غزل

0
0

 

 

 

سہیل اقبال
ریاض سعودی

میں دام میں آجائوں گا ایسا نہ سمجھ لے
مجھکو کوئ معصوم پرندہ نہ سمجھ لے

ڈوبا تو کناروں سے ابل آئے گا دریا
نادانی میں کوئ مجھے ہلکا نہ سمجھ لے

غیروں سے یہاں اس لئے ہنس بول رہا ہوں
محفل میں کوئ مجھکو اکیلا نہ سمجھ لے

تلوار کی، خنجر کی تو باتیں نہ کیا کر
دنیا یہ تجھے خون کا پیاسا نہ سمجھ لے

سر رکھ کے تو پتھر پہ بھی نیند آئے گی تجھ کو
گر تو اسی پتھر کو مرا شانہ سمجھ لے

شہروں میں تو تشخیص نہ ہو پائی مرض کی
شاید مری تکلیف کو ویرانہ سمجھ لے
تجھ سے نہیں درکار سند عقل وخرد کی
دیوانہ سجھتا ھے تو دیوانہ سمجھ لے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا