شمس الدین :ایک ملیالی اردو کا فدائی

0
209
  • ڈاکٹر محمد ظفر حیدری
    9596267110
  • اردو نہیں ہے ان کی، ملیالی بولتے ہیںاردو نہیں ہے ان کی، ملیالی بولتے ہیںلیکن ہمیشہ رس، یہ اردو کا گھولتے ہیں
    بہت کم ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان میں نہیں بلکہ اردو میں نام کمایا جو خود میں ایک بہت بڑی بات ہے۔اردو والوں کے لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ جنہوں نے مادری زبان ہوتے ہوئے اردو سے دوری اختیار کی۔اس لحاظ سے وہ لوگ قابلِ تحسین ہیں کہ جنہوں نے مادری زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اردو کو سینے سے لگایا۔ علامہ اقبالؔ کی مادری زبان پنجابی تھی۔ لیکن اردو کے ایسا دل گرویدہ تھے کہ ہمیشہ اردو ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھا۔ پروفیسر اکبر حیدری کی مادری زبان کشمیری تھی، لیکن اردو تحقیق کے محققِ اعظم کہلائے۔ ہمیشہ اردو ہی کی روٹی کھائی۔کاوشؔ بدری کی مادری زبان تمل تھی، لیکن اردو میں نام کمایا۔اسی طرح کے پی شمس الدین ترورکاڈ کی مادری زبان ملیالم ہے،لیکن اردو کے ایک اچھے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کی خوب خدمت کر رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسی جگہ جہاں اردو کا بہت کم چلن ہے ۔شمس الدین صاحب کا تعلق جنوبی ہند کیرالا کے ضلع ملاپرم کے ترورکاڈ سے ہے۔پروفیسر اکبر حیدری کشمیری شمس الدین صاحب کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: ’’ہمارا مشاہدہ ہے کہ اردو ادراے اور اساتذہ اس نیم کشتہ زبان کے استیصال کے لئے اپنے حواریوں کی نکلی بیساکھیوں کا سہارا لے کر اردو کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ لیتے ہیں۔ برعکس اس کے کیرالا کے ایک جواں سال محقق اور ماہر اقبالیات جناب کے پی شمس الدین ترورکاڈ اپنی حقیقی بیساکھیوں پر اعتماد کر ے دور افتادہ ادبی مجلسوں میں سفر کی بے پنا سختیاں اور جسمانی تکلیفیں جھیل کر چار چاند لگاتے ہیں۔ موصوف کی مادری زبان ملیالم ہے۔ وہ اردو میں ایم اے اور ادیب فاضل( جو کسی زمانے میں اردو لٹریچر اور ادب العالیہ میں سب سے بڑی ڈگری تسلیم کی جاتی تھی)ہیں۔ اور کیرالا کے ایک ہائی اسکول میں ایک اردو ٹیچر ہیں۔‘‘ ( ماہنامہ’’حکیم الامت‘‘سری نگر،مئی 2011ء)مزید پروفیسر حیدری کے پی شمس الدین صاحب ترورکاڈ کے ایک مضمون’’ ملیالم میں اقبالیات‘‘کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’انہوں نے متذکرہ بالا تحقیقی مقالہ بڑی مشقت اور دیدہ ریزی سے حوالۂ قلم کر کے اپنے کو ’’حقیقی ماہرینِ اقبالیات‘‘ میں شامل کر کے اونچا مقام حاصل کر لیا ہے۔ ادارۂ حکیم الامت سری نگر، جنوب کے اس آفتابِ کمال محقق اور ماہرِ اقبالیات کو سلام کرتا ہے۔ ایسے اولی العزم ادبأ کو ہم نے خال خال ہی دیکھا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر شمس الدین صاحب کو صحت و سلامت رکھے۔ آمین!(ماہنامہ’’حکیم الامت‘‘سری نگر،مئی2011 ء)‘‘ ’’ ملیالم میں اقبالیات‘‘ ہی کے بارے میں فرزند اقبالؔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں: ’’آپ کی ارسال کردہ دو جلدیں ’’حکیم الامت‘‘ کی موصول ہوئیں۔ یادآوری کا شکریہ۔کیرلا والا مضمون آرام سے پڑھوں گا ۔مجھے یاد پڑتا ہے شمس الدین ترورکاڈ کا مضمون میں نے پہلے پڑھاتھا لیکن میرا حافظہ اب ایسا ہوگیا ہے کہ کچھ یاد نہیں رہتا۔اب عمر کے ۸۸ سال میں ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۱ء سے داخل ہوگیا۔‘‘ زیر نظر مضمون ہی کے بارے میں ڈاکٹر پی عبدالغفار(چتور)کا کہنا ہے کہ ’’ سنا تھا کہ ریاستِ کریلا میں کسی بھی طبقے کے لوگوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے بلکہ ملیالم ہے۔ملیالم مادری زبان والے کے پی شمس الدین کا اتنا اچھا مضمون تحریر کرنا واقعی تعجب کی بات ہے۔موصوف کا مضمون پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبالؔ کی حیات ہی میں ملیالم زبان میں اقبالؔ کے بارے میں لکھا جانے لگا تھا۔اس وقت سے آج تک لگا تار وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔لیکن کسی نے بھی آج تک اردو دنیا تک یامحبانِ اقبالؔ تک اس بات کو پہنچانے کی جسارت نہیں کی کہ ملیالم زبان میں اقبالؔ پر اس طرح کا کام ہورہا ہے۔جناب کے پی شمس الدین ترورکاڈ کا کیرالہ کے سارے مقامات کا دورہ کرنا گھوم پھر کر بڑی محنت و مشقت سے تحقیق کر کے علامہ اقبالؔ پر لکھے گئے مضامین والے قدیم اخبار و رسائل کا اکھٹا کرنا اور ان کا مطالعہ کر کے محققانہ اور عالمانہ مضمون تحریر کرنا میرے خیال میں جوئے شیر لانے سے کچھ کم نہیں ہے۔یہ انہیں کی بس کی بات ہے۔‘‘(مراسلہ ماہنامہ’’حکیم الامت‘‘ستمبر2011ء) میری حقیر رائے میں جسے پروفیسر اکبر حیدری اور جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے ماہرینِ اقبالیات کی سند مل چکی ہو ،اُسے اب مزید کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ شمس الدین صاحب ادبیاتِ اردو کے ایک اعلیٰ نثرنگار، ممتاز ناقد اور بہت اچھے محقق ہیں۔ ہمیں اس بات نے شش و پنج میں ڈال دیا ہے کہ آخر انہیں اتنی فرصت کہاں سے میسر ہوتی ہے کہ اپنے دیگر کاموں سے بالاتر ہو کر وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ کی دین اور فطری علمی استعداد اسی کو کہتے ہیں۔ہم شمس الدین صاحب کی اعلیٰ صلاحیتوں اور وسعت ِ فکر و نظر سے بے حد متاثر ہیں۔موصوف میں دیگر خصوصیات کے علاوہ کتب بینی اور مطالعہ کا شوق اتنا غالب آچکا ہے کہ وہ زرِ کثیر صرف کرکے بیش بہا اور گوہر ِ نایاب کتب جمع کرنے کے شوقین ہیں،جو ایک محقق کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ہماری یونیورسٹیوں میں کتب خانے تو ہیں لیکن استفادہ کرنے والا کوئی نہیں۔ طلبا تو دور کی بات پروفیسر صاحبان بھی لائبریریوں میں جانے سے کتراتے ہیں۔اُن کی ترجیحات میں تو صرف ’’سیمینارز ‘‘ ہیںجہاں وہ اپنے غیر معیاری ’’مقالوں‘‘کے عوض منہ مانگے دام وصولتے ہیں۔ کتب بینی کے سلسلے میں سید وصی اللہ بختیاری اپنے مضمون’’کیرالا کے شاہین اردو: شمس الدین ترورکاڈ‘‘لکھتے ہیں: ’’موصوف کی شخصیت کا ایک ایسا قابلِ تحسین اور لائقِ تقلید پہلو یہ ہے کہ موصوف اردو رسائل، جرائد اور اخبارات کی خریداری میں بخالت سے کام نہیں لیتے بلکہ ناشرین اور بیشتر تاجرانِ کتب کے یہاں آپ کا پتہ محفوظ ہے جو ہر نئی کتاب کی اشاعت کی اطلاع دیتے اور ارسال فرماتے رہتے ہیں۔آج جب کہ اردو کتابوں کی خریداری کے معاملے میں خود اساتذہ اور طلبا سرد مہری کا شکار ہیں، شمس الدین صاحب کا یہ رویّہ ہم سب اردو والوں کے لئے سبق آموز ہے۔‘‘ اردو زبان و ادب سے خصوصی دلچسپی رکھنے کے سلسلے میں میں ڈاکٹر پی عبد الغفار ،شمس الدین صاحب کے بارے میںفرماتے ہیں: ’’ویسے تو شمس الدین ترورکاڈ کوئی عظیم شخصیت نہیں ہیں لیکن ایسے بھی نہیں ہیں کہ جن کی علمی، ادبی، صحافتی اور تہذیبی خدمات کو یکسر فراموش کیا جائے۔اسی لئے آپ کیرالا کے اردو حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ شمس الدین ترورکاڈ اپنی مادری زبان ملیالم کے علاوہ اردو، فارسی عربی، انگریزی اور ہندی زبانیں بھی جانتے ہیں۔ لیکن انہیں اردو زبان سے زیادہ دلچسپی ہے اور وہ اس زبان کے استاد بھی ہیں۔‘‘(اعتماد،حیدر آباد۱۴اپریل ۲۰۰۸ء) ڈاکٹر عبد الغفار کایہ بھی کہنا ہے کہ’’کیرالا کی واحد ناول نگار خاتون زلیخا حسین صاحبہ کو اردو دنیا سے متعارف کرانے کا کارنامہ بھی شمس الدین صاحب نے انجام دیا۔‘‘(روزنامہ سالار،۹ اپریل ۲۰۰۵ء) اردو سے والہانہ محبت کی ایک اور مثال ظفر پانڈی کاڈ کے مضمون’’کیرالا میں اردو زبان کی تاریخی و تحقیقی سفر کی دو دہائیاں‘‘سے بھی ہوتی ہے۔ظفر صاحب لکھتے ہیں:’’ضلع ملاپرم میں نتھلمنّا کے قریب ترورکاڈ گائوں میں رہنے والے شمس الدین نے اپنے گھر کا نام ’’تمنّا‘‘ رکھا ہے۔ اردو سے ان کی محبت کا اظہار اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ شمس الدین ترورکاڈ کا گھر گزشتہ کئی سالوں سے زبان کی اشاعت کے لئے اور انجمنوں، اداروں اور اردو سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتوں کے لئے مطالعے کا اہم مرکز بنا ہوا ہے۔‘‘ شمس الدین صاحب اگر چہ ماہنامہ ’’حکیم الامت‘‘سے صرف چند برسوں ہی سے وابستہ ہیں ، لیکن کم عرصے میں ہی انہوں نے اپنے تحقیقی مضامین سے بر ِ صغیر میںتہلکہ مچا دیا ہے۔ امید ِواثق ہے کہ انشا ء اللہ شمس الدین صاحب اس صدی کے ممتاز ماہرین ِ اقبالیات کی صف میں شمار کیے جائیں گے۔ انہوں نے پورے جذبے اور تن من دھن کے ساتھ اردو ادبیات میں ایک ناقابل ِ فراموش خزانہ پیش کیا ہے۔ہماری دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر بہ طفیل ِ محمدؐ و آل ِمحمدؐ انہیں سلامت رکھے اور اردو ادب کی سربلندی و جاودانی کے لیے مزید توفیق سے نوازے۔ واضح رہے شمس الدین صاحب کوکئی زبانوں پر دسترس حاصل ہے جن میںاردو، ملیالم، ہندی اور انگریزی قابل ذکر ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ موصوف کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔وہ جو بھی لکھتے ہیں ،ٹھوس شواہد کی بنا پر لکھتے ہیں۔یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ شمس الدین صاحب کی شائع شدہ تخلیقات میں ہند و بیرونِ ہند کے رسائل و جراید میں تقریباً تیس مختلف النوع مضامین،ملاقاتیں،تراجم اردو سے ملیالم ، ملیالم سے اردوشامل ہیں۔موصوف نے کئی تعلیمی ، ادبی اور مذہبی سمیناروں ، کانفرنسوں میں شرکت کی اور مقالے پیش کیے۔اساتذہ کے لیے منعقدہ ریفریشر کورس، اورینٹل پروگرام میں بحیثیت ریسورس پرسن شرکت کی۔پچھلے بارہ برسوں سے SCERTکے تحت پانچویں جماعت تا دسویں جماعت کی اردو درسی کتاب اوررہنمائی کتاب کی تدوین کی کمیٹی میں ایک فعال ممبر کی حیثیت سے شریک کار ہیں۔شمس الدین صاحب کیرالا اردو ٹیچیرس ایسوسیشن کے سہ ماہی ترجمان ’اردو بلٹن ‘اورماہنامہ ’ جھلک‘کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔اسلامک انسائکلو پیڈیا(ملیالم) میں جلد ۷،۸،۹ میں مختلف موضوعات پر مضامین لکھے ہیں۔حیدر آباد، گوا، ترشنا پلّی، بنگلور میں منعقدہ سمیناروں میں مقالے پیش کیے۔کیرالا میں تلاشیری ، ملاپرم، پیریندل منّا، کالی کٹ، کوئی لانڈی، کنّور میں NCPULکے اور کالجوں کے منعقدہ سمیناروں میں مقالے پیش کیے۔ محقق اور ایک مقتدر صاحب ِقلم جناب کے پی شمس الدین صاحب کوئی روایتی معلم نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع المشرب اور روشن ذہن کے ساتھ روایتی ترقی پسندی کے برعکس حقیقی ترقی پسندی کے حامل ہیں ۔آپ کی منفر د،فکر انگیز وایمان افروزمحققانہ تحریریںہم سب کے لئے اعزازہیں ۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اسی طرح اپنے افکار کی روشنی پھیلاتے رہیں گے۔ آمین!۰۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا