غزل

0
61

 

 

عمران راقم

فرصت نہیں ہے آج کسی آدمی کے پاس
کچھ دیر رک کے سانس لیجو زندگی کے پاس
ملتے نہیں خلوص سے جب اپنے گھر کے لوگ
بیٹھے گا کون بولے گا پھر اجنبی کے پاس
اپنے عمل سے سب نے بنائی ہے عافیت
دولت کسی کینام ہے جنت کسی کے پاس
رہتا نہیں ہے تنہا کبھی آج تک عدو
ہے دشمنی کے پاس کبھی دوستی کے پاس
دھوکا ، فریب ، فتنہ اگر چاہئے تہمیں
سب کچھ ملیگا آج کے ہر آدمی کے پاس
رستہ دکھانے والے تھے برسات میں مجھے
جگنو تو پر سکھاتے ملے روشنی کے پاس
ڈاکہ زنی کی گاؤں میں تفتیش جب ہوئی
اسباب سارے پائے گئے سنتری کے پاس
راقم دل ودماغ کے گل ہوگئے چراغ
کچھ دیر ہم جو بیٹھے رہیمشتری کے پاس
9163916117

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا