غزل

0
144

عمران راقم

ہر بار بن رہی تھی جو ہشیار گر گئی
بے شرم ہر نظر سے ہی اس بار گر گئی
دہشت گروں کیہاتھ سیتلوار گر گئی
یہ بھی سنیں گے مرکزی سرکار گر گئی
جن کوخدا تھا ہونے کا غرہ بہت یہاں
سرسے انہی کیزعم کی دستار گر گئی
جو تھی کھڑی وہ عزت و ناموس کے لئے
پردے کے پیچھے کی وہی دیوار گر گئی
آساں سمجھ رہے تھے سیاست کا وہ سفر
خودکی بنائی کھائی میں سب کارگرگئی
وہ تو کٹی پتنگ ہے اس کا وجود کیا
اس پار گر گئی کبھی اس پار گر گء
سچ بولنے کے شہر سے آداب کیا گئے
اہل زباں کے منہ سے ہی منقار گر گئی
ان سے نظر ملانے کا اب کیا ہو حوصلہ
جب بھی پلک اٹھی تو ہر بار گر گئی
جیسے ہی اس نے ہم کو دیا بے وفا کا نام
بجلی ہمارے ذہن پہ دو جار گر گئی
راقم ہوا میں کیا ہوئی تھوڑی سی دوستی
کشتی سے جو لگی تھی وہ پتوار گر گئی
9163916117

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا