غزل

0
180

 

 

 

سہیل اقبال
ریاض سعودی

میں دام میں آجائوں گا ایسا نہ سمجھ لے
مجھکو کوئ معصوم پرندہ نہ سمجھ لے

ڈوبا تو کناروں سے ابل آئے گا دریا
نادانی میں کوئ مجھے ہلکا نہ سمجھ لے

غیروں سے یہاں اس لئے ہنس بول رہا ہوں
محفل میں کوئ مجھکو اکیلا نہ سمجھ لے

تلوار کی، خنجر کی تو باتیں نہ کیا کر
دنیا یہ تجھے خون کا پیاسا نہ سمجھ لے

سر رکھ کے تو پتھر پہ بھی نیند آئے گی تجھ کو
گر تو اسی پتھر کو مرا شانہ سمجھ لے

شہروں میں تو تشخیص نہ ہو پائی مرض کی
شاید مری تکلیف کو ویرانہ سمجھ لے
تجھ سے نہیں درکار سند عقل وخرد کی
دیوانہ سجھتا ھے تو دیوانہ سمجھ لے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا