غزل

0
229

غالب برہان وانی

اک بات وہ کہ چاہ کے منہ سے ادا نہ ہو
جیسے کہ شعر کہنے کو اب قافیہ نہ ہو
اک بات جس کی جراتِ اظہار ہو محال
اک شاخ جس پہ پھول کوئی بھی نیا نہ ہو
شاعر کو اپنی ایک غزل بیچنی پڑے
اور اس کے پاس اور کوئی راستہ نہ ہو
یوں ہو کہ درمیان بہت رنجشیں ہوں اور
اک دوسرے سے کوئی کبھی بھی جدا نہ ہو
وحشی ہوائیں آتی ہوں جنگل کی سمت سے
اس گھر میں اور کوئی دریچہ کھلا نہ ہو
اک شام جس میں ٹوٹ پڑیں کوہِ غم کئی
اک شہر جس میں کوئی بھی غم آشنا نہ ہو
اک عکس مانگتا رہے اذنِ کلام اور
پیشِ نگاہ کوئی مگر آئینہ نہ ہو
اک چیخ جس سے ساری فضا مطمئن رہے
لگنے کو لگ رہا ہو پہ محشر بپا نہ ہو
ترکِ انا نہیں نہ سہی راہِ عشق میں
لیکن رہے دھیان کہ ترکِ وفا نہ ہو
اک رات پر تپاک و دھنک رنگ و پر شرر
اک طاقچہ کہ جس میں کوئی بھی دیا نہ ہو
شہہ رگ کو کوئی کاٹ لے اْس کی تلاش میں
اور عرش کے بھی پار وہ اْس کا خدا نہ ہو
جوشِ قدح سے بزمِ طرب جھوم اٹھی ہو اور
پھر اْس پہ یہ کہ کوئی بھی نغمہ سرا نہ ہو

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا