غزل

0
115

طارق محی الدین شرمیلاؔ
رابطہ: 7761816723

اپنی الفت کا پلا کر تو نے پیمانہ مجھے
غیر سے رسواکیا اپنوں سے بیگانہ مجھے
راہ تکتا چھوڑ آیا اس کو منزل کے قریب
شہر میں اک مل گئی تھی یار فرزانہ مجھے
جب مری دعوت اڑائی مولوی نے چار دن
تب کہیں اس نے دیاشادی کا عصرانہ مجھے
کیا ضرورت آ پڑی کافی تھا عورت کا وجود
کیوں بنائی تو نے دوزخ یہ تو سمجھانا مجھے
ایک گردہ رہ گیا تھا گورکن وہ لے اڑا
ڈاکٹر تو دے چکے تھے پہلے نذرانہ مجھے
میری بینائی پہ اس عینک کا ہے کیسا اثر
سب مساجد میں نظر آتا ہے بت خانہ مجھے
دیکھ کر گبھرا گئے وہ شاعروں کی ڈیل ڈول
پھر تو غالب لے گئے محفل سے جم خانہ مجھے
اس سیاسی پیترے سے ہے مرا قائم وجود
ورنہ آ جاتا میاں ای ڈی کا پروانہ مجھے
میں نے شرمیلا ؔانہیں جب دل دیا وہ کہہ اٹھے
اک تعلق سب سے ہے لیکن رقیبانہ مجھے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا