ ٹیبل پر لیمپ کی زرد روشنی میں بیٹھا تھا۔۔۔ اس کا دل پھٹا جارہا تھا۔۔۔ محبت کو کھونے کا غم تھا یا شاید خود کو ٹھکرا جانے کا۔۔ آج سفیر اسی کیفیت سے گزر رہا تھا جس کیفیت سے کسی روز ثانیہ گزری تھی۔۔ لیکن اس نے بہت آسانی سے کہہ دیا تھا ” محبت و حبت کچھ نہیں ہوتی ”
اب جب اپنی باری آئی تو احساس ہوا ٹھکرایا جانا اور محبت کے نام پر جذبوں سے کھیلنا کیا ہوتا ہے۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا