سہ ماہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ اپریل تا دسمبر 2023:ایک جائزہ

0
167

۰۰۰
ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
۰۰۰
پیئر ریویوڈ اردو جرنل سہ ماہی ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘ کا شمارہ اپریل تا دسمبر 2023منظر عام پر آچکا ہے۔ سرسری مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شمارہ دیگر شماروں کی طرح دستاویزی حیثیت کا حامل ہے۔ رسالہ کے مدیر ڈاکٹر منصور خوشتر نے بڑی عرق ریزی سے رسالہ کے اس شمارہ کو سجایا سنوارا ہے۔ اس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اداریہ کے بعد رسالہ ’’دربھنگہ ٹائمز ‘‘ کے تازہ شمارہ میں ایک مبسوط گوشہ ’’گوشۂ نورالحسنین‘‘ شامل ہے۔ اس گوشہ کے تحت سب سے پہلا مضمون مایہ ناز فکشن نگار عبدالصمد صاحب کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نورالحسنین نے اگرچہ اپنی چال دھیمی رکھی مگر وہ اپنے رستے سے کبھی ہٹے نہیں۔ گاہے گاہے ان کے افسانے سامنے آتے رہے اور ان کی موجودگی کا احساس ہوتا رہا ۔ ’’مین اسٹریم‘‘ کے طور پر جن لوگوں کے ہاتھوںمیں چمکتے ہوئے جھنڈے تھے ،و ہ انہیں مضبوطی سے پکڑے رہتے تھے، روشنی کے چھناکے اتنے تیز تھے کہ جینوئین لوگوں کے چہرے دکھائی نہیں پڑتے تھے ۔ نورالحسنین اس صورت حال سے بالکل بددل نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے اپنی چال میں کوئی مضحکہ خیز تبدیلی لائی۔ کچھ لوگ رواداری میں ان کا نام ستر کے بعد آنے والے افسانہ نگاروں میں فہرست میں ڈال دیتے ہیں ، کچھ ا نہیں اسی کے بعدا بھرنے والا افسانہ نگار قرار دیتے ہیں۔ و ہ نہایت لگن، خاموشی اور خلوص کے ساتھ اپنے لکھنے پڑھنے کے مشن میں لگے رہے۔ڈاکٹر حسین الحق اپنے منفرد رنگ و آہنگ میں اپنے مضمون ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ۔ پہلی نظر میں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نورالحسنین کا نیا ناول ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ اپنے عنوان کے لحاظ سے تاریخیت ، تاریخی شعور اور تخلیقی شعور تمام اوصاف کی طرف اشارے کرتا ہے۔ اپنی ابتدا سے آخر تک نورالحسنین ایک کامیاب قصہ گو کی طرح قاری کو اپنے قصے سے باندھے رکھتے ہیں اور صفحہ 10پر ایک کردار کے ذریعے جو بات کہی جاتی ہے کہ ’’انگریز مرے گا اور نہ اس دیش سے جائے گا ۔۔۔۔۔اسے ہمیں ہی بھگانا ہوگا۔‘‘اس کے علاوہ پروفیسر عتیق اللہ ، ڈاکٹر نگار عظیم، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر قاسم امام، مشتاق احمد نوری، خورشید اکبر، پروفیسر اسلم جمشیدپوری ، فخر الدین عارفی، راقم الحروف (ڈاکٹر احسان عالم) ، ڈاکٹر اسود گوہر، وسیم احمد فدا، ڈاکٹر منصور خوشتر، سیدہ تزئین فاطمہ نے اپنے اپنے مضامین سے اس گوشہ میں چار چاند لگانے کی کوشش کی ہے۔ قارئین کے دلچسپی کے لئے نورالحسنین کے افسانے ’’ایک زندہ کہانی، بھور بھئی جاگو، گڑھی میں اترتی شام، پیپل کی چھئیاںشامل اشاعت ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم اردو ادب کا ایک نمایاں نام جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ یہ جملہ لکھتے ہوئے عجب سا لگتا ہے لیکن موت کا مزہ تو ہر ذی روح کو چکھنا ہے۔ ان کی یاد میں پروفیسر عبدالمنان طرزی، انورالحسن وسطوی ، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد اور انور آفاقی نے اپنے منظوم اور نثری تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر طرزی اپنے منظوم تاثرات کے لئے جانے جاتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر امام اعظم کی یاد میں کہتے ہیں:
ادب نواز و سخن شناور امام اعظم
لٹائے جس نے قلم کے گوہر امام اعظم
دعا ہے طرزیؔ کہ مغفرت ہو خدا سے اس کیمقام جنت میں ہو میسر امام اعظم
ڈاکٹر امام اعظم تقریباً 30کتابوں کے مصنف و مؤلف تھے۔ کئی نامور قلمکاروں نے ان کی شخصیت اور فن پر کتابیں لکھیں۔ ان کی شخصیت سے متعلق انورالحسن وسطوی لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امام اعظم بحیثیت انسان ایک مثالی شخصیت کے حامل تھے۔ وہ بہت ہی ملنسار، نیک، شریف النفس، مہمان نواز، صوم و صلوٰۃ کے پابند اور مذہبی انسان تھے۔ ڈاکٹر مجیر احمد آزاد سے ڈاکٹر امام اعظم کے تعلقات بہت مضبوط تھے۔ڈاکٹر مجیر احمد آزاد ان کے فن سے متعلق لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امام اعظم ایک ہمہ جہت قلمکار ہیں۔ دنیائے شعر وادب میں اپنی گونا گوں کاوشوں کے سبب مستحکم شناخت رکھتے ہیں۔ شاعری اور نثر نگاری دونوں سے گہری دلچسپی رہی ہے۔ان کی ادارت میں تمثیل نو شائع ہوتا ہے اور عالمی اردو گائوں میں اس کی پذیرائی ہوتی ہے۔ اس کے کئی خاص گوشے نے نئے مباحث کو جنم دیا ہے۔ سنجیدہ ادبی حلقے میں ان کی اس ادبی کارگذاری کو بنظر تحسین دیکھاجاتا ہے۔افسانہ نگار اور شاعر انور آفاقی لکھتے ہیں کہ امام اعظم اردو کے اس خادم کانام ہے جنہوں نے دور حاضر میں دربھنگہ کو ساری اردو دنیا میں ’’تمثیل نو‘‘ کے وسط سے نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اردو ادب میں اپنی تخلیقات اور ادبی کارناموں کے ذریعہ اپنی پہچان بھی بنائی۔ وہ اردو زبان وادب کی ترویج و اشاعت کے لئے ہمیشہ ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔مضامین کے باب میں پہلا مضمون حافظ کرناٹکی کا ہے ۔ انہوں نے ’’بنیاد ہل گئی ہے ادب کے ایوان کی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ اردو زبان میں ایسے نابغہ کی ہمیشہ کمی رہی ہے جس کی موجودگی میں پوری اردو دنیا ادبی اور فکری ثروت مندی محسوس کی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب اردو زبان وادب کے ایسے ہی نابغہ تھے۔ اگر ایمانداری سے کہنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ فاروقی صاحب کا پوری اردو دنیا میں کوئی جانشیں اور بدل نہیں تھااور نہ فی الحال ان کی جگہ لینے کے لائق کوئی دور دور تک نظر آتا ہے۔ پروفیسر محمد آفتاب اشرف ’’مولانا آزاد کی شخصیت کی تعمیر میں ماں کا کردار‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد اپنے دور کے ایک ایسے بے باک ، دور اندیش اور باحوصلہ مدبر و مفکر تھے جنہوں نے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی بقا اور اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار کرنے میں اپنی بے مثال توانیاں صرف کیں۔ مولانا کے تمام اعما ل و کردار کونکھارنے میں ان کے گھر کے ماحول کی پرکیف فضا بڑی بار آور رہیں۔ ان کی والدہ عالیہ بیگم کی مخلصانہ اورجذباتی ہمدردی اور تربیت نے ایک معمولی سے بچے کو جمہوریہ ہند اور تاریخ ادب اردو کا منفرد شخص بنادیا جن کے عظمت و احترام میں کسی بھی طرح کے کلام کی گنجائش نہیں سمجھی اور کی جاسکتی ہے۔ ’’راسخ عظیم آبادی‘‘ کے عنوان سے خالد عبادی نے ایک جامع مضمون قلمبند کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ راسخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علم نجوم ،موسیقی اور مصوری ، نغمہ پردازی اور نے نوازی میں اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔ ان کی عروض دانی میں بھی کوئی شک نہیں۔ اس فن میں ایک رسالہ یادگار چھوڑا ہے۔ سلیم انصاری کے شعری رویہ پر ڈاکٹر وصیہ عرفانہ نے ایک مضمون رقم کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ سلیم انصاری کا تعلق 1980کے بعد ادبی منظر نامے پر ابھرنے والے شاعر وادیب کے قبیلے سے ہے۔ سلیم انصاری نثر نگار بھی ہیں اور شاعر بھی۔ ان کا اصل میدان شاعری ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ان کے تبصراتی شعور اور تنقیدی زاویہ نگاہ نے اپنی شاعری پر بھی گرفت رکھی ہے۔’علامہ اقبال ایک آفاقی شاعر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد ایوب نے ایک پُرمغزمضمون تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال کی شاعری سراسر پیغامی شاعری ہے۔ انہوں نے مختلف جہت سے اقوام عالم کی علمی سیاسی، سماجی، اخلاقی ، ملی مذہبی اور فلسفیانہ و متصوفانہ زندگی کا مطالعہ کیا تھا اور اسی غرض سے کیا تھا کہ وہ اپنی پیغامی شاعری کے لئے تاریخ اقوام و ملل سے مواد کشید کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں متنوع رنگ ملتے ہیں۔ڈاکٹر فرح معید ’’غضنفر کا افسانہ ۔ کڑوا تیل‘‘ ایک مطالعہ‘‘کے عنوان سے لکھتی ہیں کہ غضنفر ایک ایسے فنکار ہیں جنہوں نے بیک وقت شاعری، ناول، افسانہ، ڈرامہ، خاکہ، تنقید اور تحقیق مختلف النوع اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور کم و بیش تمام اصناف میں اپنی علیحدہ شناخت قائم کی ہے۔ تبصراتی مضامین کے تحت ’’شہر میں سمندر‘‘ (بیگ احساس)، ’’شکیل استھانوی کے نقو ش حیات ‘‘ (ڈاکٹر رئوف خیر )، ’’افسانوں کا مجموعہ :: رات کی بات‘‘ (رفیع حیدر انجم)، ’’ناول ’نوحہ گر‘ ‘ ’’تحقیق و توضیح تحقیقی بیانیہ کی منفرد تمثیل‘‘ (ابرار احمد اجراوی)، ’’منصور خوشتر کی غزل گوئی : ’کاسۂ دل کے حوالے سے‘‘ (مظہر وسطوی) ، ’’خاشاک تنقید ۔ شمیم قاسمی کی تنقیدی پیشکش‘‘ (ڈاکٹر منصور خوشتر) ، ’’صحرائے جنوں ۔ کی وسعتوں میں خاک اڑاتا شاعر احمد معراج‘‘ (ناہید اختر) شامل ہیں۔ ریسرچ اسکالر کے مضامین کے تحت ’’پروفیسر مشتاق احمد : احوال و آثار ‘‘ (محمد حسان)، ’’اکیسویں صدی میں اردو افسانے کے موضوعات‘‘ (مبینہ بی) ، ’’اکیسویں صدی کی خواتین ناول نگاروں کے ناول کے اسلوب ‘‘ (احمد علی)، ’’عبدالقوی دسنوی شخصیت اور فن‘‘ (محمد ضیاء الحق) اس شمارہ میں شامل ہیں۔
کتھا کہانی کے تحت ’’حساب ‘‘ شاہد اختر ، ’’پھول اور خوشبو‘‘ ڈاکٹر ریاض وحیدی کشمیری ، ’’کھونٹی‘‘ توصیف بریلوی، ’’بکھرتے آشیانے ‘‘ اویناش امن اور’’آزادی‘‘ عطااللہ احمد شامل ہیں۔ ’’ذکر تیرا بعد تیرے ‘‘ پر انور آفاقی کی نظم جبکہ پروفیسر طرزی، حلیم صابر، ڈاکٹر امام اعظم، انجم لکھنوی ، سیفی سرونجی، اشرف یعقوبی کی غزلیں رسالہ کی معنویت میں اضافہ کرتی ہیں۔ آخر میں کتابوں پر چند تبصرے شامل ہیں۔ جن میں ڈاکٹر وصیہ عرفانہ، ڈاکٹر مجیر احمد آزاد، ڈاکٹر منصور خوشتر اور ڈاکٹر احسان عالم نے کتاب ’’مطالعۂ کتب، قدم بہ قدم، اردو کی برکتیں، اختر کاظمی شخصیت اور صحافت، تعاقب زرد موسم کا، سہ ماہی انتساب عالمی اور عطا عابدی اور ادب اطفال ‘‘ کا تعارف قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس طرح رسالہ دربھنگہ ٹائمز کا زیر مطالعہ شمارہ مواد سے بھرپور ، معلوماتی اور مطالعہ طلب ہے۔ آئندہ بھی اس طرح معیاری شمارہ نکالتے رہنے کی توقعات ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا