فلسطین کی فریاد

0
41

اقبال بیگ مرزا

امن کے سارے علمبردار تم سوچو ذرا
کیوں فلسطیں میں لہو انساں کا ہے بہتا ہوا
کھیل تھا جس کے لئے طوفان کا رخ موڑنا
وہ مسلماں کیوں ہے اسرائیل سے سہماہوا
وہ بھی راہی تھا کہ جس کو ڈھونڈتی تھی منزلیں
تو بھی راہی ہے مگر ہے راستہ بھولا ہوا
آج ہم اپنی حفاظت کے لئے تو ایک ہوں
ظلم کا سیلاب بھی رک جائے گا بڑھتا ہوا
ایک بھی بستی جہاں میں بے سبب اجڑی نہیں
کیا سبب ہے ڈھونڈیئے کیوں ہے چمن اجڑا ہوا
اپنے ہی دیں سے بغاوت اپنے آقا سے فرار
غیر ممکن ہے کہ من جائے خدا روٹھا ہوا
سر بلندی کی تمنا سر بلندی کے اصول
یاد کرنا چاہیے پھریہ سبق بھولا ہوا
ائے فلسطیس کے مجاہد آفریں صد آفریں
عزم سے تیرے غرور کفر ہے ٹوٹا ہوا
دامن اہل عرب پر بد نما ایک داغ ہے
ہے فلسطیں کا مسلماں خون میں لتھڑا ہوا
قبلۂ اول پہ قبضہ دشمنوں کاہے مگر
اور مسلم دیکھئے ہے چین سے سویا ہوا
کیسے آئے گی ابابیلوں کے لشکر کی مدد
مرزا عربستان ہے دیکھو عیش میں ڈوبا ہوا

(احمد آباد، گجرات )

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا