افسانہ بے زبان رشتے

0
117
  • مآم۔۔۔۔مآم۔۔۔۔۔ جلدی آئیے دیکھئیے نہ میں نے کیا لایا ہے میں کام ختم کرکے تبھی  ہی بیٹھی تھی…. بڑے دنوں بعد اپنی امی کے گھر آئی تھی مجھ سے ملنے پھوپھی جان آئی تھی تو ہم سب بیٹھے یک دوسرے کی خیریت لینے میں مصروف تھے تبھی  مسکان نے پھر سے آواز لگائی مآم ائیے نا ۔۔   میں نے بے زاری سے جواب دیا تم ہں اندر آجاؤ۔۔۔۔۔ میں نہیں آتی تبھی مسکان ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اس کے ہاتھوں میں کچھ تھا جیسے وہ بڑی نزاکت سے سمبھال کر میرے پاس لے ۔آئی   ۔۔۔۔۔۔ ارے یہ کیا؟ یہ تو بلی کے بچے ہیں شاید دو تین دن کے ہی ہونگے وہ بہت کانپ  رہے تھے مام دیکھیے نہ کتنے پیارے ہیں ایک تو بالکل شیر کی مانند تھا تو دوسرا سفید کالی  دھاریوں والا” ارے انہیں چھوڑ آو ان کی ماں پریشان ہو رہی ہوگی ” میں نے ڈانٹ کر کہا مگر مسکان نے انہیں بڑے پیار سے سینے سے لگا لیا نہیں مام  ہم  اسے اپنے ساتھ گھر لے جائیں گے….. نہیں جاؤ ابھی چھوڑ او میں نے سخت آواز میں کہا….، میں پھر باتوں میی مشغول ہوگئی ایک ہفتہ امی کے گھر روکیں بچوں کی چھٹیاں چل رہی تھی بچے سارا دن بلی کے بچوں میں لگے رہتے ان چھٹیوں میں بچوں کا دھیان کھیل کود سے ہٹ کر صرف بلی پر مرکوز ہو گیا تھا جانے کا دن قریب آیا  ہم نے تیاری کرلی اور ابھی کار میں سامان رکھ ہی رہے تھے کہ مسکان پھر آگئی بلی کے بچوں کو لے کر مآم ہم انھیں ساتھ لے جائیں ۔گے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بیٹا میں نے پیار سے کہا مگر مسکان تو مسکان فاطمہ ناہیز اور نیہا ں بھی ضد  پر اڑ گئے وہ پڑوس کی گھر کی بلی کے بچے ہیں ہم کیسے لے جائیں؟ نہیں مام  وہ   انھیں  جنگل میں چھوڑنے والے ہیں یہ مر جائیں گے ہم انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں فاطمہ نے رحم بھری نظر ان  پر ڈالی…… ارے بمبئی کی فلیٹ میں اسکو کیسے سنبھالیں گے بہت پریشانی ہوگی اس کے ڈیڈی نے ڈانٹ کر کہا جاو چھوڑ آؤ مگر چاروں جیسے اپنی ضد پر اڑ گئے میں نے سمجھاتے ہوئے کہا وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں مر جائیں گے مگر وہ نہ مانے کھیر ہم دونوں نے بچوں کی ضد پر ہرمانلی….. سوچا اگر نہ سنبھالی جائے تو مچھلی مارکیٹ میں چھوڑ دیں گے….. بچوں کی خوشی دیکھ کر ہم دونوں بھی مسکرا پڑے راستے میں دودھ پلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے منہ نا لگایا۔۔۔۔۔ اپنی ہلکی ہلکی آواز میں منمناتے رہے۔۔۔۔ خیر سے بمبئی پہنچ گئے تھے دودھ کی کٹوری بھر کر ان کے سامنے رکھیں مگر مجال ہے جو دونوں نے منہ لگایا ہو بس میاؤں میاؤں کے شور سے گھر میں اداسی چھا گئی سب کے سب پریشان ہوگئے ہم انہیں نہیں لانا چاہیے تھا بینہما کے دور کے یہ مر جائیں گے ایک تو اتنے چھوٹے ہیں میں نے دکھ سے کہا۔۔۔۔  روی دودھ میں ڈبو کر تو انگلی سے۔۔۔۔ نیپل سے دودھ پلانےکی کوشش کی مگر ساری کوششیں بیکارچاروں  بچے رونے لگے مام کچھ  کرو پلز …میں بھی پریشان ہوگئیں ساری رات جاگ کر کاٹی آخر صبح ہوتے ہوتے مجھے خیال آیا کیوں نہ انک پْمپ سے کوشش کی جائے اور اور کوشش کامیاب ہو گی وہ دھیرے دھیرے پمپ  سے دودھ چوسنے لگے اور ہم سبھو ں کے چہرے پر مسکان آگئی.    …. بچوں نے ان کا نام کرن بھی کر دیا تھا شیر  دیکھنے والے کو "ٹائیگر” تو کالی دھاری والی کو "رانوں” ننھے منے سارا دن گھر میں گھومتے رہتے بچوں کیلئے جیتے جاگتے کھلونے آ گئے تھے چاروں باری باری انہیں سنبھا لتے مانو انسانی بچے ہو ان کی کالی کالی آنکھوں میں محبت کا سمندر ہوتا او جس انداز سے ٹکر ٹکر   دیکھتے دل بے اختیار پیار کرنے مچل جاتا…. صبح بچے سب اسکول اور انکے ڈیڈی آفس چلے جاتے اور میں جیم نکل جاتی تب وہ ہمارے نرم گرم کمبل میں مزے کی نیند سو جاتے ….. سب انہیں ٹائیگر اور رانوں کہتے مگرمیں ٹیگولی اور بیگولی کہتی جب بھی باہر سے گھر لوٹیں اور دھیرے سے تالا کھول کر اندر آتی اگر یہ جاگ رہے ہوتے دوڑ کر میرے پاس آجاتے اگر سوئے ہوئے ہوتے تو میں آواز لگاتی ٹیگولی کے بیگولی اور وہ نیند سے ہی اتنی سرپٹ دوڑ کے آتے اور میرے کندھوں پر چڑھ جاتے اور گالوں کو چاٹنے لگ جاتے۔۔۔۔۔۔۔ میرے دوسرے بچوں کی طرح میں روز انہیں سکھاتی بولو مام بولو کو پتا نہیں کیا کہتے مگر مجھے مام ھی سنائی دیتا اگر بھوک لگی تو پاس آکر کچھ کہتے مام مام میں نے پتہ نہیں کیوں کبھی مایو کہتے سنا ہی نہیں….   آؤ میرے پاس آتے  پیاری نظروں سے مجھے بلاتے …مام مام اور میں لپک کر انہیں اپنی گودی میں سمیٹ لیتی ہے اور وہ یا تو میرا ہاتھ چاٹنے  لگتے ہیں یا جگہ بنا کر میری گودی می سو جاتے….. اک رشتہ تھا ہم لوگوں سے انکا کبھی کبھی لگتا کہ میں نے اپنے پیٹ سے ہی پیدا کیا ہے انھیں …. دن گزرتے رہے اب یہ بچے بڑے ہونے لگے تھے اور سمجھدار بھی کبھی کیچن میں کسی چیز کو نہیں چھو تے کبھی بچوں کے پاس تو کبھی ہم دونوں کی بیچ آکر سو جاتے…..، صبح جب گھڑی الارم بجاتی  تو ٹائیگر جھٹ سے اٹھ کر سینے پر آجاتا اور مام مام کہہ کر آواز لگاتا ….. گالوں پر اپنا گال گھما کر جگاتا جیسے کہہ رہا ہوں” اٹھو صبح ہوگی” اور جس دن اتوار ہوتا تو جب وہ  جگاتا تو میں کہتی "سوجا ٹیگو اج اتوار  ہے” تم آؤ مل کر ایسے جتاتا جیسے سب سمجھ گیا اور میرے کمبل میں گھس کر سوجاتا… کون کہتا ہے انہیں سمجھ نہیں ہوتی؟سمجھ تو اتنی ہوتی کہ وہ دونوں رفع حاجت کے لیے بھی برابر ٹوائلٹ میں جاتے صرف اپنی پلیٹ سے کھانا کھاتے کچا یا کچرے میں پڑھا ہوا کھانا ہو تو چھوٹے بھی نہیں کبھی موت تک نہیں لگاتے گھر میں ٹی وی کارٹون سب کم ہوگیا تھا اگر گھر میں کبھی کسی کو ڈانٹ پڑتی تو حیرانگی سے کبھی ہمیں تو کبھی بچوں کو دیکھتے اور بیچ بیچ میں آواز کرکے مانو ہم سے پوچھتے کہ کیوں ڈانٹ رہے ہو…… بمبئی سے رتنہ گیری توکبھی مروڑ وہ ہمارے ساتھ ہی جاتے اتنا دور کا سفر دم سادھے بیٹھے رہتے…… کتنا اوتارو ‏ ‏نا سو سو نا کھانا ….. اگر تھک جاتے تو آواز کرتے مگر چاہے کتنا اوتارو منزل مقصود آنے تک گاڑی سے باہر نہ اتے .   اب وہ بڑے ہوگئے تھے ان کی بھی زندگی ہے آزادی انہیں بھی چاہئے ایک روم میں ان کی آزادی کو قید نہیں کیا جا سکتا تھا تو اب کیا مامی کے پاس گاؤں چھوڑ انے کا طے کیا .   واپسی پر ہم انہیں لیے بیناہی آگئے مگر ساتھ ساتھ اداسی اور خاموشی چلی آئی…….    گھر ویرانہ لگنے لگا وہاں ان دونوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا کسی چیز کو مونا لگاتے کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے سارا وقتی انتظار کرتے رہے تھے …… آخر ایک دن امی نے خبر د ی "”رانو اب نہیں رہی” اس نے وہیں دم توڑ دیا تھا جس کمرے میں ہم رہتے تھے گھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہم سب اپنی غلطی پر پچھتا رہے تھے……. آنے والی پہلی چھٹی میں ہم سب پھر امی کے پاس پہنچے اب کسی صورت ٹائیگر کو وہ نہ رکھنے کا مصمم ارادہ کر کے پھر خوشی خوشی دے گر کو لے کر واپس لوٹے رانوں کی کمی کھل تو رہی تھی مگر تایگر کا اپنے پاس ہونا ہمارے دل کو سکون دے جاتا………. وقت گزرتا رہا ٹائیگر کا اکیلا پن بڑھ گیا تھا ہم گرمیوں کی چھٹی میں پھر امی کے گھر گئے چھٹیاں ساتھ گزاری لوٹتے وقت امی کو ساتھ لے کر آنا تھا ٹائیگر کو گودی میں لے کر بیٹھ گئے گھر میں تالا لگا ہی رہےتھے  کی ایک بلی پاس سے گزری….. اور ٹائیگر چھلانگ لگا کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا…… ہم سب  بھی  ٹائیگر کے پیچھے بھاگے مگر وہ آنگن سے ہوکر کھیتوں میں گم ہو گیا ہم نے ہر جگہ تلاش کیا آواز لگائی مگر وہ نہیں آیا بچوں کی آنکھیں نم ہوگی آنسوں میری آنکھوں میں بھی چھپنے لگے تھے مگر ٹائیگر نہیں آیا…… انتظار کے بعد ہم لوگ کھالی ہاتھ  بمبئی لوٹ آئے اداس…… ناراض رات کو پڑوس میں فون کیا پتا کرنے ٹائیگر آیا گیا. جواب سن کر اداسی نے غم کا روپ اختیار کر لیا….. وہ گھر کی سیڑھی پر بیٹھا تھا کسی کا دیا کچھ نہیں کھاتا ہے دن گزرتے رہے او سیڑھی  پر تو آنگن میں تو پیڑوں کے نیچے بیٹھ جاتا مگر مجال ہے جو کسی چیز کو ‏ منہ  لگائے کمزوری نے گھر کر لیا تھا اس میں اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا موبائل سے ویڈیو نکال کر جب پڑوسن نے بھیجا تو آنکھوں میں آنسو روک نہ سکے ڈر کر بہن کو کال کیا ابھی اس کے کھانے کا انتظام کر کے اس کے پاس جاؤ اور ہو سکے تو اپنے پاس لے آؤں ہم جلد آ کر لے جائیں گے بہن نے بھی فورا وہاں جانے کی تیاری کی گھر کا تالا کھولا پرآج ٹائیگر سامنے کے دروازے پر نہیں تھا وہ دوڑ کر باہر گیں اسے دیکھ پڑوسی بھی آگئے سب ٹائیگر سے ہماری محبت کی گواه تھے و پچھلے سیڑھی پر آگئی ٹائیگر وہاں لیٹا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا گی سے اسکی کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں وہ جلدی سے اس کے نزدیک گئی مگر وہ ہم سے دور چلا گیا تھا…… اسکی آنکھیں ہماری منتظر ہونے کی گواہی دے رہی تھیں اس نے ہمیں  ویڈیو کال کرکے اس کی حالت بتائی سب نے مل کے عزت کے ساتھ پپایا  کے پیڑ کے نیچے اسے دفنایا ٹائیگر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا تھا پر آنسوں تھے  کے کسی آنکھوں سے نہ رک سکے آج بھی اس کی محبت اس کا انتظار دل میں چھپتا ہے وہ دونوں بہت یاد آتے ہیں بہت یاد آتے ہیں۔ ۰۰۰ مآم۔۔۔۔مآم۔۔۔۔۔ جلدی آئیے دیکھئیے نہ میں نے کیا لایا ہے میں کام ختم کرکے تبھی  ہی بیٹھی تھی…. بڑے دنوں بعد اپنی امی کے گھر آئی تھی مجھ سے ملنے پھوپھی جان آئی تھی تو ہم سب بیٹھے یک دوسرے کی خیریت لینے میں مصروف تھے تبھی  مسکان نے پھر سے آواز لگائی مآم ائیے نا ۔۔   میں نے بے زاری سے جواب دیا تم ہں اندر آجاؤ۔۔۔۔۔ میں نہیں آتی تبھی مسکان ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اس کے ہاتھوں میں کچھ تھا جیسے وہ بڑی نزاکت سے سمبھال کر میرے پاس لے ۔آئی   ۔۔۔۔۔۔ ارے یہ کیا؟ یہ تو بلی کے بچے ہیں شاید دو تین دن کے ہی ہونگے وہ بہت کانپ  رہے تھے مام دیکھیے نہ کتنے پیارے ہیں ایک تو بالکل شیر کی مانند تھا تو دوسرا سفید کالی  دھاریوں والا” ارے انہیں چھوڑ آو ان کی ماں پریشان ہو رہی ہوگی ” میں نے ڈانٹ کر کہا مگر مسکان نے انہیں بڑے پیار سے سینے سے لگا لیا نہیں مام  ہم  اسے اپنے ساتھ گھر لے جائیں گے….. نہیں جاؤ ابھی چھوڑ او میں نے سخت آواز میں کہا….، میں پھر باتوں میی مشغول ہوگئی ایک ہفتہ امی کے گھر روکیں بچوں کی چھٹیاں چل رہی تھی بچے سارا دن بلی کے بچوں میں لگے رہتے ان چھٹیوں میں بچوں کا دھیان کھیل کود سے ہٹ کر صرف بلی پر مرکوز ہو گیا تھا جانے کا دن قریب آیا  ہم نے تیاری کرلی اور ابھی کار میں سامان رکھ ہی رہے تھے کہ مسکان پھر آگئی بلی کے بچوں کو لے کر مآم ہم انھیں ساتھ لے جائیں ۔گے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بیٹا میں نے پیار سے کہا مگر مسکان تو مسکان فاطمہ ناہیز اور نیہا ں بھی ضد  پر اڑ گئے وہ پڑوس کی گھر کی بلی کے بچے ہیں ہم کیسے لے جائیں؟ نہیں مام  وہ   انھیں  جنگل میں چھوڑنے والے ہیں یہ مر جائیں گے ہم انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں فاطمہ نے رحم بھری نظر ان  پر ڈالی…… ارے بمبئی کی فلیٹ میں اسکو کیسے سنبھالیں گے بہت پریشانی ہوگی اس کے ڈیڈی نے ڈانٹ کر کہا جاو چھوڑ آؤ مگر چاروں جیسے اپنی ضد پر اڑ گئے میں نے سمجھاتے ہوئے کہا وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں مر جائیں گے مگر وہ نہ مانے کھیر ہم دونوں نے بچوں کی ضد پر ہرمانلی….. سوچا اگر نہ سنبھالی جائے تو مچھلی مارکیٹ میں چھوڑ دیں گے….. بچوں کی خوشی دیکھ کر ہم دونوں بھی مسکرا پڑے راستے میں دودھ پلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے منہ نا لگایا۔۔۔۔۔ اپنی ہلکی ہلکی آواز میں منمناتے رہے۔۔۔۔ خیر سے بمبئی پہنچ گئے تھے دودھ کی کٹوری بھر کر ان کے سامنے رکھیں مگر مجال ہے جو دونوں نے منہ لگایا ہو بس میاؤں میاؤں کے شور سے گھر میں اداسی چھا گئی سب کے سب پریشان ہوگئے ہم انہیں نہیں لانا چاہیے تھا بینہما کے دور کے یہ مر جائیں گے ایک تو اتنے چھوٹے ہیں میں نے دکھ سے کہا۔۔۔۔  روی دودھ میں ڈبو کر تو انگلی سے۔۔۔۔ نیپل سے دودھ پلانےکی کوشش کی مگر ساری کوششیں بیکارچاروں  بچے رونے لگے مام کچھ  کرو پلز …میں بھی پریشان ہوگئیں ساری رات جاگ کر کاٹی آخر صبح ہوتے ہوتے مجھے خیال آیا کیوں نہ انک پْمپ سے کوشش کی جائے اور اور کوشش کامیاب ہو گی وہ دھیرے دھیرے پمپ  سے دودھ چوسنے لگے اور ہم سبھو ں کے چہرے پر مسکان آگئی.    …. بچوں نے ان کا نام کرن بھی کر دیا تھا شیر  دیکھنے والے کو "ٹائیگر” تو کالی دھاری والی کو "رانوں” ننھے منے سارا دن گھر میں گھومتے رہتے بچوں کیلئے جیتے جاگتے کھلونے آ گئے تھے چاروں باری باری انہیں سنبھا لتے مانو انسانی بچے ہو ان کی کالی کالی آنکھوں میں محبت کا سمندر ہوتا او جس انداز سے ٹکر ٹکر   دیکھتے دل بے اختیار پیار کرنے مچل جاتا…. صبح بچے سب اسکول اور انکے ڈیڈی آفس چلے جاتے اور میں جیم نکل جاتی تب وہ ہمارے نرم گرم کمبل میں مزے کی نیند سو جاتے ….. سب انہیں ٹائیگر اور رانوں کہتے مگرمیں ٹیگولی اور بیگولی کہتی جب بھی باہر سے گھر لوٹیں اور دھیرے سے تالا کھول کر اندر آتی اگر یہ جاگ رہے ہوتے دوڑ کر میرے پاس آجاتے اگر سوئے ہوئے ہوتے تو میں آواز لگاتی ٹیگولی کے بیگولی اور وہ نیند سے ہی اتنی سرپٹ دوڑ کے آتے اور میرے کندھوں پر چڑھ جاتے اور گالوں کو چاٹنے لگ جاتے۔۔۔۔۔۔۔ میرے دوسرے بچوں کی طرح میں روز انہیں سکھاتی بولو مام بولو کو پتا نہیں کیا کہتے مگر مجھے مام ھی سنائی دیتا اگر بھوک لگی تو پاس آکر کچھ کہتے مام مام میں نے پتہ نہیں کیوں کبھی مایو کہتے سنا ہی نہیں….   آؤ میرے پاس آتے  پیاری نظروں سے مجھے بلاتے …مام مام اور میں لپک کر انہیں اپنی گودی میں سمیٹ لیتی ہے اور وہ یا تو میرا ہاتھ چاٹنے  لگتے ہیں یا جگہ بنا کر میری گودی می سو جاتے….. اک رشتہ تھا ہم لوگوں سے انکا کبھی کبھی لگتا کہ میں نے اپنے پیٹ سے ہی پیدا کیا ہے انھیں …. دن گزرتے رہے اب یہ بچے بڑے ہونے لگے تھے اور سمجھدار بھی کبھی کیچن میں کسی چیز کو نہیں چھو تے کبھی بچوں کے پاس تو کبھی ہم دونوں کی بیچ آکر سو جاتے…..، صبح جب گھڑی الارم بجاتی  تو ٹائیگر جھٹ سے اٹھ کر سینے پر آجاتا اور مام مام کہہ کر آواز لگاتا ….. گالوں پر اپنا گال گھما کر جگاتا جیسے کہہ رہا ہوں” اٹھو صبح ہوگی” اور جس دن اتوار ہوتا تو جب وہ  جگاتا تو میں کہتی "سوجا ٹیگو اج اتوار  ہے” تم آؤ مل کر ایسے جتاتا جیسے سب سمجھ گیا اور میرے کمبل میں گھس کر سوجاتا… کون کہتا ہے انہیں سمجھ نہیں ہوتی؟سمجھ تو اتنی ہوتی کہ وہ دونوں رفع حاجت کے لیے بھی برابر ٹوائلٹ میں جاتے صرف اپنی پلیٹ سے کھانا کھاتے کچا یا کچرے میں پڑھا ہوا کھانا ہو تو چھوٹے بھی نہیں کبھی موت تک نہیں لگاتے گھر میں ٹی وی کارٹون سب کم ہوگیا تھا اگر گھر میں کبھی کسی کو ڈانٹ پڑتی تو حیرانگی سے کبھی ہمیں تو کبھی بچوں کو دیکھتے اور بیچ بیچ میں آواز کرکے مانو ہم سے پوچھتے کہ کیوں ڈانٹ رہے ہو…… بمبئی سے رتنہ گیری توکبھی مروڑ وہ ہمارے ساتھ ہی جاتے اتنا دور کا سفر دم سادھے بیٹھے رہتے…… کتنا اوتارو ‏ ‏نا سو سو نا کھانا ….. اگر تھک جاتے تو آواز کرتے مگر چاہے کتنا اوتارو منزل مقصود آنے تک گاڑی سے باہر نہ اتے .   اب وہ بڑے ہوگئے تھے ان کی بھی زندگی ہے آزادی انہیں بھی چاہئے ایک روم میں ان کی آزادی کو قید نہیں کیا جا سکتا تھا تو اب کیا مامی کے پاس گاؤں چھوڑ انے کا طے کیا .   واپسی پر ہم انہیں لیے بیناہی آگئے مگر ساتھ ساتھ اداسی اور خاموشی چلی آئی…….    گھر ویرانہ لگنے لگا وہاں ان دونوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا کسی چیز کو مونا لگاتے کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے سارا وقتی انتظار کرتے رہے تھے …… آخر ایک دن امی نے خبر د ی "”رانو اب نہیں رہی” اس نے وہیں دم توڑ دیا تھا جس کمرے میں ہم رہتے تھے گھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہم سب اپنی غلطی پر پچھتا رہے تھے……. آنے والی پہلی چھٹی میں ہم سب پھر امی کے پاس پہنچے اب کسی صورت ٹائیگر کو وہ نہ رکھنے کا مصمم ارادہ کر کے پھر خوشی خوشی دے گر کو لے کر واپس لوٹے رانوں کی کمی کھل تو رہی تھی مگر تایگر کا اپنے پاس ہونا ہمارے دل کو سکون دے جاتا………. وقت گزرتا رہا ٹائیگر کا اکیلا پن بڑھ گیا تھا ہم گرمیوں کی چھٹی میں پھر امی کے گھر گئے چھٹیاں ساتھ گزاری لوٹتے وقت امی کو ساتھ لے کر آنا تھا ٹائیگر کو گودی میں لے کر بیٹھ گئے گھر میں تالا لگا ہی رہےتھے  کی ایک بلی پاس سے گزری….. اور ٹائیگر چھلانگ لگا کر اس کے پیچھے دوڑ پڑا…… ہم سب  بھی  ٹائیگر کے پیچھے بھاگے مگر وہ آنگن سے ہوکر کھیتوں میں گم ہو گیا ہم نے ہر جگہ تلاش کیا آواز لگائی مگر وہ نہیں آیا بچوں کی آنکھیں نم ہوگی آنسوں میری آنکھوں میں بھی چھپنے لگے تھے مگر ٹائیگر نہیں آیا…… انتظار کے بعد ہم لوگ کھالی ہاتھ  بمبئی لوٹ آئے اداس…… ناراض رات کو پڑوس میں فون کیا پتا کرنے ٹائیگر آیا گیا. جواب سن کر اداسی نے غم کا روپ اختیار کر لیا….. وہ گھر کی سیڑھی پر بیٹھا تھا کسی کا دیا کچھ نہیں کھاتا ہے دن گزرتے رہے او سیڑھی  پر تو آنگن میں تو پیڑوں کے نیچے بیٹھ جاتا مگر مجال ہے جو کسی چیز کو ‏ منہ  لگائے کمزوری نے گھر کر لیا تھا اس میں اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا موبائل سے ویڈیو نکال کر جب پڑوسن نے بھیجا تو آنکھوں میں آنسو روک نہ سکے ڈر کر بہن کو کال کیا ابھی اس کے کھانے کا انتظام کر کے اس کے پاس جاؤ اور ہو سکے تو اپنے پاس لے آؤں ہم جلد آ کر لے جائیں گے بہن نے بھی فورا وہاں جانے کی تیاری کی گھر کا تالا کھولا پرآج ٹائیگر سامنے کے دروازے پر نہیں تھا وہ دوڑ کر باہر گیں اسے دیکھ پڑوسی بھی آگئے سب ٹائیگر سے ہماری محبت کی گواه تھے و پچھلے سیڑھی پر آگئی ٹائیگر وہاں لیٹا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا گی سے اسکی کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں وہ جلدی سے اس کے نزدیک گئی مگر وہ ہم سے دور چلا گیا تھا…… اسکی آنکھیں ہماری منتظر ہونے کی گواہی دے رہی تھیں اس نے ہمیں  ویڈیو کال کرکے اس کی حالت بتائی سب نے مل کے عزت کے ساتھ پپایا  کے پیڑ کے نیچے اسے دفنایا ٹائیگر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا تھا پر آنسوں تھے  کے کسی آنکھوں سے نہ رک سکے آج بھی اس کی محبت اس کا انتظار دل میں چھپتا ہے وہ دونوں بہت یاد آتے ہیں بہت یاد آتے ہیں۔ ۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا