مودی حکومت پی ایس یو کو ختم کر نے کے درپے :کانگریس

0
37

حکومت کے اس فیصلے کے منفی اثرات ہزاروں ملازمین کو جھیلنا پڑے گا:منیش تیواڑی
یواین آئی

نئی دہلی؍؍کانگریس نے مودی حکومت پر پبلک سیکٹر کی کمپنیوں ( پی ایس یو) کو منظم طریقے سے ختم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سنگین معاملہ ہے اور سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کی جانچ کرانے کا حکم دینا چاہئے ۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے منگل کو یہاں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پہلے مودی حکومت نے پبلک سیکٹر انٹرپرائز ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو تباہ کرنے کے لئے رافیل جنگی طیارہ سودے میں آفسیٹ کام اس سے چھین کر ایک پرائیویٹ کمپنی کو دے دیا۔ حکومت کے اس فیصلے کے منفی اثرات ایچ اے ایل کے ہزاروں ملازمین کو جھیلنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایچ اے ایل کی طرح ہی حکومت نے پبلک سیکٹر کی منافع بخش کمپنی او این جی سی کو ختم کرنے کی سازش کی ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے او این جی سی مزدور سبھا کی طرف سے گزشتہ ماہ وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیا جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی حکومت نے کس طرح سے فائدہ میں چلنے والے اس پی ایس یو کو خسارے میں دھکیل دیا اور آج کمپنی کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کا پیسہ نہیں ہے ۔ملک کی تیل کی ضرورت کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرنے والی کمپنی کو اب اوور ڈرافٹ کے ذریعے اپنے ملازمین کو تنخواہ دینا پڑ رہا ہے ۔ کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ او این جی سی کو ڈبونے کے لئے مودی حکومت نے گجرات اسٹیٹ پٹرولیم کارپوریشن ( جی ایس پی سی) کا سہارا لیتے ہوئے کہا ہے کہ او این جی سی اس ڈوبتی ہوئی کمپنی کے حصص خریدے ۔ او این جی سی نے کمپنی کے حصص خریدنے کے لئے آٹھ ہزار کروڑ روپے ادا کردیئے ہیں، جس سے او این جی سی پر اقتصادی دباؤ بن گیا اور اس کی حالت دن بہ دن بگڑنے لگی۔ مسٹر تیواری نے کہا کہ مودی حکومت نے ڈوبتی ہوئی کمپنی جی ایس پی سی کے حصص خریدنے کے لئے او این جی سی پر دباؤ بنایا ، جس کا خمیازہ کمپنی اور اس کے عملے کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ فائدے میں چلنے والی ملک کی یہ تیل پیداواری کمپنی اب خسارے میں آ گئی ہے اور اس کی ذمہ داریاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسٹر مودی جب گجرات کے وزیر اعلی تھے تو جی ایس پی سی ان کا سب سے اہم پروجیکٹ تھا۔ مسٹر مودی نے تب پروپیگنڈہ کیا تھا کہ کاویری -گوداوري بیسن میں وافرتیل کے ذخائر ہیں اور اس کو نکالنے کے بعد ملک کو تیل کی درآمدات پر منحصر نہیں رہنا پڑے گا۔ مسٹر منیش تیواری نے کہا کہ گجرات حکومت نے 19500 کروڑ روپے سرکاری خزانے سے خرچ کر کے جی ایس پی سی بنائی تھی لیکن نتیجہ ‘کھودا پہاڑ نکلی چوہیا’ والا رہا۔ جی -بیسن میں کوئی تیل کے ذخائر نہیں ملے اور کمپنی کے تمام پیسے برباد ہوگئے ۔ کانگریسی لیڈر نے کہا کہ مزدور سبھا کے خط کے مطابق جی- بیسن میں جب کام شروع ہوا تو بغیر ٹینڈر کے پرائیویٹ کمپنیوں کو کام دے دیا گیا اور مسٹر مودی کے قریبی لوگوں کو دیا جانے لگا۔ قوانین کے مطابق اس طرح کے منصوبوں میں کوئی بھی کام ٹینڈر کے عمل کے ذریعے ہی دیا جاتا ہے لیکن گجرات حکومت نے کسی رسمی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔ ترجمان نے کہا کہ مودی حکومت کی سرگرمیوں سے اب یہ بالکل صاف ہو گیا ہے کہ وہ پی ایس یو کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ اگر پی ایس یو کو اسی طرح سے ختم کیا گیا تو یہ ملک کو نقصان پہنچانے والا قدم ہوگا اور اسے کنٹرول کرنے کے لئے سپریم کورٹ کو مداخلت کر کے معاملے کو نوٹس میں لینا پڑے گا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا