ارشد فیروز : ایک بہتر انسان اور مخلص اردو دوست

0
116

فخرالدین عارفی
9234422559

گورنمنٹ اردو لائبریری کے موجودہ چیرمین ارشد فیروز صاحب . انتہاء منکسر المزاج اور خلیق انسان ہیں ، شکل اور وضع قطع سے کوء خاندانی رئیس نظر آتے ہیں۔ ادب کا بھر پور ذوق وشوق رکھتے ہیں اور اردو زبان سے بے انتہا محبت کرتے ہیں خاص طور پر مشاعروں کے بہت شوقین انسان ہیں اور غزل سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ خود ان کی آواز بھی اتنی پیاری اور خوب صورت ہے کہ جب کسی شاعر کی غزل اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں بہت قریب سے کرشن جی بانسری بجا رہے ہوں۔ ایک زندہ دل انسان کا نام ہے ارشد فیروز۔۔۔۔اور جب کسی کے دل کا گلاب شگفتہ ہو تو اس کا پورا وجود مہکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسی مہک جو گلاب کی خوشبو کو بھی بے معنی اور کم تر کردیتی ہے۔ وجود کی خوشبو اور پیار کی خوشبو کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ شاید ایسی ہی کسی خوشبو سے مشہور شاعر بشیر بدر بھی متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے یہ شعر کہا تھا کہ :
بس گئی ہے مرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاوں تیری خوشبو آیء
ارشد فیروز صاحب محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ سرکاری ملازمت سے سبک دوش ہوئے ہیں۔ لیکن حکومت نے ان کو ان کی دلچسپی کے لحاظ سے ایک دوسری اور نئی ذمہ داری دیدی ہے۔ فی الوقت وہ گورنمنٹ اردو لائبریری میں چیر مین کے پوسٹ پر فائز ہیں۔ اس لائبریری کی اپنی ایک اہمیت اور انفرادیت ہے اور شاید یہ پورے ملک میں اپنی نوعیت کی پہلی ایسی لائبریری ہے جو ڈاکٹر سید محمد محمود کے خوابوں کی زندہ تعبیر ہے اور نہ صرف بہار بلکہ ملک کی پہلی ایسی لائبریری ہے جس کا سارا نظام ریاستی حکومت کے ہاتھوں میں ہے اور شعبہ تعلیم اس کے سارے اخراجات برداشت کرتا ہے ۔ 1938 ء سے یہ لائبریری اردو زبان کی خدمت کررہی ہے اور ہزاروں لوگ اس لائبریری کے ادبی ذخیرے سے استفادہ کرکے اپنا مستقبل سنوار چکے ہیں۔ سلطان احمد صاحب ہوں یا نظام الدین صاحب یا پھر حسن احمد ہوں یا پرویز عالم اور محمد اظہر اس لائبریری کی تاریخ کا ایک اہم حصّہ بن چکے ہیں عزیزہ امام ہوں یا ہارون رشید یا پھر ارشد فیروز سب کی نمایاں خدمات رہی ہیں قابل ذکر کارکردگیاں رہی ہیں۔ جن کو شاید فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ارشد فیروز صاحب اس معاملے میں زیادہ فعال اور متحرک نظر آرہے ہیں ، ان کے وقت میں میرے خیال میں تعمیری ، علمی ، ادبی اورثقافتی سطح پر چند ایسے باب کا اضافہ ہوا ہے جو اس لائبریری کی تاریخ میں زیادہ نمایاں اور اہم محسوس ہوتا ہے۔ بڑی لائبریری وہی ہوتی ہے جو صرف کتابوں کا قبرستان نہیں ہوتی ہے بلکہ انسانوں کے ذہن و دماغ کی باغبانی بھی کرتی ہے۔ زندگی سے تھکے ہارے اور کمزور لوگوں کے اندر ایک نء روح پھونکنے کا کام بھی کرتی ہے ، ان کو حوصلہ بھی دیتی ہے اور ان کے دلوں کے اندر ایک نیا جوش و ولولہ بھی پیدا کردیتی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارشد فیروز صاحب نے یقیناً ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو ماحول ہمیں سماج کے اندھیروں سے نکال کر زمانے کی روشنی کی جانب لیکر آگے بڑھ رہا ہے۔
آج لائبریری میں تعلیمی ، تعمیری ، علمی ، ادبی اور ثقافتی سطح پر ایک نئی اور تعمیری فضا قائم ہوئی ہے جو لائبریری کی اہمیت و افادیت میں یقیناً اضافہ کررہی ہے اور نہ صرف طالبان علم و ادب بلکہ اکابرین ادب کے لیے بھی باعث افتخار ہے۔
میرے خیال میں عمارت سازی کا کام ہو یا ذہن سازی کا۔ دل کی شادمانی کا معاملہ ہو یا روح کی سیرابی کا۔ گورنمنٹ اردو لائبریری ارشد فیراز صاحب کی مضبوط قیادت میں ان کاموں کو احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے۔
جب ہارون رشید صاحب اس کے سربراہ تھے تو اس لائبریری کے زیر سایہ اردو تحریک بھی آگے بڑھی تھی اورمضبوط ہوئی تھی یہاں تک کہ جب ” اردو بھون ” کی تعمیر نہیں ہوئی تھی تو ایک طویل مدت تک اسی لائبریری کی بالائی منزل پر "انجمن ترقی اردو بہار ” کا دفتر بھی کام کیا کرتا تھا۔ جو ہارون رشید صاحب اور پروفیسر عبدالمغنی کی مضبوط دوستی کی وجہ سے ممکن ہوسکا تھا۔ آج جب ارشد فیروز صاحب لائبریری کے چیرمین ہیں تو اردو تحریک کے بیشتر محبان اردو لائبریری کی ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں ارشد فیروز صاحب کے ہمراہ اور ساتھ ہیں ، جس سے یقیناً ایک مثبت امید ریاست کی اردو آبادی کے دلوں میں پیدا ہوئی ہے اور اس بات کی توقع ہے کہ "گورنمنٹ اردو لائبریری ، پٹنہ ” کے زیر اثر اردو کے فروغ و ارتقا کی بھی کوئی بہتر صورت پیدا ہوگی اور اس کیمپس سے اردو کے مسائل کے حل کی سمت میں بھی خاطر خواہ پیش رفت عمل میں آیئ￿ گی اور امیدوں کا ایک ایسا تابناک سورج طلوع ہوگا۔ جس سے مسائل کی تاریکی کم ہوگی اور وسائل کے اجالے میں اضافہ ہوگا۔ تاریخ ایسے ہی اپنا رخ اور تیور بدلتی ہے ، مسائل حل ہوتے ہیں۔ ملت کے درمیان کا انتشار کم زور ہوتا ہے اور اتحاد و باہمی محبت فروغ پاتی ہے۔ ارشد فیروز صاحب کے دل کا موسم توسدا خوشگوار رہتا ہے ، امید ہے وہ اردو سماج کے موسم کے مزاج کو بھی خوشگوار بنانے کی سمت میں مثبت پیش رفت کریں گے کہ اردو سماج کے بہترین اور تجربہ کار لوگ اس وقت ان کے کارواں میں شامل ہیں :
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گیء اور کارواں بنتا گیا

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا