غزل

0
132

محمد ابوسیف صدیقی
حسن و جمال کیا کمال ہے اس کا
سوچووفکرمیں بس خیال ہے اس کا
دل کی خوشی ہے یہ زمانہ کی چاہت
تصویرجوموجود ہے انکھوں میں اس کا
نہ ملاقات اور نہ کلام ہے اس سے
بس دل ہی دل میں پیغام ہے اس کا
یہ کیا بات ہے خوابوں کی یاروں
یوں ہی مسکرانا یہ عادت ہے اس کا
چاندنی رات کی چاندنی میں وہ
سنور کر آنا یہ کام ہے اس کا
وہ دل یہ دل سے کب ملیے گا
بھول جاؤں نہ یہ پیغام ہے اس کا
یہ دل بڑا بدماش ہے صدیقی
جو یوں ہی دل چرا لیا ہے اس کا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا