غزل افسانچوں کا مجموعہ

0
134

 

 

 

 

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

آج کل کے سوشل میڈیائی عہد میں جہاں ایک طرف شعر و شاعری کے جلوئے ہر جگہ نظرآتے ہیں تو دوسری جانب اردو افسانہ اور افسانچے بھی کئی وہاٹس ایپ گروپس اور فیس بک ادبی فورمز پر مسلسل پوسٹ ہوتے رہتے ہیں اور قارئین و مبصرین کی ایک اچھی خاصی تعداد پڑھنے اور تبصرہ کرنے میں مصروف نظرآتی ہے۔ایک طرح سے اب سوشل میڈیا کے توسط سے اردو زبان وادب مقامی حدود وقیود سے نکل کر عالمی پلیٹ فارم کا حصہ بن چکا ہے۔ اس کے مثبت پہلو بھی ہے اور چند منفی پہلو بھی‘خیر یہ دوسرا موضوع ہے۔ تاہم اس ضمن میں اگر افسانچہ نگاری پر بات کریں گے تو بیشتر لوگوں کی توجہ افسانچہ نگاری کی طرف مبذول نظرآتی ہے۔ان میں ماہرین افسانہ بھی ہیں اور وہ بھی جنہیں ابھی تک فن افسانہ کی ہوا
تک نہیں لگی ہے لیکن دوچار جملے یا ایک مشاہداتی واقعہ لکھ کر افسانچہ کے نام پر پیش کرتے رہتے ہیں۔
پیش نظر افسانچوں کے مجموعہ’’غول‘‘ کی تخلیق کار رقیہ جمال(لیکچرر اردو..بھدرک ا ڈیشا)شاعری کا عمدہ ذوق رکھتی ہیں۔افسانے بھی لکھتی ہیں اورتین ناولٹ بھی سامنے لائی ہیں۔ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے ہے۔ ان میں ادب فہمی
اور تخلیق کاری کامادہ موجود ہے۔جو کہ پیش نظر مجموعے کے کئی افسانچوں سے ظاہر ہورہا ہے۔
افسانچے کا موضوع افسانے کی طرح کچھ بھی ہوسکتا ہے۔چاہے وہ مشاہداتی ہو یا وجود ی یا تجرباتی ہو یا تخیلاتی‘ لیکن بنیادی چیز فن کاری ہوتی ہے۔اسی سے وہ فن کے زمرے میں آئے گا۔ رقیہ جمال کے کئی افسانچے فنی صنعت گری سے مزین نظرآتے ہیں۔ افسانچے کی پنچ لائین چاہے کاٹ دار طنز کو ظاہر کرے یا فکری سطح پر قاری کو کچھ سوچنے پر مائل کرے‘بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ تو رقیہ جمال کے چند افسانچوں کی پنچ لائن طنز آمیز کاٹ کی حامل بھی ہوتی ہے اور کئی افسانچوں کی پنچ لائن کچھ نہ کچھ سوچنے کی طرف مائل بھی کرتی ہے۔ جیسے افسانچہ’’چھوٹے لوگ‘‘’’چھ نمازیں‘‘ ’’غول‘‘ ’’خاندانی لوگ‘‘’’بے زبان‘‘’’نسل‘‘’رشتے کی مہک‘‘ وغیرہ
تخلیق کار کسی بھی مسئلے سے متاثر ہوسکتا ہے اور پھر اسی مسئلے کو موضوع بناکر تخلیق سامنے لاتا ہے۔ فلسطین کی حالت زار کئی دہائیوں سے زندہ ضمیر انسانوں کے لئے روحانی کرب بنی ہوئی ہے اور آج بھی وہاں پر ہورہے ظلم وستم کی خبریں سن کر انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔رقیہ جمال کا افسانچہ’’چھ نمازیں‘‘ کی واقعاتی کہانی کا مجموعی تاثر خصوصاََ پنچ لائن فلسطین کی اندوہ ناک صورتحال کو ایسے دلدوز انداز سے سامنے لاتی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ فلسطین کے لوگوں کے لئے زندگی بغیر موت کے کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔اس قسم کی دہشت ناک صورتحال افسانچہ یوں ظاہر کرتاہے:
’’مما جان! اٹھیں نا فجر کی اذان ہوچکی۔‘‘میرے چودہ سالہ بیٹے عمر نے مجھے نور کے تڑکے جگا کر حیرت زدہ کردیا۔
میں نے جلدی سے خود کوتیار کیا اور جائے نماز پر آگئی۔ہم دونوں نے خشوع و خضوع کے ساتھ فجر کی نمازادا کی اور دعائیں کیں۔
میرا بیٹا اس وقت نویں کلاس کا طالب علم ہے۔پڑھنے میں بہت ذہین اور کافی سمجھ دار ہے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ ابھی سے نماز کی پابندی کرے‘ لیکن وہ نہیں کرپارہاتھا۔موبائل پر گیم کھیلنے کی بریبری عادت اسے تھی۔
کل بھی وہ گیم کھیل رہا تھا۔ میں نے اسے ایغور مسلمانوں کی بے بسی‘ روہنگیا مسلمانوں کی کسمپرسی‘سیریا کی بدحالی‘ عراق کی خونی داستان‘ افغانستان کی بربادی وغیرہ دکھائی۔وہ بہت کچھ سمجھ رہا تھا۔
’کیا بات ہے عمر آج اتنے اداس کیوں نظرآرہے ہو؟…آج توتم نے فجر کی نماز بھی ادا کرلی ہے۔‘
’مما جان! آپ نے مجھے کل چند مسلم ملکوں کے بارے میں بتایا تھانا تو میں نے گوگل میں ’فلسطین‘ کوسرچ کیا تو پتا ہے مجھے کیا معلوم ہوا؟…میری ہی عمر کا ایک لڑکا ہے‘ اس نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ ہم فلسطین کے لوگ روزانہ چھ نمازیں پڑھتے ہیں…‘
’چھ نمازیں؟ ایک نماز اور کون سی ہے ان کی؟‘ میں نے سوال کیا۔
اس نے جواب دیا’نماز جنازہ مما۔‘‘
اس طرح افسانچے کی پنچ لائن ایک مظلوم خطے کے بے بس قوم اور وہاں کے معصوم لوگوں کی د کھ بھری کہانی ایک جھٹکے میں سامنے لاتی ہے۔ موضوعاتی اور کردارنگاری کی سطح پر یہ افسانچہ عمدہ ہے اور فن اور کرافٹ میں بھی متاثر کن ہے۔ اس میں سوشل میڈیا پر دیکھے گئے کسی شارٹ ویڈیو کی نقالی نہیں ہے اور نہ ہی کسی نیوز کا سرقہ‘جو کہ پڑھنے/سننے کے دوران ہی قاری سمجھ جاتا ہے بلکہ اس میں ایک کہانی بھی ہے‘واقعہ بھی ہے اور سوچنے کے لئے پیغام بھی۔ایک طرح سے یہ افسانچہ ایک معیاری افسانے کے برابر ہے کیونکہ یہ موضوعاتی اور بنت کے لحاظ سے ایک بھرپور افسانہ بننے کی گہرائی بھی رکھتا ہے۔
کبھی کبھار افسانچے کا انجام کاٹ دار طنز بھی ہوتا ہے جیسے افسانچہ’’چھوٹے لوگ‘‘۔ اس میں ایک بڑے بزنس مین کی بیوی کے چھوٹے پن کو انجام میں کاٹ دار طنز سے پیش کیاگیا ہے۔افسانچہ ’’غول‘‘ میں امت مسلمہ کی تفرقہ بازی اور عدم اتحاد کی عکاسی کردار دانش علی کے توسط سے مرے ہوئے کوے کے ارد گردمتحدہ کوؤں کے گول کی تمثیل میں اچھے انداز سے کی گئی ہے۔
افسانچہ’’بے زبان‘‘ بھی قابل توجہ ہے۔ اس کی کردار شلپامیم شہر کی فعال سماجی کارکن ہوتی ہے اورجانوروں پر ہورہے تشدد کی روک تھام کی تنظیم’بے زبان کی سربراہ بھی۔ ایک دفعہ جب حیوانوں کی یہ غمخوار سوشل ورکر اپنے کتے کو گود میں بٹھا کر ایک ٹی وی چینل کو بڑے فخر کے ساتھ انٹرویودے رہی تھی تو اولڈ ایج ہوم میں ٹی وی پر یہ پروگرام دیکھ رہی اس کی ساس کے دل سے اٹھنے والی دردانگیز اہ اسے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ:
’’۔۔۔کاش! ہم بوڑھے ماں باپ کوتم بچے بے زبان جانور سمجھ ہی لیتے۔‘‘
یہ ’’بے زبان‘‘ افسانچہ نصیحت آموز پیغام اور طنز آمیز تاثر کا حامل ہے۔ یہ سوشل ورکر شلپا میم کی اور اس کے شوہرکے دہرے کردار کی افسوس ناک عکاسی کرتا ہے۔ تکنیک اور اسلوب بھی اچھا ہے۔ یہ ایک واقعاتی بیان سامنے نہیں لارہا ہے بلکہ کہانی کے مختلف شیڈز کے ساتھ انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
آج کل کی نوجوان نسل کے بیشتر بچے سوشل میڈیائی سائٹس پر چیٹنگ یا تعلیم حاصل کرنے کے دوران بغیر سوچے سمجھے آپس میں مراسم بڑھاتے ہیں اور کبھی کبھار ماں باپ کی مرضی کے خلا خودسربن کر رشتے بھی جوڑتے ہیں لیکن آخرکار اصلی صورتحال جان کر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔افسانہ ’’نسل‘‘ ایسے ہی ایک سماجی موضوع کو تمثیلی اسلوب میں عمدگی سے پیش کررہا ہے۔ بزنس مین راج رائے کی اٹھارہ سالہ لڑکی روزی بڑی ضدی اور خودسر ہوتی ہے جو راہل نام کے ایک لڑکے کوجیون ساتھی بنانا چاہتی ہے۔اس کے والدین پریشان ہوجاتے ہیں۔پھر لڑکی کے کہنے پر گھر میں ایک اعلی نسل کا کتا لایا جاتا ہے۔اس کی نسل پر گفتگو ہوتی ہے اور لڑکی اپنی سمجھداری کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے کہتی ہے کہ’’ ایک اچھی نسل کا کتا گھر کی شان ہوتا ہے…‘‘ اس کا والد یہ سن کرجیسے ’لوہا گرم ہے ہتھوڑا مارو‘ کے مثل کہتا ہے:
’’تو پھر بیٹا! جس آوارہ راہل کو تم جیون ساتھی بنانا چاہتی ہو‘ کیا تم نے اس کی نسل کا پتا لگا لیا۔‘‘
یہ ضروری نہیں ہے کہ افسانچے میں کوئی طنز یا سماجی برائی ہی پیش ہوئی ہو بلکہ اصلاحی ادب میں وہ افسانے یا افسانچے بھی آتے ہیں جن میں کوئی مثبت پیغام بھی ہو اور جن کو پڑھ کر سماج کے اچھے کردار بھی سامنے آسکیں۔ ’’رشتے کی مہک‘‘ بھی اصلاحی نوعیت کا ایک مثبت پیغام کا حامل افسانچہ ہے۔کیونکہ گھروں میں اسی قسم کی چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں سے اپنے بھی غیر بن جاتے ہیں۔ افسانچے میں جب لڑکی اپنی ماں کو بھابی کی ڈائری کا ایک صفحہ دیکھا کر اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے تو دوسرے صفحے کی تحریر پڑھ کر ساری غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔
مجموعے میں چند اور بھی عمدہ افسانچے شامل ہیں جس سے ظاہر ہے کہ رقیہ جمال صاحبہ فن افسانچہ نگاری پر عمدہ عبور رکھتی ہے اور وہ مشاہداتی بنیاد پر صرف معمولی سی واقعہ نگاری بیان نہیں کرتی ہے بلکہ کسی بھی موضوع کو واقعہ یا کہانی بناکر افسانچہ تخلیق کرتی ہے۔ان کے افسانچوں میں ساس بہو کی کچن کہانیاں نہیں ہوتی ہیں جن پرکئی کئی طویل سیریل بھی بن چکے ہیں۔وہ متنوع موضوعات پر افسانچے تخلیق کرتی ہیں جو کہ ان کی افسانچہ نگاری کا قابل سراہنا پہلو ہے۔ مجموعی طور پران کے افسانچوں کا مطالعہ خوشگوار تاثر چھوڑ تا ہے تاہم چند افسانچے سطحی قسم سی واقعہ نگاری معلوم ہوتے ہیں ان میں بھی اگرچہ پنچ لائن کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن پھر بھی وہ کوئی متاثرکن فنی اور موضوعاتی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نظر نہیں آتے ہیں۔
9906834877
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا