’’ یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم ‘‘

0
70

ڈاکٹر اختر بن مصطفیٰ

 صدر شعبہ اُردو،

گور نمنٹ ڈگری کالج، ڈوڈہ،

جموں و کشمیر 

9797497215

امی! امی!۔۔۔۔ کیا ہوا راجہ؟ ’’امی ’’گل کا کھ ‘‘ کو گاوں کا سرپنچ منتخب کیا گیا‘‘’’مبارک ہو!‘‘ ’’مبارک ہو!‘‘ ’’اب گاوں کی ترقی ہوگی، سڑکیں  بنیں گیں، اسکول  بنیں  گے، بجلی اور پانی کی مزید سہولیات دستیاب ہوں گی‘‘۔ راجہ کی امی یہ باتیں دہرا رہی تھی اور راجہ سر پکڑ کر کسی اور سوچ میں گُم ہوگیا۔’’گُل کاکھ‘‘ کے گھر  شہنائیاں بجنے لگیں، لوگ جوق در جوق  گھر پہ مبارک بادی کیلئے تشریف لارہیں ہیں، گاوں  کا ہر فرد بشر اپنی  نیک خواہشات ’’گُل کاکھ‘‘ کو پیش کرنے لگا،  الیکڑانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا ’’گُل کاکھ‘‘ کی تصویریں اپلوڈ کرنے لگا۔ ’’گُل کاکھ‘‘ کے پاوں زمیں پر ٹکٹے نہیں تھے کیو نکہ ایک طویل مدت کے بعد اسکے شیش محل میں خوابوں کی ملکہ تشریف لائی ہے۔ گاوں کے دوسرے لڑکے شامی، صمدو، گڈو اور راجہ  اپنی ذہایت اور صلاحیت کو کوستے رہے۔ ان کے ہاں یہ مسلہ نہیں تھا کہ’’اگر دوست امتحان  میں فیل ہوجائے تو دُکھ ہوتا ہے، لیکن اگر دوست امتحان میں پہلے نمبر پر آئے تو اور  زیادہ دکھ ہوتا ہے‘‘ بلکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ سر پنچ گاوں کا  بڑی شخصیت ہوتا ہے اسکے کردار، سوچ اور نظریہ سے قوم کے افراد بلعموم اور نئی نسل بالخصوص متاثر ہوتی ہے۔ یہ نو جوان، قائد کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں آیئے اُنکی گفتگو سنتے ہیں۔’’راجہ   یار یہ تو حقیقت ہے کہ ہمیں آئین نے یہ حق دیا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے اپنے رہبر کا انتخاب کریں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رہبر قوم کا آئینہ ہوتا ہے، اُسکا انتخاب تو سوچ  سمجھ کر ہونا چاہئے‘‘۔تینوں دوستوں نے بیک زبان (شامی، صمدو، گڈو)  راجہ سے پوچھا۔ راجہ: ’’ہائے!! بقول شاعر’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘  لیکن راجہ گل کاکھ کے انتخاب میں تو گاوں کے بڑے بزرگوں نے بھی اپنے ووٹ کا استعمال کیا اُن کا کہنا ہے کہ گُل کاکھ بہت ذہین اور تجربہ کا رہے، وہ گاوں کی ترقی میں اہم رول ادا کرے گا۔ راجہ سوالیہ نگاہوں سے تینوں دوستوں کو گورتا رہا۔’’ارے پگلو! ذرا یہ تو بتاو کیا ترقی صرف مادی  چیزوں کو  حاصل کرنے کا نام ہے؟  قائد کا اثر صرف جسم پر نہیں روح پر بھی پڑتا ہے، سر پنچ اور صدر کو، قیادت کے اعتبار سے اپنے گاوں اور شہر کا امام بھی مانا جاتا ہے(جسے سیاسی امام یا رہبر بھی  کہا جاتا ہے)، وہ گاوں یا شہر میں سب سے بڑا ہوتا ہے اور امام صرف نماز پڑھانے والا نہیں  ہوتا ہے بلکہ ہر لیڈر اپنی قوم کا امام ہوتا ہے۔ میں موجودہ وقت کے بارے میں اتنا پریشان نہیں ہوں جتنا میں مستقبل کے بارے میں  کہ جب نئی نسل کو اپنے قائد کا انتخاب کرنا ہوگا تو وہ کن بنیادوں پر اپنے رہبر کا انتخاب کریں گے، اُن کی سوچ تو مفلوج ہو جائے گی نا‘‘ ’’ارے  راجہ  کس سوچ، کردار، اجتماعی ترقی اور  وژ ن کی بات کرتے ہو، اپنے مفاد کی بات کرو، تم کہاں  اکامو ڈیٹ ہو جاو، وہ بات کرو، تمہیں کس سے فائدہ  ملے وہ بات کرو، تمہیں کس بات اور کس عمل سے اونچی قیادت کے حلقے میں جگہ ملے وہ بات کرو، چھوڑو یہ باتیں تم نے وہ کہاوت نہیں سنی ہے کہ ’’جیسی رعایا و یسا حاکم‘‘ ۔راجہ: ’’نہیں صمدوعام لوگ بڑے مخلص اور سادہ ہوتے ہیں وہ  اپنے قائد کو کوئی آسمانی شے سمجھتے ہیں ، وہ اُسکی ہر اچھی اور بری بات پر ایمان لاتے ہیں، ملک اور قوم کی ترقی میں قائد کا کردار اہم ہوتا ہے وہ ان کی روحانی اور اخلاقی تربیت بھی کرتا  ہے، وہ اپنی دوربین نگاہ سے ملک کو ایک روشن مستقبل بھی فراہم کرتاہے، ہر قو م اپنے قائد کی سوچ کے ارد گرد گھومتی ہے لیکن کیا کہیں ، بقول جون ایلیاؔ ایک  ہی   حادثہ  تو   ہے،    اور   وہ  یہ  کہ آج تک نہ بات کہی  گئی اور نہ  سنی  گئیدن ڈھلتا جا رہا تھا، ان دوستوں کی دل کی ڈھڑکیں  بے ترتیب ہو رہی تھیں، دبے قدموں م سے وہ جھیل ڈل کے کنارے چہل قدمی کے انداز میں اپنی لمبی سا نسوں کو  کنڑول کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کی طرف ل لوٹ رہے تھے۔ ادھر جھیل ڈل میں ڈوبتا ہوا سورج اپنا خوبصورت عکس پیش کر رہا تھا، ادھر راجہ کی زبان پر یہ اشعار جاری تھے کہ   خاموشی   سے  ادا ہو رسم  دوری کیوں کو  ئی  ہنگامہ بر پا کریں ہم   یہ بستی ہے  مسلمانوں   کی بستی  یہاں کار مسیحا  کیوں  کریں ہم 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا