غزل

0
173

بینام گیلانی
گلشن خزاں رسیدہ بھی شاداب سا ہو ا
"جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا”
اہل قلم کی یوں تو کمی اب بھی کچھ نہیں
خالص ادب کا سایہ بھی نایاب سا ہوا
ہائے اندھیری رات کے اندیشوں کے قریب
بجھتا ہوا چراغ بھی مہتاب سا ہوا
کمیاب جب بصیرتیں ہونے لگیں یہاں
پھر زاغ گلستان بھی سرخاب سا ہوا
یہ کیسا امتحان ہے مومن کا اے خدا
اب خنجر جہاد بھی بے آب سا ہوا
سب بھول بیٹھے کیسے شہادت حسین کی
آخر فراط کیسے کے گرداب سا ہوا
معلوم ہو رہا ہے کہ ناراض ہے خدا
اب عام مومنان پہ بیداد سا ہوا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا