غزل

0
67

عمران راقم

غمزدہ کیوں ہیں نیم شب آنکھیں
کس لئے ہیں یہ جاں بلب آنکھیں
اک نہ اک چیز کوئی منظر سے
کرتی رہتی ہیں کچھ طلب آنکھیں
آنکھوں آنکھوں میں ہو گئیں باتیں
یار ہوتی ہیں کچھ عجب آنکھیں
اس کے لہجے میں ہے ہنسی لیکن
ڈھا رہی ہیں مگر غضب آنکھیں
ایک صدمہ کبھی جو گزرا تھا
یاد کرتی ہیں اس کو اب آنکھیں
سارے منظر بدل گئے کیسے
سوچتی ہیں یہ بے سبب آنکھیں
جانتی ہیں سبھی نشیب و فراز
پڑھ رہی ہیں حسب نسب آنکھیں
اور کتنوں کی رات کالی ہو
کتنی ہونی ہیں مضطرب آنکھیں
بس اشارے میں بات کرتی ہیں
اتنی راقم ہیں با ادب آنکھیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا