حمید سہروردی کے افسانوں کا تخصیصی اسلوب

0
210

 

 

 

 

پروفیسر معین الدین عقیل

حمید سہروردی صاحب سے اُن کے اُن افسانوں کے توسط سے ،جو ان کے افسانوں کے تازہ مجموعے ’’شہر کی انگلیاں خوں چکاں‘‘کے توسط سے پہلی بار ہی میرے مطالعے میں آئے ہیں، میں یہ تاثرات لکھ رہاہوں، بلکہ میں حیران ہوں کہ کبھی یہ نام اور ان کے افسانے یا تخلیقات پہلے کیوں میرے مطالعے میں نہ آئی تھیں!اگرچہ یہ حمید سہروردی صاحب اور ان کی تخلیقات سے میری اولین شناسائی ہے لیکن اس شناسائی نے ایسا ایک دل نشیں اور وسیع ترتعارف ان دونوں سے کرایا ہے جس میں متنوع واقفیت کے کئی پہلو چھپے ہوئے نظر آئے ہیں۔ حمید سہروردی صاحب کے افسانوں یا ان کی تخلیقات کا یہ گوشہ، جو نہ جانے مزید کتنے گوشوں کو اپنے میں سمیٹے ہوئے ہے، میرے لیے اولین تعارف ہی ہے لیکن جو فن اور اسلوب کی پختگی مجھے ان کے ہر افسانے میں بلکہ اس مجموعے کے ہر ہر صفحے پر نظر آئی ہے، یہ میرے لیے بے حد پرکشش اور خاصاحیران کن ہے۔سب ہی افسانے مجھے جدید تر اور نئے اسالیب کے حامل نظر آئے ہیں کہ جنھیں ایک دل نشیں اور ماہرانہ سے اسلوب سے تخلیق کیاگِیاہے اور لگتایہ بھی ہے کہ ارادتاً اس جدید تر اور منفرد سے اسلوب کو اختیار کیاگیا ہے یا افسانہ نگار کا یہ تخصیصی اسلوب ہی ان کی اپنی شناخت اور خصوصیت ہے، لیکن کردار نگاری یا روایتی طرز کے کردار وں سے شاید افسانہ نگار نے کسی خاص دل چسپی یا اپنائیت کا اظہار نہیں کیا یا شاید ارادتاًانھیں اختیار نہیں کیاہے۔ممکن ہے یہی مخصوص اسلوب افسانہ نگار کا اپنااسلوب ہو جسے وہ بالخصوص اختیار کرتے ہوں کیوں کہ میں نے چوں کہ ان کے دیگر افسانے یا کچھ اورنہیں پڑھا اس لیے ان کے مزید کسی معروف اسلوب سے میں واقف بھی نہیں۔
کردار نگاری بھی افسانہ نگار کا مخصوص انداز لیے ہوئے ہے۔پلاٹ بالعموم کرداروں سے بے نیاز بھی ہیں اوراگر کہیں موجود بھی ہیں تو وہ روایتی طرز کے نہیں اور واحد متکلم کے طور پر بھی تخلیق کردیے گئے ہیں جس کا رجحان اب بالعموم کم ہی اس صنف میں دیکھا جاسکتاہے۔لیکن بہر حال زیرِ نظر افسانوں میں یہ ایک اپنے انداز ہی سے تخلیق ہوی ہیں جن کے سبب یہ افسانے پرکشش اور منفردہی لگتے ہیں۔ان افسانوں کی مناسبت سے جہاں بعض افسانوں کے پلاٹ منفرد کہے جاسکتے ہیں وہیں ان کے عنوانات بھی حددرجے دل چسپ اور پرکشش ہیں۔
مجموعے کا آغاز ہی ایک بہت فکر انگیز اور غور طلب بلکہ نہایت منفرد’انتساب‘ سے ہوتا ہے جسے پڑھنا قاری کو یوں ہی نہیں چھوڑدیتاہے بلکہ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتاہے کہ اس طرح کے تجربات خصوصاً انتساب جیسے عنوان کی تحت شاید میری نظر سے کبھی اور کہیں نہیں گزرے۔اسی طرح کتاب میں کہیں کہیں درمیانی صفحات پر جیسے صفحہ ۶ پر جو تراشیدہ خاکہ نظر آتاہے، ایسے خاکے آگے بھی کئی صفحات پر اسی طرح مرتسم کیے گئے ہیں، جو مجموعے کی دل کشی اور انفرادیت میں ایک نہایت خوب صورت اضافہ ہی کررہے ہیں۔ اس طرح کی اختراعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو خود صاحبِ تصنیف یا افسانہ نگار ہی نے یا ان کے ناشر نے ایسے منفرد و دل نشیں اہتمام کرکے مجموعے کو مزید حسن بخشا اور دل فریب بنایاہے۔انتساب کے بعد جب کچھ آگے چلتے اور فہرست مشمولات پر پہنچتے اور نظر ڈالتے ہیں تو عنوانات بھی حد درجے پرکشش اور جاذبِ توجہ ملتے ہیں کہ جو اپنی پختگی اور کشش کے سبب قاری میں ایک تجسس اس طرح پیدا کردیتے ہیں کہ وہ اسے پڑھنے کے لیے بے تاب ہی ہوجاتاہے اور آخر تک اس کاتجسس کم نہیں ہوپاتا۔یہ خصوصیت تقریباً سارے عنوانات میں مشترک نظر آتی ہے کہ ہر عنوان ہی اپنے میں ایک کشش یا تجسس رکھتاہے کہ وہ قاری کو آمادہ کرلے کہ اسے لازماً پڑھا جائے۔بظاہر عنوانات یک لفظی ایسے بھی ہیں کہ جن میں انفرادی طور پر کوئی ایسا تجسس نہ ہو کہ جو پڑھنے پر قاری کو لازماً پڑھنے پر مجبور کرسکے لیکن آس پاس کے عنوانات میں مزاج کی ایک یکسانیت نظر آتی ہے جو قاری کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے، جب کہ عنوانات سے بڑھ کر افسانوں کے پلاٹ اور ان کے اسالیب میں بھی یہ صفت لگتاہے ایسی پیدا کی گئی ہے کہ جس سے لگتا ہے کہ افسانے ہی بالعموم تجسس کی ایسی ہی صفات سے معمور ہیں۔
ایسی صفات سے بڑھ کر مجموعے میں شامل افسانوں کی فہرست ہی کے توسط سے قاری کواپنی جانب اس طرح مجبور کردینا کہ سارا مجموعہ ہی پڑھنے پر وہ مجبور ہوجائے ، یہ ایک بڑی کامیابی افسانہ نگار ہی کی کہلائے گی چاہے اس کے پیش کرنے میں طابع یا ناشر یا کسی اور نے کتنے ہی جتن کیوں نہ کیے ہوں۔
اپنی دل چسپی اور تجسس میں ساری ہی فہرست کومیں نے بغورانفرادی حیثیت میں بھی دیکھا لیکن کوئی عنوان مجھے عام سا یا پھْسپھْسا نظر نہ آیا بلکہ سب ہی قارئین کوآمادہ کرتے نظر آئے ہیں کہ’جا ایں جاست‘۔میں سمجھتاہوں کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عنوان اور وہ باہم ایک مجموعے میں شامل ہونے کے سبب اس کثرت سے بھی ہوں اور سب ہی پر کشش اور ’جاایں جاست‘ کے متقاضی بھی ہوں۔
مجھے ٹھیک سے علم نہیں کہ افسانہ نگار اپنے فنی تجربے کے لحاظ سے کیا تاریخ یا پس منظر رکھتے ہیں،لیکن میں نے انھیں ہر اعتبار سے ایک پختہ کار اور وسیع تر اور گہرے تجربے کا حامل افسانہ نگار پایاہے،جنھوں نے پوری طرح فنی تقاضوں کا خیال رکھ کر یہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔ یہاں میں تخلیق کیے ہیں کے بجائے تحریر کیے ہیں بھی لکح سکتاتھا،لیکن جو فنی خصوصیات اور خوبیاں بل کہ باریکیاں مجھے اس مجموعے کیہرہر افسانے میں نظر آئی ہیں ان کی روشنی میں ان افسانوں کو تخلیق ہی سے موسوم کرنا پسند کررہاہوں۔
آغاز میں،اوپر کی چندسطور میں،جو ایک نہایت مختصرسے تاثراتی الفاظ افسانوں کے اسلوب و فن کے حوالے سے تحریر میں آئے ہیں یہ میں سمجھتاہوں کہ سارے ہی افسانوں پر صادق آتے ہیں کہ جن میں اسلوب ہی سارے افسانوں کی جان ہے۔
جہاں جن افسانوں میں کردار نمایاں ہوئے ہیں وہ بھی اپنی حد تک ایک فنی مہارت و کشش کے حامل ہیں اور ان مشمولہ ساریافسانوں کے فن پربھی دال ہیں اور یوں یہ سارا مجموعہ ہی اپنے افسانوں کے بل بوتے پر ایک نہایت پر کشش اور جاذب توجہ کاوش ہے،جسے فنی لحاظ سے اگر دیگر معاصر افسانوں کے مقابل رکھ کر دیکھا جائے تو مجھے شبہ نہیں کہ یہ اپنے فن و اسلوب کے اعتبار سے شاید اپنے دور کے بہترین افسانوں میں شمار ہونے سے محروم نہ رہیں اور حمید سہروردی صاحب اپنے عہد کے ممتاز و منفرداور بلندپایہ افسانہ نگار شمار نہ ہوسکیں۔ جدید اردو افسانوں کے حالیہ دور میں’ اے آمدنت باعثِ خوش بختیٔ ما‘۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا