غزل

0
108

مِل کر کرلیں آؤ وِچار
موسم بدلا ہے سرکار
باغِ باہو پہ چھائی بہار
چشمہ شاہی ڈَل بیزار
ایک نظر بس دیکھا تھا
اب تک ہے آنکھوں میں خمار
کیا پوچھو ہو میرا حال
میں ہوں اِک ڈھہتی دیوار
کشتی ساحل سے ہے دْور
طوفاں کے بھی ہیں آثار
اَپنا ہے بس ایک خْدا
باقی سب مطلب کے یار

جب مٹی ہی باغی ہو
کتنی جہد کرے گا کمہار
سچ کے دم پر لڑتا ہے
ہو گی یقیناً اس کی ہار
نرغے میں ہوں اَپنوں کے
کون کریگا پہلا وار
کوئی خبر راحت کی ڈھونڈ
خون سے لت پت ہیں اَخبار
اِس کی عزت کرنا سیکھ
یہ عارف کی ہے دَستار
عرفان عارف
جموں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا