صاحب اسلوب نقاد اور انشا پرداز:ڈاکٹر ظ۔ انصاری

0
165

۰۰۰
منظوروقار(گلبرگہ) 9731428416
۰۰۰
پچھلی ربع صدی کے درمیان ادبی تاریخ پر نظرڈالتے ہیں تو اُردوادب ’’ثقافت اور صحافت ‘‘کے میدان میں انصاریوں کا طوطی بول رہاہے۔ عبدالحمید انصاری(بانی روزنامہ انقلاب ممبئی) ،محمود انصاری(بانی روزنامہ منصف حیدرآباد)،حیات اللہ انصاری(بلند پایہ افسانہ نگار)،اثر انصاری(ممتاز شاعر) طیب انصاری(تیس تصانیف کے مصنف)،ظ۔انصاری(صحافی اور نقاد)نامی انصاری(ممتاز مبصر اور نقاد)،شکیب انصاری(سنجیدہ فکر کہانی کار) دورحاضر کے جواں سال صحافی اور مدیر ماہ نامہ تحریر نو(ممبئی) جناب ظہیر انصاری۔مندرجہ بالا انصایوں میں ظ۔انصاری کی پہچان اورچھاپ سب سے الگ اور سب سے منفرد ہے۔ ظ۔ انصاری کی تصنیف کانٹوں کی زبان سے بھلا کون واقف نہیں۔پورے برصغیر میں جہاں اس کتاب کے چرچے رہے ہیں وہیں قارئین کے دل و دماغ پر اس کتاب کی تیز وتند تحریروں کے جھٹکے لگے ہیں۔ظ۔ انصاری کے قلم کی روانی برجستگی،تلخ وترش انداز بیان ان کے ہم عصر قلم کاروں کے لیے ناقابلِ تقلید تھا۔ان کا اسلوب ان کا اپنا تھا۔ان کی کسی بھی تحریر کو ان کے نام کے بغیر اُردوادب کے قاری کے سامنے رکھ دی جائے تو وہ بلا جھجک تصدیق کرے گا کہ یہ تحریر ظ۔ انصاری کی ہے۔ظ۔ انصاری ایک قلم کار ،ایک صحافی،ایک نقاد، ایک انشا پرداز،ایک دانشور کانام ہی نہیں ایک عہد کا نام تھا۔سجاد ظہیر،فیض احمد فیض اورسردار جعفری اور دوسرے روس نواز قلم کاروں نے حکومت روس اور روسی حکمرانوں کے منظور نظر بن کر ہند سے ماسکو تک چہل قدمی کی جو شاہراہ بچھائی تھی اس راہ پر ظ۔انصاری بھی چلتے رہے اگرچہ کہ ظ۔انصاری کمیونسٹ نظریے کے کٹر حامی تھے اور نہ ترقی پسند ادب کے ڈھنڈورچی ،تاہم انھیں بھی انقلاب روس کا جادو اپنی گرفت میں لے چکا تھا لیکن ظ۔انصاری دیگر ترقی پسند قلم کاروں اور شعرا کی طرح سرخ انقلاب کے نعرے لگانے کے بہانے ماسکو کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے رہے اور نہ وہاں کے ہوٹلوں،ڈنر پارٹیوں اور سیمیناروںمیں وقت برباد کیا۔برخلاف اس کے روس میں رہ کر تحریر وتالیف کا کام انجام دیتے رہے۔روسی قلم کاروں کی قلمی کاوشوں کا اُردوزبان میں ترجمہ کرتے رہے۔ڈاکٹر غضنفر اقبال لکھتے ہیں:’’ظ۔انصاری نے عمر عزیز کے لمحات روس میں گذارے روس میں رہ کر انھوںنے روسی فن کاروں چے خیف اور پوشکن کی حیات اور کارناموں پر (کتاب معنی مضمون)بڑے فن کارہوں کہ قلم کار سوپر اسٹار ہوںکہ سوپر پاور ملک کا صدر ان کی زندگیوں میں کوئی نہ کوئی عادت ہابی یا کمزوری ایسی ہوتی ہے جو عام آدمی کی دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔ان کے ایک ہم عصر قلم کار لکھتے ہیں:’’ظ۔انصاری کی لااُبالی بے نیازی جنسی نا آسودگی اورایک سے زیادہ شادیوں کے قصے ادبی حلقوں اورادبی محفلوں میں موضوع بحث ہوا کرتے تھے۔ظ۔انصاری کے قلم میں تلخی،تحریروں میں کڑواہٹ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ظ۔انصاری صبح نہار نیم کے پتے چبانے کے عادی تھے۔‘‘ظ۔انصاری کی شخصیت اوران کی قلمی قدآوری اتنی بلند تھی کہ وہ دس پندرہ کہنہ مشق صحافیوں،پندرہ بیس انشائیہ نگاروں اورنقادوں پر بھاری تھے۔ظ۔ انصاری نے اپنی شخصیت اورادبی مقام بنانے کے لیے کسی اور کا سہارا لیا اور نہ قسمت اور تقدیر پر تکیہ کیا۔مجتبیٰ حسین رقم طراز ہیں:’’ظ۔انصاری ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی شخصیت اور کردار کی تشکیل کے لیے قدرت کوکم سے کم زحمت دی اوراپنی محنت اورلگن پر زیادہ بھروسہ کیا۔‘‘(چہر در چہرہ)۔ جہاں تک ظ۔ انصاری کی زبان دانی کا معاملہ ہے ان کے دوستوں نے اس بات کا اعتراف کیاہے کہ ظ۔انصاری صرف اُردو عربی اور فارسی کے عالم نہیں روسی اور انگریزی کے بھی عالم تھے۔انکے ادبی مقالوں تبصروں تنقیدی مضامین تجزیوں جائزوں اور با معنی ترجموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو انکی قلمی کاوشوں اور تخلیقی قوت پر حیرت ہوتی ہے انکی تقریباََ تمام تصانیف موضوع اور مواد کے اعتبار سے اہم اور وقیع ہیں تام مندرجہ تصانیف نے انہیں شہر ت کے بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ جارج برنا دشاہ ، ورق ورق، کمیونسٹ اور مذہب زبان و بیان ، غالب شناسی،پوشکن ، چیخوف اقبال کی تلاش ، کتاب شناسی ، اور کانٹوں کی زبان مندرجہ بالا تصانیف کے علاوہ 55ہزار الفاظ پر مشتمل دو جامع اور قابل ذکر لغات باعنوان اُردو روس لغت، روسی اُردو لغت مطبوعہ ماکسو (روس) قابلِ ذکر ہیں۔ ظ۔ انصاری کی تحریروں کی گہرائی گیرائی صخافتی اور تنقیدی اٹھان تک رسائی حاصل کرتا ہے تو شمیم طارق کی کتاب "ظ -شناسی "کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ بقول ڈاکٹر الیاس شوقی۔ "ظ-شناتی”ظ-انصاری کے فکر و فن سے بھر پور واقفیت کے لئے کافی ہے یہ ایک اہل علم و نظر اور صاحب طرزا دیب کے فن پاروں کا دوسرا اہل علم و نظر کے ذریعہ کیا ہوا انتخاب ہے ” (بیباک جنوری 2013ء )ظ – انصاری کا ایک اور اہم کا رنامہ پوشکن کی ایک نظم کا اُردو ترجمہ ہے اس نظم کے ترجمے کے بعد ظ -انصاری کی ترجمہ نگاری کے ڈنکے ساری دُنیا میں بجنے لگے تھے۔ ظ۔انصاری کے دیگر قلمی اور علمی کارناموں کے علاوہ روزنامہ انقلاب(ممبئی) کی ادارت کے دوران جوا دبی اور ثقافتی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں یہ ایڈیشن تاریخ ادب میں دستاویزی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔شہد گھولتی ہوئی زبان میں باتیں بنانے والے لوگ قلم کی گل کاریوں سے قارئین کے دلوںمیں گدگدیاں پیدا کرنے والے قلم کار ہمیں قدم قدم پر ملیں گے لیکن کانٹوں کی زبان سے ضمیر کو جھنجھوڑنے والافن کار ہمیں صرف ظ۔ انصاری کی شکل میں ملے گا اوریہ انمول فن کار 31 /جنوری 1991کو ہماری آنکھوں سے ہمیشہ کے لئے اوجھل ہوگیا اور اپنے پیچھے چھوڑگیا اپنی تیز وتند اور ترش تحریروں کی انمٹ یادیں۔کتابیں تحریر کیں ۔روسی اُردوڈکشنری ترتیب دے کر ایک نئی تاریخ بنائی۔‘‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا