غزل

0
103

مصداق اعظمی

ہجومِ شہر میں کچھ یوں بھی کر لیا جائے
ملے جگہ تو کہیں پاؤں دھر لیا جائے
ذرا سکون ذرا اطمینان کی خاطر
ذرا سی دیر کی خاطر ہی مر لیا جائے
کرائے دار کے خواہش نہیں یہ نیت ہے
کہ اب مکان نہیں کوئی گھر لیا جائے
چلو غزل کے بہانے کسی کی انکھوں میں
تلاش کرتے ہوئے کچھ اتر لیا جائے
کئی ہزار نے سوچا بھی تو یہی سوچا
اس اک حسین کا کس طرح سر لیا جائے
ہماری بات کی قیمت ہے بس یہی مصداق
ہماری بات کا دل پر اثر لیا جائے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا