پروفیسر خواجہ اکرام الدین: ایک روشن مینار

0
68

علیزے نجف

شخصیت اور فن انسانی زندگی کے دو الگ پہلو ہیں ان دونوں کی ہی تعمیر سے ایک انسان میں مثالی کردار کی تشکیل ہوتی ہے، جو کہ تاریخ رقم کرتا ہے، کسی بھی فنکار کی قدر و قیمت اس وقت اور سوا ہو جاتی ہے جب اس کا فن اس کی ذاتی شخصیت کی تعمیری عناصر میں بھی شامل ہو جائے، مطلب یہ کہ جو اخلاقیات و پیغام اپنے فن کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتا ہے وہ خود اس کی زندگی کا حصہ بھی ہوتا یے۔ اس انسانی معاشرے میں جہاں ایک طرف ہم ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو بحیثیت ایک فنکار کے بیشک اعلی مقام پہ فائز ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی کے معاملات میں اس سے متضاد رویہ رکھتے ہیں وہ ذاتی سطح پہ خود کو اخلاقی اصولوں سے مبرا سمجھ لیتے ہیں، وہیں دوسری طرف ایسے لوگ انتہائی قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں جو کہ اپنے فن اور عام معاملات میں تضاد کو نہیں آنے دیتے، زندگی کے تمام پہلوؤں میں اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہیں مطلب یہ کہ وہ متضاد نظریات کے اپنانے سے گریزاں ہوتے ہیں وہ عکس جو ان کے فن میں نظر آتا ہے وہی ان کی شخصیت کا بھی پرتو ہوتا ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین میرے لئے ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن کے اعلی اخلاق، برادرانہ شفقت اور عاجزی نے مجھے کافی متاثر کیا، اردو زبان و ادب کی بساط پہ ان کی شخصیت کسی کے لئے بھی تعارف کی محتاج نہیں، ان کی شخصیت آج کے عہد میں اردو زبان و ادب کا وہ ہراول دستہ ہے جس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں نہ صرف اردو زبان و ادب سے محبت کی ہے بلکہ اسے فروغ دینے کے لئے دامے، درمے، سخنے، گفتے ہر سطح پہ قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں، ان کی ادبی خدمات پہ اب تک سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اور ان خدمات کا اعتراف ملکی و عالمی سطح پہ کرتے ہوئے انھیں اعلی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے، اس لئے فی الحال ابھی یہ موضوع زیر بحث نہیں، خواجہ اکرام الدین صاحب بطور انسان کیسے ہیں، عام معمولات زندگی میں ان کا کیا رویہ و طرزعمل ہوتا ہے اس وقت اس پہلو پہ بات کرنا مقصود ہے۔ پروفیسر خواجہ اکرام الدین صاحب کو جب میں نے پہلی بار بچوں کی دنیا کے اداریے میں دیکھا تو میرے ذہن میں سب سے پہلا تاثر یہ ابھرا تھا کہ خواجہ صاحب انتہائی کرخت لہجہ اور رعب دار شخصیت کے حامل ہوں گے کچھ ایسے کہ مجھ جیسے عام لوگوں کو ان سے بات کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا، کیوں کہ ان کی چہرے پہ موجود سنجیدگی سے سب سے پہلے یہی خیال ذہن میں آتا ہے، لیکن اس تاثر میں پہلی بار اس وقت نقب لگ گئی جب میں نے پہلی بار ورچولی ان سے بات کی تو ان کا لہجہ ہر طرح کے رعب سے عاری تھا لفظوں میں ایک نرمی سی تھی، جس کی وجہ سے مزید بات کرنے کا حوصلہ ملا، پھر وقت گذرنے کے ساتھ ذہن میں موجود یہ تاثر ختم چلا گیا۔ رفتہ رفتہ ان کی شخصیت کے کئی اور پہلو منکشف ہوتے گئے، جس نے مجھے مزید ان کے قریب کر دیا، وہ ہر تعلق کو اخلاقی حدود قیود کے ساتھ اس کے تقاضوں کے ساتھ نبھانے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، عام طور پہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے فن کو منفی انداز میں کیش کرانے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے ایسے میں خواجہ صاحب کی حیثیت اس انسانی معاشرے میں کسی شجر ہائے سایہ دار سے کم نہیں جو انسانیت اور اخلاقیات کی علمبرداری کرتے نظر آتے ہیں۔ خواجہ اکرام الدین صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا معاون رویہ ہے، ہمیشہ وہ لوگوں کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں، خواہ وہ کتنے ہی کیوں نہ مصروف ہوں وہ سامنے والے کی رہنمائی یا تعاون کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں، یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں مجھے خود ذاتی طور پہ اس کا تجربہ رہا ہے، میں نے بارہا اپنے مضامین پہ ان کی تصحیحی و ناقدانہ نظر چاہی ہے انھوں نے اس ضمن میں میری بھرپور مدد کی اور رہنمائی بھی کی اور میرے حوصلے بڑھائے ہیں، اگر ادبی دنیا میں ہر نووارد کو خواجہ صاحب جیسا اتالیق اور رہنما مل جائے تو شاید اردو زبان و ادب کی شمع مزید روشن ہو سکتی ہے۔ اردو داں طبقے میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو بس جوہر شناس لوگوں کی ہے جو ان بینام پتھروں کو تراش کر اس کی قسمت کا رخ بدل دیں۔ تعلیمی میدان میں خواجہ صاحب جس طرح غیر معمولی شخصیت کے حامل ہیں، بلکل اسی طرح عام معاشرتی زندگی میں بھی وہ بااثر لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، ان کی اس شخصیت کی بنیاد ان کی عاجزی ہے، وہ عاجزانہ پس منظر رکھتے ہیں، انھوں نے زندگی کے ابتدائی مرحلوں میں غیر معمولی جدوجہد کی ہے انھوں نے انتھک محنت اور لگن کے ذریعے کامیابی کی راہ ہموار کی ہے ان ابتدائی دنوں میں ان کا جو رویہ و وطیرہ رہا کامیابی کے حصول کے بعد ان کا رویہ وہی عاجزی و سادگی لئے رہا، جس میں اعلی اخلاق بھی شامل ہے، خواجہ صاحب اصولوں کی پاسداری کو جزو ایمان سمجھتے ہوئے اس پہ کاربند رہے ہیں، وہ جن چیزوں پہ یقین رکھتے ہیں اس پہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی مقبولیت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ خواجہ صاحب ایک بہترین ادیب ناقد و محقق اور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ایک بہترین انسان بھی ہیں، کسی انسان کا انسانی صفات پہ کھرا اترنا اس کے لئے سب سے زیادہ باعث شرف ہوتا ہے، بہترین انسان ہونے کا مطلب قطعاً انسانی ضعف سے پاک ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ انسان اخلاقی قدروں کو نہ صرف اہمیت دیتا ہے بلکہ اس کو برتنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، خواجہ صاحب کی شخصیت میں اس رنگ کو بآسانی دیکھا جا سکتا یے، وہ کسی بھی تعلق کے درمیان رتبے و عہدے کو حائل نہیں ہونے دیتے وہ انسانی جذبات کو اہمیت دینے کے قائل ہیں۔ خواجہ صاحب کی نرم گفتاری اور صاف گوئی کا ہر وہ شخص معترف ہے جو ان کو قریب سے جانتا ہے۔ وہ فرقِ مراتب کی وجہ سے اپنے لہجے و رویے میں تبدیلی نہیں لاتے، ان کے رویوں میں موجود اعتدال پسندی نے بہتوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا ہے۔ خواجہ صاحب ایک بہترین استاد ہیں اس میں تو کوئی شک نہیں، اپنے طلبہ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے تعلق کو ہموار کرنے کی اس خوبی نے انھیں مقبول و مطلوب اساتذہ کی صف میں لا کھڑا کر دیا ہے، انھوں نے اپنے طلبہ میں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے، ان میں اعتماد پیدا کرنے، مسلسل سیکھنے کی محبت کو پیدا کرنے کے لئے غیر معمولی جدوجہد کی یے۔ ان کے لطف و کرم و مہربانی سے ان کے طلبہ تو مستفید ہوتے ہی ہیں بلکہ وہ اپنے طلبہ کے ساتھ اردو داں طبقے سے جڑے باصلاحیت چہروں سے بھی گہرا تعلق رکھتے ہیں،
اگر کوئی نیا چہرہ اپنی کاوشوں سے ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو اس کے لئے بھی آسانیاں پیدا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، خواجہ صاحب کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ یہ صوفی مزاج انسان ہیں یہی وجہ ہے کہ اس قدر کامیابی اور شہرت و دولت ملنے کے باوجود ان کے مزاج میں دھیما پن اور عاجزی و انکساری کا رنگ غالب نظر آتا ہے، بزرگان دین ہوں یا ادبی دنیا کے سرخیل سبھی کے سامنے وہ آج بھی زانوئے ادب بچھا کر بیٹھتے ہیں اور ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ ان کا طالب علمانہ مزاج ہی ہے جو انھیں ہر جگہ محترم و مکرم بنائے ہوئے ہے۔ خواجہ صاحب کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے مجھے یہ بھی محسوس ہوا ہے کہ ان کے اندر یہ بلا کا فن ہے کہ وہ صرف اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ دورہائے دراز میں مقیم لوگوں کو بھی اپنا اسیر بنا لیتے ہیں، ان سے صرف رسمی تعلق نہیں بناتے بلکہ اس تعلق خاطر کی رسم اور تقاضوں کو بھی نبھانے کی ہرممکن جستجو کرتے ہیں، وہ اپنے چاہنے والوں کے حال کی خبر رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پہ ان کی دستگیری کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔
خواجہ اکرام الدین صاحب اردو زبان و ادب کے ساتھ انسانی اقدار کی شاہراہ پہ ایک ایسے سنگ میل کی طرح نصب ہیں جو کہ زندگی کی نوید دیتا ہے اور لوگوں کو اس راہ میں سفر کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے، خواجہ صاحب یقین و امید کا ایک روشن مینار ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا