یارمیں نے اسے الوداع کہہ دیا

0
162

بشارت کریمی پنگنور

ہمیشہ کی طرح آج بھی عاشق کا دوست کھپریل کھر کے اوپر سے کھپروں کو چیرتا ہواعاشق کو بیدار کرکے چلا گیا عاشق نیند سے بیدار ہوتے ہی غسل سے فارغ ہوا سیدھااپنا بستہ لیکر اسکول کے طرف روانہ ہوگئے ا۔ راستے میں عاشق کا دوست فیضان ملا
دونوں آپس میں بہت خوشی کے ساتھ رہا کرتے تھے نہ کوئی نوکوئی جھگڑا ہوا کرتا تھا
فیضان عشق سے بات چیت کرتا کرتا اسکول کے طرف جارہا تھا مگر عاشق فیضان کے
کسی بھی سوال کا جواب نہ دینے پر فیضان پوچھا یار تو اتنا خاموش کیوں ہے تجھے
کیاچیز کا صدمہ لگا ہوا ہے؟یار:میں تو تیرا جگری دوست ہوں نہ اگر تو مجھے نہیں بتا
یا تو پھر اچھا نہیں ہوگا عاشق کوئی جواب نہیں دیا۔اسکول پہنچنے کے بعد فیضان عاشقسے پھر پوچھا یار عاشق بتا ؤ تمہیں کیا ہوا ہے تم اتنا افسوس کیوں ہو؟ کچھ دیر کے بعد عاشق بولا کچھ نہیں یا ر ایسے ہی آج کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے فیضان بولا اچھا ٹھیکہے توپھر ..چلو تھوڑ ا بستان میں چلتے ہیں تھوڑی دیر میں کلاس کی گنٹی لگی اورسارے اسٹوڈینٹ اپنے اپنے کلاس میں چلے گئیں۔انٹر ویل کی چھٹی ہوئی تو سب لوگ کلاس سے باہر آئیں اور آپس ماں مستی مذاق کرنے لگیں مگر افسوس عاشق کو آج دل ہی نہ ں لگ رہا بے چارہ کریں تو کیا۔ الماس آیا
پوچھا عشق کیا ہے یار آج تو اسنا مدہوش کیوں ہے آج تو اتنا خاموش کیوں ہے آج تو تو بہت ہی بدلا ہوا لگ رہا ہے آخر کیا ہوا ہے تجھییار بتا تو صحیح اتنے میں گھنٹی لگی اور سب لوگ اپنے کلاس میں چلیں گئیں عاشق الماس کہا میں بعد میں تھجے بتاؤنگا جب عاشق میں گیا تو آچانک عاشق کا ہاتھ اس کے پروانے ڈائری پر گیا عاشق اس کو اپنے ہاتھ میں لیا اور جیسے اس ڈائری کو کھولا تو اس میں وہ بہت سارا آفسانہ لکھ کر رکھے ہواتھا اس پڑھ پڑھ کر آنکھ لال کرلیا اور اپنے آپ کو غم کے ساغر میں ڈبو دیا اب تک کسی سے یہ نہیں بتا یا کہ وہ اتنا افسوس کیوں ہے۔تھوڑا دیر بعد چند پنوں کو پھاڑ کر پھینکنا شروع کردیا سارا منظر الماس دیکھ رہا تھا لیکن وہ نہیں پوچھ سکا کہ آخر عاشق ایسا کیوں کر رہا ہے۔ جب اسکول کی چھٹی ہوئی تو سب لوگ کلاس سے باہر آئیں عاشق بھی اپنے کلاس سے باہر نکلتے ہی عاشق کینظر ایک چمکتے ہوئے چاند پر پڑی جو کبھی اس کی چین ہوا کرتی تھی جس کو عاشق اپنے ہر سانس میں بسا کر رکھے ہوا تھا اس دیکھتا رہا فورا لماس اور فیضان عاشق کیافسوس کا وجہ طلب کیا اور وہ دونوں عاشق کو ثریا کا دیوانہ بول کر چھیڑنا شروعکردیا۔اصل بات یہ تھی کہ آج سے دو یا تین سا ل پہلے عاشق حیدرآباد یونیور سیٹی میں پڑھتا تھا جہاں عاشق کو ایک ثریا نامی خوبصورت لڑکی سے پیار ہوگئے ا تھا مگر بات یہ ہے کہ تین سال بعد ہی عاشق اپنا ڈگری سال مکمل کرکے یونیور سیٹی چھوڑدیا لیکن اب بھی اس کے دل سے ثریا کا پیار ختم نہیں ہوا تھا دونوں ایک دوسرے سے بہت ہی زیادہ محبت کیا کرتے تھے۔دونون ایک دوسرے پہ جان دینے کے لئے تیرا ہو جاتے تھے اس لئے اب بھی وہ اس فون پہ بات کیا کرتا تھا۔ٹھیک دو دن پہلے ثریا عاشق کو فون کی اور بولی کہ دودن بعد میرا سال گرہ ہے اس سال گرہ میں میرے سارے ساتھی لوگ آرہے ہیں اور تم اگر نہیں آئے تو اچھا نہیں ہوگا تو عاشق اس دعوت کوقبول کر لیا۔دوسرے دن ثریا کے سال گرہ پر ثریا کے سارے دوست آئیں اور عاشق بھی اچھاخاصہ انعام لیکر آیا۔ اب سب لوگ مل کر ثریا کا سال گرہ منائیں اس دورسارے لوگ باری باری ہو کر ثریا کو کیک کھلانے لگیں عاشق بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے دل کے چین کو کیک کھلایا تھوڑی دیر بعد ثریا عاشق کو ایک روم میں لے جاکر اس سے بات چیت کرنی شروع کردی مگر اس بات چیت کے دوران عاشق کو ثریا کے لہجہ بات کرنیکاطریقہ الگ ہی محسوس ہو رہا تھا عاشق کچھ سمجھ نہیں پایا آخر ثریا ایسے کیوں بات کر رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں ثریا عاشق سے ابھی آرہی ہوں بول کر گم ہوگئی مگر دیکھنا کیا تھا عاشق اس کے آنے کا رستہ تکتا رہ گیا مگر وہ نہیں آئی وفت گزر گیا جب ثریا نہیں آئی تو عاشق کمرے سے باہر نکلا اوردیکھا کہ ثریا ایک لڑکا سے خوب ہنس مسکا میں بات کر رہی تھی اس کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ دونوں آپس میں محبت کرتے ہیں عاشق کو بھول چکی ہے پھر عاشق جاکرکے ایک جگہ پر آرام سے بیٹھ گیا۔ ثریا کیا ہوا آپ ایسے کیوں بیٹھے ہو یہ کسی دوسرے کا گھر ہے کیا جو ایسے بیٹھے ہو تو عاشق کہا اب یہ گھر اپنا کہاں رہا غیر کا ہی ہوگیا ثریا یہ کیا بکواسی کرہے ہو عاشق یہ بکواسی نہیں جو بھی ہے صاف صاف کہہ رہا ہوں;آخر اسے اپنا کیسے کہیں جو اپنا ہو کر بھی غیر کو اہمیت دیں ثریا اپنے چہرے کو تھوڑا نیچے کرلی تو عاشق پوچھا سچ کہو کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو یا نہیں۔ثریا روتے ہوئے بولی عاشق میں تمہیں حد سے زیادہ پیار کی تھی مگر بات یہ کہ جب آپ نے اسکول چھوڑ دیا تو میں نے ان سے دل لگا لی عاشق عصہ ہو کر اگر اتنی چاہت تھی کسی کے دل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تو کیوں اتنے وعدے کی تھی کیوں دل لگائی تھی کیا تم نے ہم سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم آپ سے کبھی جدا نہیں ہو نگے ثریا رونے لگی اورعاشق کو روکنے لگی مگر عاشق اب رک کر کیا کرتا عاشق کہا سنو اب ٹھکانہ ڈھونڈ لوکہی اور اپنے رہنے کا اب
مجھے اپنے راستے پہ جانیدو چھوڑدو میرا راستہ اب میرا دل ٹوٹ چکا ہے اب میں
کسی سے محبت کرنے کے لائق نہیں ہو ں۔اتنا کہتے ہوئے عاشق ثریا کو الوداع کہتے ہوئے اپنا آخری سلام کہتا ہے اور اپنا راہ تکتے نکل جاتا ہے۔ یہ ساری با ت الماس اور فیضان کو سننے کے بعد بہت افسوس آیا۔دونوں مل کر عاشق کو سمجھائے اور پھر تینوں اپنے اپنے گھر کے اور چل دئے۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا