سوتن چوڑیاں

0
50

۰۰۰
سلمان عبدالصمد
۰۰۰
موہنی کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سے بہت سے کان کھڑے ہوگئے بلکہ اس پر چند مرد وعورت کی انگلیاں بھی اٹھنے لگیں۔جب وہ ان کی بْدبْداہٹ سنتی تو کلائی کی چوڑیوں کو غور سے دیکھتی اور سوچنے لگ جاتی کہ چوڑی کی گولائی میںفقط عورت کی کلائی قید نہیں ہوتی بلکہ مردوں کے دل بھی پھنس کر رہ جاتے ہیں مگر آج چوڑیوں میں مرد وعورت کی زبانیں اٹکی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔چوڑیوں سے نہ صرف موہنی کی کلائی میںرونق بڑھی تھی بلکہ شاید اس کے بدن کے دیگر حصوں نے بھی ان سے خوب صورتی ادھار لے لی تھی۔ کمر سے نیچے تک لٹکی ہوئی کلائیوں کو موہنی تنہائی میں بڑی اہستگی سے سینے کے قریب لاتی اور انھیں ہلا ہلاکر چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سے گویا پڑوس کو اکسا دیتی۔ پھروہ سوچتی کہ چوڑیوں نے اس کی کلائیوں کو اپنے قبضے میں نہیں کیا بلکہ خود اس نے سوتن چوڑیوں پر قابو پالیا ہے۔ سوتنوں کو قابومیں کرنا اسان کہاں ہوتا ہے! یوں تو عورت کی زبان لمبی ہوتی ہے۔سوتن بنتے ہی اس کے کسی عضو میں اضافہ نہیں ہوتا مگر اس کی زبان دوگنی ہوجاتی ہے ؛وہ بھی اتنی کہ شیطانی انت سے مقابلے پر اتر ائے!سوتن کو اپنے بس میں کرکے موہنی بہت خوش تھی۔ خوشیاں،غمِ ذات کو کھاتی ہیں اور سماج کے دیگر افراد کی خوشیوں کو بھی۔اس لیے ایک فرد کو خوش دیکھ کر سماج کے بہت سے افراد غم گین ہوجاتے ہیں۔ گویا ایک کی خوشی نے دوسرے کی خوشی ڈکار لی ہو۔ موہنی کی خوشی دیکھ کر اس پاس کے اکثر افراد ناخوش تھے۔ ’کچھ معلوم نہیں پڑتا۔ موہنی کہاں جاوے ، روز روز۔بھر بھر کلائی چوڑی کھنکھناتی پھرتی ہے۔ ’ ہاں باجی، کل تم نے دیکھا نہیں۔کتی رات گئی، ائی۔ وہ جو اس کی چوڑیوں کی اواز نہیں پاتی تو مجھے بھی پتا نہیں چلتا کہ کب ائی موئی۔ اس کی یہی عادت رہی تو جانتی ہو، ہماری بیٹیوں کو بگڑتے دیر نہیں لگے گی۔‘’تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ جبھی تو میں کہوں، اپنی بہو بیٹیوں پر کڑی نگاہ رکھو۔ دل کی کہوں،یہ مصیبت ہم سے یوں ٹلنے والی نہیں۔چاہے تم جو کہو، مگر میںموہنی کا علاقہ بس یوں ہی ساتھا۔ کسی مسکن کی اونچائی قدادم ، تو کسی کی اس سے بھی کم۔ کبھی کبھی گمان گزرتا کہ ایسے گھروں میں رہنے والی پستہ قد نسل کبھی اور پیدا ہوگی۔ کوئی کوئی گھر جتنا اوپر تھا،اْتنا زیر زمین۔ گویا ایسے گھروں کی گود میں گلی کی پتلی پتلی نالیاں بہہ ر ہی ہوں۔ جس طرح محبوب کی کمر موہوم ہوتی ہے، اسی طرح یہاں کے گھروں کی نیو اور چھتیں موہوم۔ اج موہنی واقعی عادت کے خلاف دیر رات گئے گھر واپس ہوئی تھی۔یہی سبب تھا کہ محلے کی عورتیں صبح صبح اس کے متعلق سرگوشیاں کرنے لگیں۔ ان کی سرگوشیاں ہوا میں تحلیل نہیں ہو پاتی تھی بلکہ گولی بن کر موہنی کے کانوں سے الگتی تھیں۔ اگر وہ چاہتی تو سرگوشی کے دھاگے کے سہارے ان عورتوں کے پاس پہنچ جاتی اور ان سے الجھ بیٹھتی لیکن اس نے چوڑیوں پر قابو پانے کا جشن منا نا مناسب سمجھا۔ بستر پر لیٹی لیٹی اس نے اپنی ہتھیلیوں کو جنبش دیا اور چوڑی کی کھنکھناہٹ میں عورتوں کی سرگوشیاں دب کر رہ گئیں۔ پھر اس نے چوڑیوں سے مکالمہ شروع کردیا۔’تم سمجھتی کیا ہو،مجھے صرف تم سے نفرت ہے۔نانا، تمھاری بنیاد اور تمھارے خاندان سے بھی مجھے بیر ہے۔ تمھارا خاندان ادم خور ہے، ادم خور۔۔۔ ‘ موہنی کے تیور دیکھ کر چوڑیاں خاموش رہیں۔ چند لمحے کے توقف کے بعد موہنی نے پھر بولنا شروع کردیا۔ ’ تمھارے خاندان نے ہمیشہ سوتن بنانا اپنا مشن سمجھا۔ یہ بھی کوئی ادمیت ہے !‘’ دیکھومیری بہن !ادمی ، ادمیت، انسان اور انسانیت تمھارے بس کا بھی نہیں۔ تم نے دل نہیں دل کی تصویر تو دیکھی ہوگی۔ وہ سیر دو سیر کا نہیں ہوتا۔پورے پیٹ نہیں بلکہ سینے میں اس کی ایک جگہ مختص ہے۔ اس مخصوص جگہ میں صرف دل رہے تو انسان،انسان رہتا ہے مگر اس میں گھس پیٹھیے کی طرح انتقام اپنا بسیرا ڈال دے تو انسان کہاں کا انسان! ایک نیا م میں جس طرح دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اسی طرح سینے کے مخصوص مقام میں انسان اور انتقام کا رہ پانا محال۔ ذرا تم اپنے اس مقام کو ٹٹولو، وہاں دل ہے یا انتقام۔ تم ہی انصاف کرو کہ انسانیت اور تم۔۔۔؟‘چیخ خاموشی کو جنم دیتی ہے۔جس معاشرے میں چیخ کے بعد خاموشی چھاجائے وہ معاشرہ ہم وار ہوتا ہے مگر جہاں چیخ سے مزید چیخ پیدا ہوجائے وہاں ناہم واریاں ہوتی ہیں۔ موہنی کا معاشرہ یقینا ناہم وار تھا مگر اس نے ہم واری کا ثبوت دیتے ہوئے چوڑیوں کی چیخ پر کچھ نہیں کہا اور فقط وہ انھیں مسلسل دیکھتی رہی۔ اس کی خاموشی دیکھ کر چوڑیوں نے بھی اپنا لہجہ تبدیل کیا اور بڑی متانت سے سوال کیا ’میں اپ کی سوتن کیسے ہوسکتی ہوں۔ اپ انسان اور جان دار ، میں خوار اور بے جان۔‘’ سوال تو تمھارا ٹھیک ہے مگر تم میرے قابو میں ہونا۔ اتنی بھی کیا جلدی، سمجھادوں گی جلد۔ ابھی صرف ایک مثال لو۔ ٹو وہیلر کی رفتار تھری وہیلر سے تیز ہوتی ہے۔ میاں بیوی ٹو وہیلر ہوتے ہیں،جب کہ سوتن تھری وہیلر بن کر اتی ہے۔ اس لیے عشق کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ تم جان دار ہو یاخوار مجھے کیا مطلب، مگر تمھارے خاندان کی وجہ سے میرے اور میرے شوہر کے درمیان کی رفتار کم ہوگئی بلکہ ختم ہوگئی۔ ہاں ہاں، بالکل ختم۔ گویا تم تھری وہیلر ہو۔۔۔‘ یہ مثال سن کر خاموشی میں موہنی اور سوتن چوڑیاں ہم نوا ہوگئیں۔ دیر رات انے کے باوجود موہنی ہشاش بشاش تھی۔ چوڑیوں سے مکالموں کے درمیان اس نے اپنے کئی کام کرلیے۔ لنچ باکس بھی تیار ہوگیا۔ موسم کے سرد ہاتھوں نے اس کے بدن پر ایک موٹی سی جیکٹ جما دی مگر اسے یقین تھا کہ بھٹی کے بھاری بھرکم ہاتھ کے سامنے موسم کی کیا بساط! پھر ہاتھوں اور پیروں کی بات بھی الگ ہوتی ہے۔ انسان کو ہی دیکھ لیجیے۔ انسان کے پاس فقط ایک چہرہ ہے۔ دو ہاتھ اور صرف دو پیر مگر وہ بے شمار چہرے ازما تا ہے۔ سینکڑوں مرتبہ ٹانگیں اڑاتا ہے اور لاکھوں معاملات میں اس کے ہاتھ ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود انسان دو پیروں اور دوہاتھوں کا مالک ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگر ازمائے گئے اس کے تمام ہاتھ پیر سامنے اجائیں تو وہ’ چوپایہ‘ نہیں’ہشت پایہ‘ کوئی مخلوق بن کر نمودار ہو۔ کارخانے میں داخل ہوتے ہی موہنی نے جیکٹ سے بدن کو ازاد کرلیا۔کیوں کہ بارہ سو ڈگری ٹمپریچر کی کئی بھٹیاں شعلے برسا رہی تھیں۔ جوں جوں بھٹی کے ارد گرد وقت گزرتا جارہا تھا موہنی کے بدن کی سرخیاں نمایاں ہوتی جارہی تھیںاور ان سرخیوں کے نیچے لمبی لمبی داستانیں پوشیدہ تھیں۔ حالاں کہ اس کی عمر کی عبارتیں قدیم نہیں تھیں۔ موہنی اور کام کرنے والی دیگر عورتوں کے ذمے کوئی ایک کام نہیں تھا۔دن بھر وقفے وقفے سے وہ کئی کام کرتی تھیں۔کئی دفعہ موہنی کو اپنی چوڑیاں بھی اتارنا پڑ جاتی تھی۔ کہنیوں سے اونچے اونچے داستانے پہن کر وہ جمع شدہ کانچ کی بوتلیں توڑتی۔ کبھی سلکاریت ، سوڈا اور چونے کی بوریاں اٹھا اٹھاکر بھٹی تک پہنچا تی۔ اسی طرح چپڑی اوربیرجا کے ٹکڑے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی۔ موہنی کے لیے پسندیدہ کام کانچ کی بوتلیں توڑنا تھا۔ وہ کئی عورتوں کے ساتھ بوتلیں توڑنے میں مصروف تھی؛ چَن چَن، ٹَک ٹَک اور کَھٹ پَٹ کی اوازیں مسلسل اٹھ رہی تھیں۔’موہنی دیکھو، تمھیں کوئی دیکھ رہا ہے۔ ‘بوتل توڑنے والی ساتھی ایک عورت نے کہا۔’دیکھنے دو ، دیکھنے دو۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کیا دیکھتا ہے۔ ‘ موہنی نے جواب دیااور وہ بوتلوں سے الجھتی رہی۔ ’ پہلے دیکھ ہی لونا تم ، کون دیکھ رہا ہے۔ کیا دیکھ رہا ہے۔ ‘ ’ موہنی کو کون کون دیکھتا ہے، مجھے تو معلوم نہیں۔ لیکن میں تو روز دیکھتی ہوں اسے،جب وہ بوتل توڑتی ہے۔ بہت غور سے۔ ‘ تیسری عورت نے کہا۔ یہ سن کر موہنی کے ہاتھ رک گئے اور بوتل کی کرچیوں پر بیٹھی بیٹھی تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر مسکان کے تبادلے کے بعد وہ بوتلوں کا کچومر نکالنے لگیں۔ موہنی نے کن انکھیوں سے بھٹی ماسٹر کو دیکھا جو اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی موہنی کے دماغ میں یہ جملے گرد ش کرنے لگے:’جب تم بوتلوں سے الجھتی رہتی ہو تو میں تمھیں غور سے دیکھتا ہوں۔ تمھارے ہاتھوں کی پھرتی۔۔۔‘ اس وضاحت کے باوجود موہنی سوچتی رہتی تھی کہ مرد کبھی کسی عورت کے ہاتھ نہیں دیکھتا۔ البتہ اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ دیکھتا ہے تو وہ صرف اور صرف عورت کا بدن!اسی درمیان موہنی ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے ڈھیر کے پاس سے اٹھی اور بھٹی کے اس پاس اگئی۔بھٹی کے ارد گرد پلیوٹوں کے بہت سے ڈبے بکھرے پڑے تھے۔ چونا یعنی اسٹون پاوڈر کے کئی چھوٹے چھوٹے بورے رکھے تھے۔ بھٹی ماسٹر بَیچ میں کانچ کاچوڑا ملا رہا تھا۔ کانچ پگھل کر موم ہوگیا تھا۔ کانچ گرم ہوجائے تو وہ ایک نئی شکل اختیار کرلیتا ہے اور انسان گرم ہوتا ہے تو رشتوں کو تہہ وبالا کردیتا ہے ؛ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ بھٹی ماسٹر اس سے ہم کلام ہوا:’موہنی،مانتی ہو یا نہیں۔میں تمھارے ہاتھ دیکھتا ہوں بلکہ یہ کہوں تو زیادہ سچا ہوں گا کہ ہاتھوں کی پھرتی دیکھتا ہوں، صرف اسی وقت جب تمھاری ہتھوڑی بوتلوں پر پِل پڑتی ہے۔ قسم ، میں صرف ہاتھ دیکھتا ہوں۔ ‘’ لیکن ہاتھ ہی کیوں۔‘ موہنی نے ذرا غور سے اس کی انکھوں میں جھانکا۔ ’ کبھی ہتھیلی بھی دیکھو۔ ہتھیلی دیکھنے کا ہنر نہ معلوم ہوتو سیکھ لو ، اس طرح شاید تمھیں میرے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوجائے۔ ہتھیلی دیکھنے کا ہنر نہ سیکھ سکو تو کلائی کی چوڑیاں ہی دیکھاکرو۔ ‘ موہنی کے اس تیور اور غیر یقینی جملوں پر ماسٹر سٹپٹایا لیکن وہ فی الحال گے کچھ پوچھ نہ سکا۔ البتہ اس سے بہت کچھ پوچھنے کا ارادہ بنانے لگا بلکہ مناسب موقع کی تلاش میں لگ گیا تاکہ وہ ہتھیلی اور کلائی کے متعلق کچھ پوچھ سکے۔ ادھر بھٹی ماسٹر بَیچ میں کانچ ملاتا رہا۔ ادھر موہنی لنچ باکس کھول کر چند عورتوں کے ساتھ بیٹھ گئی۔ کھانے کے دوران وہ اپنی چوڑیوں کو بھی دیکھتی رہی۔ کئی ماہ بعد اسے وہ لمحہ بہت یاد ارہا تھا جب وہ کارخانے کا حصہ بنی تھی۔ واقعہ یوں تھا کہ اس نے دیدیوں کے متعلق نیوز چینل پر ایک تفصیلی رپورٹ دیکھی تھی جس میں عورتوں کی بہادری ، دیدیوں کی مہم اور نئے عزائم کے متعلق بہت کچھ تھا۔ وہ کھانے کے لیے زبان تو چلارہی تھی مگر اس کا دماغ یادوں کی جگالی کررہا تھا اور اس کے کان جی وِیکا دیدیوں کی رپورٹ میں شامل نعروں میں گھرے تھے :ہم رہتے اس پاس /ہم ہیں اپ کے خاص بدل نہ سکتے ہیں کسی کی تقدیر/تم خود سنوارو اپنی تصویر ان نعروں میں موہنی ڈوب گئی تھی۔ وہ اپنی زندگی کی پرانی اور نئی تصویر وں کو ایک فریم میں رکھ کر موازنہ کررہی تھی۔ کل وہ قدموں کی اہٹ سے کانپ جاتی تھی۔ اس کی کلائی کی چوڑیاں مرجھاجاتی تھیںمگر وہ اج اپنی چوڑیوں کوکھنکھاتی پھرتی تھی۔ کل وہ فاقوں کی خوراک لیتی تھی مگر اج اس کے پیٹ میں ڈھونڈنے سے بھی چوہے نہیں ملتے تھے۔ اس کے مسکن میں کل غیر قانونی مشروبات کی بساند پھیلی رہتی تھی مگر اج بوئے سکون بکھری جاتی تھی۔ گویا اب وہ خود اپنی تصویر سنوارنے میں مصروف تھی۔ لنچ کے وقت موہنی نے میدانِ ماضی میں اپنا خیمہ نصب کیا تھا۔ شام میں ڈیوٹی سے واپس انے کے بعد بھی اس نے وہ خیمہ نہیں سمیٹا۔ چھوٹے سے ایک روم کے کونے میں انڈکشن رکھا تھا۔ اس پاس اس کے بہت سے مخصوص برتن بکھرے تھے۔روم ہیٹر سکڑا پڑا تھا۔ موہنی نے اس کا بٹن ان کردیا جیسے وہ خود اس سے گرمی حاصل نہیں کررہی ہو بلکہ سکڑے ہوئے ہیٹر کو گرمی پہنچانا چاہتی ہو۔کھانا بنانے کے درمیان تصور میںوہ دیدیوں کے نعرے سنتی رہی :اب جیویکا دیدی جوش میں او شرابی ہوش میں یا مل کر اج سنکلپ لینا ہے نشے کے دھندے کو نہیں چھوڑنا ہے یہ سن کرموہنی نے ایک سرد اہ بھرااور دل کے دل میں کہنے لگی کاش جس دن اس نے یہ نعرہ پہلی دفعہ سنا، اس سے بس کچھ پہلے وہ یہ سن لیتی تو شاید اس کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ہوش والے نعرے سن سن کر کبھی کبھی وہ بیہوش نظر آتی مگر وہ اس نے خود کو سنبھالا۔پہلے بھی اس نے زندگی کو خوب سنبھالاتھا۔ اس لیے ان دنوں زندگی بڑی حد تک سنبھل گئی تھی۔کیوں کہ اس نے مذکورہ رپورٹ سننے کے بعد جیویکا دیدیوںمیں خود کو مدغم کرلیا تھا۔اج کارخانے میں داخل ہوتے ہوئے بھٹی ماسٹر سے موہنی کی پہلی مڈبھیر ہوئی۔ ہونٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی مسکان پھسل کر تحلیل ہو گئی۔ کیوں کہ کل دونوں کا مکالمہ کچھ عجیب تھا۔ اس سے بے تکلفی کا عنوان بھی جھانک رہا تھا اور یک گونہ بیزارگی کا احساس بھی،مگر سچی بات یہ تھی کہ وہ دونوں اس کے صحیح مفہوم سے ناواقف تھے۔موہنی نے حسب عادت جیکٹ سے ازادی حاصل کی۔ جیکٹ اس کے بدن کو نئی تعمیر شدہ ڈامر سڑک کی طرح چکنی اور سپاٹ کردیتی تھی مگر اسے اتارنے کے بعد بدن کے اوبڑ کھابڑ جاگ اٹھتے تھے۔ سڑکوں کے اوبڑ کھابڑ سے گاڑیوں میں ہچکولے پیدا ہوتے ہیںمگر بدن کے اوبڑ کھابڑ میں جذبات اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ بھٹی ماسٹر ابھی اس کے ہاتھ دیکھنے پر اکتفا نہیں کررہا تھا بلکہ وہ شباب کے طاقوں میں جذبات کو سجا رہا تھا۔ وہ موہنی کے بارے میں جانناتو چاہتا تھا مگر جان نہ سکا تھا۔ پھر موہنی نے خود کلائی دیکھ کر اسے جاننے پر اکسایا تھا۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ اس کی نظروں کی دنیا موہنی کے ہاتھوں میں سمٹ ائی۔ کیوں کہ اج وہ لنچ باکس کے علاوہ ایک گٹھری بھی ساتھ لائی تھی جسے وہ بھٹی کے قریب ایک کھمبے سے ٹکا چکی تھی۔بھٹی ماسٹر اور موہنی دونوں تذبذب کے شکار تھے۔ موہنی کی خواہش تھی کہ وہ گٹھری کھول کر اس کی کائنات پر اپنی طاقت کا اظہار کرے اور اپنی پوری کہانی سنادے۔ ہاتھ کی پھرتی کی طلسمات کی وضاحت کردے،جب کہ ماسٹر حیلوں کی کٹوری کے ارد گرد چھری گھمانے کو بے قرار تھا، تاکہ جیوتشی بننے کا ناٹک کرکے وہ موہنی کی ہتھیلی پڑھ سکے۔کشمکش، لمحات کو ڈکاررہی تھی۔ بھٹی کی ٹمپریچر بڑھتی جارہی تھی اور کارخانے میں مزدوروں کی تعداد بھی۔ بھٹی ماسٹر نے ہمت جٹاتے ہوئے پوچھا: ’ہمارے کارخانے میں طرح طرح کی چوڑیاں بنتی ہیں؛میٹل،فائبر چوڑا، کانچ اور لاح کی چوڑیاں، مگر تمھارے ہاتھوں میں صرف کانچ کھنکھناتی رہتی ہے۔یہ دیکھو لاح کی سندر تا ،دور سے بھی کتنی سندر ہے۔‘ پیکنگ چیمبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ماسٹر نے کہا۔ ’فائبر چوڑا کبھی ٹرائی نہیں کیا تم نے، تمھارے ہاتھوں میں کبھی نہیں دیکھا۔ جب پہنتی ہو تو ہر طرح کی پہننے میں کون سا جرم۔ پھر تو ہاتھ دیکھنے والے تمھاری چوڑیاں بھی دیکھا کریں گے۔ تمھاری شکایت دور ہوجائے گی۔ ایک سے ایک سہاگن چوڑیاں بھی تیار ہوتی ہیں ہمارے یہاں۔بازار میں یہ اونچے داموں میں ملتیں ہیں مگر یہاں تو اونے پونے میں۔‘
یہ سن کر موہنی نے اہ بھرتے ہوئے کہا :’’ میں سہاگن نہیں ، ابھاگن چوڑیاں پہنتی ہوں۔ ‘’’ ابھاگن ، مطلب میں نے سمجھا نہیں۔ ‘’کبھی کسی نے سمجھا ہی نہیں۔ تم بڑے ائے سمجھنے۔ سب تو انگلیاں اٹھانا جانتے ہیں۔ صرف انگلیاں اٹھانا۔‘’سمجھاوگی بھی ، یا پھر ہتھیلی پڑھنے۔۔۔۔‘’ اچھا سمجھنا چاہتے ہو۔ اجاو۔‘ بات کرتے کرتے وہ دونوں اگے بڑھے۔ موہنی نے بھٹی کے پاس رکھی ہوئی اپنی گٹھری کو بندھنوں سے ازاد کردیا۔ پھر گٹھری کی بوتلوں کو لات مارتے ہوئے اس نے کہا : ’اس کے خاندان نے مجھے ابھاگن کردیا۔تو میں کیسے سہاگن چوڑی پہنوں۔‘ شراب کی درجن بھر بوتلیں بکھر کر ناچنے لگیں۔جہاں کہیں اسے شراب کی بوتل مل جاتی اسے وہ جمع کرتی رہتی تھی۔ اب تک ان کے سامنے کئی بوتلیں گھوم رہی تھیں۔ ماسٹر موہنی کی انکھوں میں جھانک رہا تھا۔ کیوں کہ ان میں بہت سے جملے کلبلارہے تھے۔ اسے یقین تھا کہ وہ بولے گی۔
موہنی کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر کہنے لگی:’شراب کی بوتلیں پہلے میری سوتن بنیں۔ ‘ موہنی نے اپنی کلائیوں کی چوڑیوں کو ایک دفعہ پھر کھنکھنا یا۔ گویا وہ پرانے سوال کا جواب دی رہی تھی کہ تم میری سوتن کس طرح ہو۔ ’پھر ڈائن بن گئی۔ ڈائن بن کر میرے شوہر کو کھاگئی۔وہ تودیدیوں کے نعروں نے مجھے جگایا۔ شراب کی بوتل سے چوڑی بنانے والی ان کی مہم نے مجھ اکسایا۔ میں یہاں ائی۔ بوتل کا کچومر نکالنے میں میری پھرتی بڑھ جائے تو کون سا تعجب۔۔۔
‘پھر اس نے دوبارہ چوڑیاں کھنکھائیں اور انھیں بہ غور دیکھنے لگیں: ’ سوتن ڈائن، تم میرے قبضے میں ہو۔شیطان کے اَنیک روپ ہوتے ہیںاسی طرح سوتنوں کے بھی انیک۔‘موہنی کے سامنے بھٹی ماسٹر کے علاوہ کئی مزدور ساکت کھڑے تھے۔ وہ تیز قدموں سے اگے بڑھی اور بوتل توڑنے کے مقام پر شراب کی بوتلوں کو پٹخ دیااور چوڑیاں کھنکھناتی ہوئی اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا