کاش !رشتوں میں یہ عنصر نہ ہوتا (افسانہ)

0
125

۰۰۰
ش۔شکیل
اورنگ آباد (مہاراشڑ)
9529077971
۰۰۰
شفیق اپنے بہن بہنوئی کو سلام کرتا ہوا بیٹھ گیا ۔ شفیق کی بہن سائرہ‘ بھائی کے آنے پر بہت خوش ہو رہی تھی۔ہنس کر شفیق کے بیوی بچوں کی خیر خیریت دریافت کررہی تھی۔دوسری طرف اپنے شوہر اور اپنی طرف سے یہ کہتے ہوئے۔ ’’کیا کہوں شفیق تیرے بھائی جان کو آفیس میں بہت کام تھا بڑے بڑے آفیسر بھی آئے تھے مکمل ایک ہفتے تک بہت کام میں مشغول تھے ‘تو تو جانتا ہے تیرے بہنوئی کو ‘پہلے وہ آفیس کاکام کرتے ہیں اُس کے بعد دوسر ے کام ‘ ویسے تو یہ بھی جانتا ہے‘ مجھے تیرے بہنوئی اکیلی کہیں آنے جانے نہیں دیتے‘ اس لیے نصرت کی شادی میں نہیں آناہوا‘ اُس کا دُلہا اور نصرت اچھے تو ہیں؟ ‘‘ کہتے ہوئے معافی بھی طلب کررہی تھی۔ سائرہ اپنے شوہر اور شفیق اپنے بہنوئی ‘وسیم کی ہمہ وقت بیوی کو اور سسرال والوں کو اُن کی ہی نظر میں اُنہیں گرانے کی فطرت سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن اپنی واقفیت کو وسیم پر اُجا گر ہونے نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ رشتہ نازک تھا ۔اگر عنصر اُجاگر ہوجائے گا تو رشتے میں بال آئے گا‘اس سے تمام وسیم کے سسرال والے واقف تھے۔وسیم کو اس بات علم تھا یا نہیں پتہ نہیںیا جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے نیچا دیکھانے کی کوشش میں لگا رہتا تھایہ بھی پتہ نہیں تھا ۔لیکن وسیم کو جیسے ہی موقعہ ملتا نیچا دیکھادیتا تھا۔ اب لوہا گرم تھا ۔وسیم ہتھوڑاچلادیا ۔شفیق سے پوچھا ۔’’کیا عدنان کی فلائٹ تھی!‘‘شفیق کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا‘ایک لمحے کے لیے حیرت و تعجب کے سمندر میں غرق ہو گیا۔سائرہ سمجھ گئی شفیق کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہوئی بولی ۔’’آپ لوگ باتیں کرو میں ناشتہ اور چائے لے آتی ہوں۔‘‘ کہہ کر باورچی خانے کے طرف جاتے جاتے سوچ رہی تھی ۔’واہ میرے سر تاج اب میرے بھائی پر طنز و تنقید کے جملوں کی بوچھار کروگے۔لیکن میں اس سے بخو بی واقف ہوں ‘میرے بھائی نے دن میں پچاس پچاس مرتبہ فون لگا کر نصرت کے رشتے کو لے کر بات کرنا چاہا ‘لیکن تم نے مسلسل پندرہ دن تک اپنا موبائل فون بند رکھا تھا۔ یہ ساری تفصیل مجھے پڑوس کے یہاں فون کرکے میرے بھائی نے بتا دی ہے۔ وسیم صاحب شاید تم کو اس کا علم نہیں ہے۔ اب تم جتنا ہمیں ہماری نظروں میں گرانے کی کوشش کروگے اُتنا ہماری نظروںسے گرتے جائوگے ساتھ ہی جب نصرت کے دُلہے کو اس بات کا علم ہوگا تو اپنے لنگوٹ یار کی نظر سے بھی تم گر جائوگے۔‘
وسیم تلخ لہجے میں تشریح کرتا ہوا بولا۔’’ار ے بابا میں تیری چھوٹی بہن نصرت کے دُلہے کا نام عدنان ہے نا۔۔میں اُس کی بات کررہا ہوں۔ ایسی کیا جلدی تھی کہ ایک ہفتے میں شادی کر ڈالا ۔۔ہمیں پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا‘کم از کم صلاح مشورہ تو کرلیتا‘ہاں ہاں تم لوگ سب کے سب اپنے آپ کو بہت عقل مند اور ہو شیار سمجھتے ہونا! ‘‘شفیق کا ذہن پوری طرح بیدار ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی اُسے یہ احساس بھی ہو گیا اب بھائی جان شال میں لپٹ لپٹ کر جملے مارے نگے۔ اس لیے شفیق اپنے ذہن پر برف کی سیل رکھ لیا ۔شفیق پُر سکون لہجے میں مسکراتے ہوئے بولا۔ ’’بھائی جان والدین کے ا نتقال کے بعد سے ہر کام میں آپ کے صلاح مشورے کے بعد کر رہا ہوں۔ اس سے قبل کا جو رشتہ نصرت کے لیے آیا تھا وہ بھی جلدی کا تھا یہ بھی جلدی کا تھا۔ میں دن میں ہر دس منٹ بعد آپ کو فون لگاتا تھا لیکن آپ کا فون مسلسل بند آرہا تھا۔میں جہاں تک ہوسکے ہر ممکن یہ کوشش کرتا رہا کہ آپ سے رابطہ ہوسکے لیکن ہر کوئی یہی کہا کہ آپ کا موبائل بند ہے۔یہاں تک چھوٹے بھائی جان نصرت کے دُلہے نے بھی آپ کو فون کال کرنے کی کوشش کی ۔ آخر میں عدنان بھائی جان نے یہ کہا’وہ میرا لنگوٹ یار ہے جب بھی فون کرتا ہو ں تو فورًا جواب دیتا ہے نہ جانے اب ایسا کیا ہوا کہ اُس کا فون بند بتا رہا ہے۔میں اپنی شادی پر اُسے بلوانا چاہتا ہوں لیکن نہیں بلا پارہا ہوں۔ جانے دو شادی ہونے کے بعد میں تم اور تمہاری بہن ایک ساتھ تمہارے بہنوئی اور میر ے لنگوٹ یار وسیم سے ملنے جائے نگے۔‘‘ اس پر وسیم سخت و تلخ لہجے میں بولا۔’’ارے تو کوئی بھی تجھے آکر کہے گا کہ میں وسیم کا لنگوٹ یار ہوں تو ‘تو اُس پر یقین کرلے گا۔دنیا میں کئی لوگ ہیں جو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے کوئی بھی جھوٹا حوالہ یا ثبوت پیش کر دیتے ہیں۔۔ ۔کوئی بھی ایرا گیرا عدنان آیا ہوگامیرا نام لیا ہوگا اور تم کو یقین آیا ہوگا تو اپنی بہن کا نکاح اُس سے کرادیا ہوگا۔نہ تحقیقات کی اور نہ ہی پوچھ تاچ کی۔۔ واہ کیا عقل کے اندھے ہیں۔کچھ وقت لے لینا تھا۔ یہاں میرے پاس اُس کی فوٹو لانا تھااگر میرا فون بند تھا تو‘اُ س کے بعد فیصلہ کرتے میرا چھوڑ ۔۔۔ تو تواپنی بڑی بہن سے بھی صلاح مشورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔واہ رے بھائی واہ۔‘‘ اسی وقت سائرہ چائے ناشتے کی ٹرے سنبھالے کمرے میں داخل ہوئی۔ٹی ٹیبل پر ٹرے رکھتے ہوئے مسکراکر پوچھی ۔’’کیا باتیں ہورہی ہیں سالے بہنوئی میں؟‘‘ وسیم فورًا بول اُٹھا۔’’دیکھو تمہار ے بھائی کو ۔۔کوئی عدنان نامی نوجوان آیا میرا نام لیا اور تمہارے بھائی نے تمہاری لاڑلی پیار ی ہر دلعزیز چھوٹی بہن کا نکاح اُسے کردیا ۔۔ اور تو اور میرا چھوڑو کم از کم اپنی بڑی بہن یعنی تم سے صلاح مشورہ کرنا تک گورا نہیں کیا ۔۔۔دیکھو کیسا ہے تمہارا بھائی۔‘‘ کمرے میں سناٹا چھا گیا تھا۔تینوں ایک دوسر ے کو خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ سائرہ کی آواز خاموشی کو توڑدی۔ مسکر ا تے ہوئے وسیم کی طرف ناشتے کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے بولی۔’’ یہ لو ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ باتیں ہوتی رہے نگی۔ ‘‘تینوں خاموشی سے ناشتے کرنے میں لگ گئے ۔اس کے بعد چا ئے کا دور ہوا۔اس وقت بھی مکمل خاموشی تھی ۔تینوں صرف خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ وسیم یہ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہورہا تھاکہ میں نے ایک بھائی کو بڑی بہن کی نظر میں گرا دیا۔دوسری طرف سائرہ اور شفیق دل ہی دل میں سوچ رہے تھے اس کا ہمیں علم تھا اس طرح کا کچھ ہمارے ساتھ تم کروگے ۔لیکن ہم بھائی بہنوں میں پیار محبت قدر و منزلت کبھی کم نہ ہوگی ۔اُسی وقت دروا ز ے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ وسیم دروازے کی طرف لپکا۔دروازہ کھول کر خوشی سے کہنے لگا۔’’ارے عدنان۔۔اچانک کیسے آنا ہوا۔‘‘دوسرے لمحے چونک کر برقعہ پوش دوشیزہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا ’’ارے کس محترمہ کو اپنے سا تھ لایا ہے۔‘‘پھر شفیق سے مخاطب ہوکر بولا۔’’ یہ ہے میرالنگوٹ یارعدنان۔۔۔دیکھ کیسا خوبصورت ہے اونچا پورا نوجوان۔‘‘شفیق مسکراتا ہواکہا۔’’اسلام علیکم چھوٹے بھائی جان ۔۔اگر پہلے بتا دیتے تو میں آپ کے ساتھ ہی آتا‘‘ کہتا ہوا گلے لگ گیا ۔دوسری طرف برقعہ پوش دوشیزہ اپنا نقاب اُلٹتے ہوئے مسکراکر کہہ رہی تھی ۔’’اسلام علیکم بھائی جان اور آپا جان۔ ‘‘سائرہ خوشی سے ’’ارے نصرت تو۔‘‘کہتی ہوئے سینے سے لگا لی ۔عدنان کہنے لگا۔’’شفیق ہم تمہارے گھر گئے تھے تیرے بیوی بچوں نے بتایا کہ تم اپنے بہن بہنوئی کے پاس گئے ہو تو ۔۔۔وہیں بیٹھے بیٹھے میرے ابو امی کو فون کال کرکے کہا کہ میں میرے دوست وسیم کو حیرت زدہ کرنے اُس کے پاس جارہا ہوں۔۔۔میرا لنگوٹ یار میرے شادی میں نہیں آیا تو کیا میں ہی اُسے سر پرائز دے دیتا ہوں۔۔۔ابو امی نے اجازت دے دی سو چلا آیا۔‘‘پھر وسیم سے مخاطب ہوکر بولا۔ ’’کیسے لگا میرا سرپرائز میرے لنگوٹ یار‘‘ کہتا ہوا دوبارہ گلے لگ گیا۔کچھ لمحات پہلے جو جذبہ وسیم میں دیکھائی دے رہا تھا اب وہ باقی نہیں تھا۔وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہا تھا۔ آج وہ اپنی ہی نظروں میں اپنے آپ کو گرتا محسوس کررہا تھا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا