مسلمانوں کو آپسی اختلافات بھُلاکراَناپرستی کے قول سے باہرآنا چاہئے

0
49

سابق مرکزی وزیرڈاکٹر کے۔رحمن خان سے خصوصی انٹر ویو
محمد اعظم شاہد
کے رحمن خان کا تعلق ریاست کرناٹک سے ہے جہاں کے وہ پہلے مسلم چارٹیڈ اکاؤنٹینٹ ہیں۔ کرناٹک لیجسلیچر کونسل کے چیئرمین، راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین، یوپی اے سرکار میں دو مرتبہ کابینہ کے وزیر رہ چکے ہیں۔سوال: ریاست کرناٹک کے مسلمانوں کی مجموعی صورتحال پر آپ کیا کہنا چاہیںگے؟رحمن خان: ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ریاست کرناٹک کے مسلمان معاشی، تعلیمی، معاشرتی بلکہ ہر لحاظ سے بہتر اور آگے ہیں۔ ان میں تعلیمی بیداری بھی آئی ہے۔اس طرح ملک کی معاشی ترقی میں وہ بھی حصہ دار بن رہے ہیں، ان میں سیاسی شعور اور بیداری بھی ہے۔عملی سیاست میں سیاسی نمائندوں کا متحرک رول رہا ہے، ریاست میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے موازنہ کریں تو مسلمان ترقی اور بیداری کے لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہیں ، اس پچھڑے پن کیلئے حکومت یا دوسروں کو ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔ جمہوری ملک میں سب کو یکساں مواقع حاصل ہیں  باوجود اس کے کرناٹک کے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کمزور کیا جارہا ہے۔ میری نظر میں صرف ایک تصور ہے اور حقیقت نہیں ہے۔ مسلمانوں میں پسماندگی کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس پسماندگی کو دور کرنے اور خود اعتمادی پیدا کرنے مسلم دانشوران، دینی وسیاسی رہنمائوں نے صحیح رول ادا نہیں کیا ہے۔ یہ سب ایک متحدہ پلیٹ فارم پر نہیں آسکے۔ آپسی اَنا پرستی سے اوپر اٹھ کر انہیں مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی جانب توجہ دینا ہے۔ آپسی اختلافات کو ختم کرکے اجتماعیت کو اپنانا ضروری ہے۔میں نے اپنی 45سالہ عوامی زندگی میں سماجی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں خاطر خواہ رول ادا کیا ہے۔سوال: کرناٹک میں مسلمانوں کی بہتری کیلئے اپنے طورپر آپ نے کیا کیا ہے؟رحمن خان: تعلیمی بیداری اور حصول تعلیم سے کرناٹک کے مسلمانوں کو میں الامین تحریک سے جڑا رہا ہوں، اٹھارہ سال تک میں الامین ایجوکیشن سوسائٹی کا چیئرمین رہا، اس دوران تعلیمی اداروں کا ایک جال سا پھیلتا گیا۔ بنیادی سطح سے پوسٹ گریجویشن تک کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے، مسلم نوجوانوں کو سیول سروسیز امتحانات کی رہنمائی کے لئے انسٹی ٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔سال1983میں جب میں کرناٹک لیجسلیٹیو کونسل کا چیئرمین رہا،بیجاپور میں الامین میڈیکل کالج کے قیام میں بھی میں نے رول ادا کیا۔ اس طرح ملک میں مسلمانوں کا پہلا میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ میں بانی ٹرسٹی کے علاوہ اس کالج کا نائب صدر بھی ہوں، بطور رکن لیجسلیٹیوکونسل اور چیئرمین میں نے مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی پر توجہ دی ہے۔ ریاست کرناٹک کے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی ترقی کے ساتھ ان کے معاشی سدھار کے لئے میں نے امانت بینک قائم کیا جو ترقی کرکے جنوبی ہندوستان کا پہلا اربن کوآپریٹیو بینک ہے جو شیڈول بینک بن گ یا اور ساتھ ہی بینکنگ شعبہ میں اپنے بزنس آپریشن کو کمپیوٹرائزکرنے والا یہ پہلا کوآپریٹیو بینک بن گیا۔ تقریباً پچیس(25) برس جس بینک کی ترقی کے لئے میں نے اپنی توانائیاں لگائیںوہ چند نااہل ملازمین کی دھوکہ دہی سے بینک کی ساکھ متاثر ہوگئی۔سوال: مگر امانت بینک کی ناکامی کیلئے آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے؟رحمن خان: دیکھئے! بینک میں بدعنوانی اور فراڈ بینک کے چند ملازمین کی غیرذمہ داری سے ہوا۔چونکہ اُن دنوں میں بینک کا صدر تھا، اس صورتحال کیلئے اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے میں بینک کے عہدے سے مستعفی ہوگیا۔ میرے بعد نئے مینجمنٹ والوں نے میرے کام کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔ بینک میں دھوکہ دہی کے باعث ہونے والے مالی نقصان کے پیش نظر ریزروبینک نے عارضی طورپر بینک کے بزنس آپریشن پر روک لگادی ہے۔ میں نے بینک کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ امیدہے کہ نئے مینجمنٹ کے زیراہتمام بینک عنقریب اپنی سابقہ رفتار سے ایک بار پھر کام کرنے لگے گی۔ سیاسی حاسدین نے میرے امیج کو مسخ کرنے مجھ پر الزامات لگائے تھے ،حکومت کے جانب سے تحقیقات سے حقیقت سامنے آئی ہے۔ یہ بینک میرا خواب تھا اور مسلمانوں میں معاشی استحکام قائم کرنا میری ترجیحات میں شامل کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔سوال: اکثر آپ مسلمانوں میں مثبت فکر وعمل کی باتیں کرتے ہیں، اس ضمن میں کچھ ٹھوس کام کیا ہے آپ نے؟رحمن خان: دیکھئے! میں تقریباً چالیس برسوں سے مسلمانوں میں صالح فکر وعمل کو یقینی بنانے کے مشن میں جُٹا ہوا ہوں۔ سال 1975ء سے مجھے اس مشن کو آگے بڑھانے ایک معیاری اردو اخبار نکالنے کا خیال ہوا۔ اور اس طرح میں نے جناب محمود ایازؔ کا اخبار روزنامہ سالار سال1978ء میں Take over کرلیا۔ اس اخبار کے ذریعہ مسلمانوں کی ذہن سازی کیلئے صداقت پر مبنی غیر جانبدار ، بے لاگ خبرنگاری اور تبصروں اور تجربات کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ تقریباً چار برس اس کا مدیر رہا۔ اخبار کی جدید کاری کے لئے کئی قابل تقلید اقدامات کئے۔ میرا ماننا ہے کہ اخبار کو عوام کا ترجمان بن کر فعال رول ادا کرنا ہے۔ کئی پرانے اردو اخبارات ختم ہونے لگے، اس دوران میں نے ذاتی ملکیت سے اخبار کو ایک ٹرسٹ کے حوالے کرکے کامیابی کی نئی منازل سے ہم آہنگ کیا ہے۔ اس ٹرسٹ کے صدر کے حیثیت سے آج بھی میں اردو صحافت کو اقدامات پر مبنی ذمہ دار صحافت کے فروغ کے لئے ’’سلار‘‘ کو باوقار بنانے کی کوششوں میں لگاہوا ہوں۔سوال: ریاست کرناٹک کے مسلم نوجوانوں کو ترقی سے جوڑنے کیا لائحہ عمل آپ دیکھتے ہیں؟رحمن خان: ہمارے مسلم نوجوانوں میں احساسِ کمتری دور کرکے یہ احساس دلانا ہے کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہمارا مذہب بھی محفوظ ہے۔ اسلام ترقیٔ انسانی کی حمایت میں ہے ، آج کامسلم نوجوان کشمکش میں مبتلا ہے۔ ایک طرف دینی قیادت مسلکوں میں بٹی ہوئی ہے اور سیاسی قیادت آپسی ا ختلافات میں مبتلا ہے اور ہمارا دانشور طبقہ قوم سے دوری اختیار کئے ہوئے ہے۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں کی الجھن اور زیادہ بڑھ رہی ہے، مایوسی میں کھوئے ہمارے نوجوانوں کو صحیح ذہنی تربیت سے آراستہ کرنے کا اب وقت آگیا ہے۔ دانشور ، علمائے کرام اور سیاسی قائدین ملکر نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کریں تو ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔ سوال: کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کو بااختیار بنانے Empowerment کی آپ باتیں کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں آپکی کوششیں کیا رہی ہیں؟رحمن خان: جب 1993ء میں مجھے کرناٹک اقلیتی کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا میں نے دس لاکھ اقلیتوں کے Familiesکو یعنی پچاس لاکھ افراد کا فرداً فرداً انکی تعلیمی، سماجی اور معاشی صورتحال جاننے کے لئے سروے کروایا۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ملک کا پہلا Door to doorسروے تھے جس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں پسماندگی، دیگر اقلیتوں  سے کہیں زیادہ ہے۔ اقلیتی کمیشن نے اپنی سفارشات میں دستور کے آرٹیکل 14اور 15کے تحت اقلیتوں کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات پر توجہ مبذول کروائی۔سفارشات کو ریاستی حکومت (اسوقت شری ویرپّا موئیلی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے) نے قبول کرتے ہوئے پسماندگی سے دوچار مسلمانوں کیلئے ریاست میں تعلیم اور ملازمتوں میں چار فیصد(4%) ریزرویشن کے احکامات جاری کئے۔ اسطرح مسلم نوجوانوں کو ترقی سے جوڑنے یہ ایک عہدساز اقدامات ہے اور اس پر میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنے کام کے ساتھ انصاف کیا ہے۔سوال: ملک کا موجودہ منظرنامہ اور ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا مشاہدہ؍تجزیہ ہے؟رحمن خان: ملک کی آزادی کے 72سالوں میں ہندوستانی مسلمان کبھی بھی اپنے آپ کو اتنا لاچار مایوس اور بے بس محسوس نہیں کیا تھا جتنا کہ آج وہ احساس کمتری میں مبتلا ہے۔ تقسیم ملک اور حصول آزادی کے بعد مسلمان ہندوستان میں آزمائشوںسے گزرتا آیا ہے۔ معاشی تعلیمی پسماندگی، نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں تعصبات، وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ فسادات مسلمان سہتا آیاہے، مگر نریندر مودی کے دور حکومت میں احساس عدم تحفظ اور رواداری سے مسلمان دوچار ہے، ان چار سالوں میں ملک کی ایک بڑی اقلیت اس طرح کے احساس کا شکار ہے جو ملک کے تحفظ کے لئے بھی خطرہ ہے۔ ان حالات کے پیدا کرنے والے کون ہیں یہ سب جانتے ہیں۔ اس ملک میں مسلمان اقلیت میں تو ہیں مگر کوئی بھی حکومت یا قوم انہیں فراموش (Ignore) نہیں کرسکتی ہندوستان میں ہر چھٹواں شہری مسلمان ہے، لگ بھگ 20کروڑ اس ملک کے باشندے (مسلمان) کسی بھی طرح اقلیت نہیں ہوسکتے۔سوال: ملک کی تقسیم نے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے نئے مسائل پیدا کردیئے ، اس ضمن میں آپ کیا کہنا چاہیںگے؟رحمن خان: ملک کا بٹوارہ دراصل مذہب کی نہیں قومیت کی بنیاد پر ہوا تھا۔ بالخصوص شمالی ہندوستان کے مسلمان جنہوں نے بٹوارے کی درندگی دیکھی برسوں تک اپنے آپ میں احساس کمتری محسوس کرتے رہے، جو مسلمانوں کے سیاسی رہنما تھے وہ پاکستان منتقل ہوگئے صرف مولانا آزاد اور چند لوگ ہی کانگریس میں باقی رہ گئے۔ تقسیم کے بعد پہلے پندرہ بیس برس میں ملک تیز ی سے ترقی کرتا گیا، مگر مسلمان اسکا حصہ دار نہیں بن سکا۔ دوسری قومیں (مذاہب کے لوگ) ترقی کرتے گئے مگر شمالی ہند میں مسلمان کشمکش کا شکار رہے اور اس طرح سماجی معاشی اور تعلیمی پسماندگی سے دوچار رہے۔ کمزور مسلم لیڈر شپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی، تعلیمی پسماندگی نے سماجی معاشی اور سیاسی نمائندگی کی مایوس کن صورتحال پیدا کردی۔ اس طرح مسلمانوں اور دیگر قوموں کے درمیان ترقی کا فرق(Gap) بڑھتا ہی گیا۔ بتدریج مسلمانوں میں سیاسی شعور بھی متاثر ہوتا رہا۔ ہم سیاسی پارٹیوں کے ماتحت ہونے لگے۔ ان 70سالوں میں سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا کردی۔ منظم طریقے سے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے مسلمانوں کو کبھی شریعت کے تحفظ، اردو زبان کے تحفظ، عدم رواداری اور تحفظ جیسے مسائل میں الجھاکر مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے۔سوال: مسلسل آپ چار معیادوں کے لئے راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوئے، مسلمانوں سے جُڑے مسائل کی یکسوئی کے لئے آپ نے اپنی نمائندگی کا حق ادا کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں؟رحمن خان: جی ہاں، راجیہ سبھا سے تقریباً چوبیس برس مسلسل میں جڑا رہا، اقلیتوں اور مسلمانوں کے حوالے سے میں مسائل کی یکسوئی کے لئے مباحث میں برابر حصّہ لیتا رہا۔ دو مرتبہ راجیہ سبھا میں ڈپٹی چیئرمین بھی رہا، اس دوران ملک کے اوقافی اداروں کی کارگر دیکھ بھال ، اوقافی املاک پر غیر قانونی قبضہ جات کے تدارک اور وقف بورڈوں کی بہتر کارکردی کی یقینی بنانے اوقاف سے متعلق جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی JPCکی تشکیل کیلئے حکومت کو صلاح دی۔ اس مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا رکن رہا اور دو مرتبہ اسکا صدر بھی نامز ہوا۔ ملک بھر وقف بورڈوں  کا دورہ اور ریاستوں میں اہم اوقافی اداروں کا سروے کرنے کے بعد حکومت چند کو اوقافی املاک کا غلط استعمال، غیرقانونی قبضہ جات، اوقافی بورڈ اور اداروں کی ذمہ دارانہ کارکردگی کیلئے سفارشات پیش کیں۔ یہ تمام سفارشات اوقاف ترمیمی ایکٹ 2013ء میں شامل کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ RTEایکٹ میں دستور کے آرٹیکل 30کے تحت ترمیم کے لئے میں نے کوششیں کیں جس کے تحت اب اقلیتی تعلیمی اداروں کو 25فیصد اپنی سیٹیں رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے تحت مختص کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس طرح اقلیتی تعلیمی اداروں کے مفاد کے تحفظ کیلئے جتن کئے۔سوال: جبکہ ملک میں اوقافی املاک کی بہتات ہے اس کے کارگر استعمال کیلئے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں ہوسکا ؟رحمن خان: اقدامات توہوئے ہیں، مرکز میں جب میں وزیراقلیتی امور رہا اس ضمن میں میں نے اوقاف سے متعلق  JPCکی اور سچر کمیٹی سفارشات کی بنیاد پر NAWADCO  نیشنل وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا جس کے تحت قومی سطح پر اوقافی جائیدادوں کے صحیح استعمال اور ان سے ملنے والی آمدنی کی مسلمانوں کی ترقی کیلئے استعمال کرنے پر توجہ دی گئی تھی۔ حکومت کی تبدیلی کے باعث یہ کام مزید آگے بڑھ نہ سکا۔ اس کے علاوہ اوقافی املاک پر ناجائز قبضہ جات سے سختی سے نمٹنے ہم نے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا تھا جو ابھی تک منظور نہیں ہوا ہے۔ اس بات کا بھی ذکرضروری ہے کہ پہلی بار ہماری حکومت نے میری ایماء پر اوقافی جائیدادوں کو لیز پر دینے کے سلسلے میں نیا قانون نافذ کیا جس کے تحت مارکیٹ ویلیوز کے تحت لیز معاہدوں کے لئے احکامات جاری کئے تاکہ اوقافی جائیدادوں کا منظم طور پر تحفظ اور ترقی ممکن ہوسکے۔سوال: امور اوقاف وحج سے آپ کو گہری دلچسپی رہی ہے، ان شعبوں کی ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟رحمن خان: جی ہاں!  اُمور اوقاف اور حج کے شعبوں میں اصلاحات کے لئے موجودہ حالات کا جائزہ لینے میں نے اپنی نگرانی میں کئی ایک کانفرنس اور سیمینار منعقد کئے۔ امور حج میں عازمین کی بہتر سہولیات کیلئے ملیشیاکے نظام ’’تبوک حاجی‘‘  کے نقوش پر سابقہ حکومت  کے دوران اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو فیزیبلیٹی رپورٹ پیش کرنے کہا تھا۔ رپورٹ مل گئی تھی جس پر عمل آوری ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔ وزارت سے سبکدوش ہونے کے بعد سال 2016ء میں بنگلور میں ہندوستان میں اوقاف پر ایک قومی سیمینار کا میں نے اہتمام کیا تھا۔ سیمینار کا نتیجہ Bangalore Declerationبنگلور ڈکلریشن ہے جس کا اہم مقصد مسلمانوں میں اوقافی املاک کے تحفظ اور ترقی سے متعلق بیداری عام کرنا ہے اور اب اسی سیمینار کی کڑی کے طورپر میں نے اوقاف فائونڈیشن آف انڈیا، قائم کیا ہے جس کے تحت قومی سطح پر  بیداری وتحفظ کے ساتھ ساتھ ایک ’’واچ ڈاگ‘‘ کی طرح اوقافی جائیدادوں کے غلط استعمال پر نگاہ رکھے گا اور متعلقہ حکام کو آگاہ کرتا رہے گا۔ میں تا دم آخر امور اوقاف اور حج میں بہتری کیلئے رضاکارانہ طورپر متحرک رہوںگا۔سوال: ملک میں مسلم قیادت کا بحران عرصۂ دراز سے چل رہا ہے، اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟رحمن خان: ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں نے ایک منظم طریقے سے مسلم لیڈر شپ کو ابھرنے سے روکا اور کمزور لیڈرشپ کو ان پر مسلط کردیا گیا ہے۔ کسی بھی شعبہ کا لیڈر وہ اسی وقت قوم اور ملت کی خدمت کرسکتا ہے جب وہ قوم سے ابھرتا ہے اور جسے قوم کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ مگر مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اکثر سیاسی پارٹیاں انفرادی اور قائدانہ صلاحیتوں کا جائزہ لئے بغیر ہی چند مسلم امیدواروں کو انتخابات کے میدان میں اتارتی ہیں۔ کامیاب ہونے کے بعد وہ ایم ایل اے یا منسٹر بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ by default  مسلمانوں کا لیڈر بنا کر مسلمانوں پر تھوپ دیا جاتا رہا ہے، اکثر یہ دیکھا نہیں جاتا ایسے امیدواروں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی فطری صلاحیتیں ہیں بھی کہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کے اس طرز فکر وعمل ہی کے باعث مسلمانوں میں قیادت کا بحران عرصہ داراز سے ہوتا آرہا ہے۔ اس طریقہ کار میں تبدیلی کی جانب سیاسی پارٹیاں اور سرکردہ مسلم قائدین کو توجہ دینی چاہئے۔سوال: ملک کے مسلمانوں کو موجودہ تناظر میں کیا ضروری ہے کہ وہ اپنی سوچ بدلیں؟رحمن خان: جی ہاں!  اب وقت آگیاہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ یہ مانیں کہ یہ ملک ہمارا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ دوسروں کا۔ہمارا آئین ہمیں یکساں حقوق دیتا ہے۔ مسلمانوں نے اس عظیم ملک کے لئے قربانیاں دی ہیں، ملک کی ترقی میں حصہ دار ہیں یہ احساس ہمارے نوجوانوں میں ہمیں عام کرنا ہے، شرپسندوں کی سازشوں سے ہمیں ڈرنے کی ضرور ت نہیں ہے، ہمارا آئین ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا تحفظ یقینی ہے۔ خدانہ کرے جس دن یہ آئین نہیں رہا تو یہ ملک بھی نہیں رہے گا۔ اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے وطن عزیز کی کثرت میں وحدت (Unity in Diversity)کو سمجھنا چاہئے۔ یہاں مختلف مذاہب ، الگ الگ بولیاں ، الگ الگ زبانیں اور عقائد کے باوجود ہم ایک عظیم ملک ہیں۔ جب ہم اس خصوصیت کو سمجھ جائیںگے تو اچھے ہندوستانی اور اچھے مسلمان، اچھے انسان بھی بن جائیںگے۔ ہمارے اکابرین، علماء کرام کو چاہئے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ملک کی عظمت کا احترام کرنے کا قرینہ بھی سکھلائیں۔ وطن عزیز کی ہمہ رنگ تہذیب وثقافت کسی بھی طرح سے ہمارے مذہبی امور میں دخل اندوز نہیں ہوپائے گی۔سوال: ان دنوں مسلمانوں کے مذہبی امور اور شریعت میں بے جا مداخلت سے مسلمان بے چینی محسوس کرتے ہیں اور مسلم لیڈر شپ بے اثر ثابت ہورہی ہے، آپ کیا کہنا چاہیںگے؟رحمن خان: ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے۔ یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا دین دیگر مذاہب کے احترام کا بھی درس دیتا ہے، انسانیت کی قدر کرنا سکھاتا ہے، ہمارے مذہبی معاملات میں جب کبھی بھی مداخلت ہوتی ہے تو ہماری عدالتیں فعال ہیں وہ ہر شہری کو اسکا جائز حق دلواسکیں اور اس کی مذہبی آزادی کی بھی حفاظت کرسکیں۔ حال ہی میں جو طلاق ثلاثہ کا جو تنازعہ کھڑا کیا گیا ہے جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اس پر حکومت اپنے فائدے کیلئے جس طرح مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مداخلت کررہی ہے، اس معاملے میں بڑی معذرت کے ساتھ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ انسانیت کے دائرے میں وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھے ہوئے ہم نے صحیح فیصلہ نہیں لیا ہے،  قوم کی صحیح رہنمائی نہیں کی ہے۔ اب صورتحال افسوس ناک طور پر یہ آئی ہے کہ آج کورٹ اور حکومت شریعت کو (define) ہمیںسمجھا رہی ہے۔ کیا یہ کام شریعت کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری جس ادارے پر ہے وہ یہ ذمہ داری سے انجام نہیں دے سکتے اور شرعی معاملات کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات نہیں کرسکتے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس ضمن میں مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ظاہر ہے مسلم قیادت کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے۔سوال: مسلمانوں میں اعتماد کی بحالی کس طرح ممکن ہے؟رحمن خان: مسلمانوں میں جہاں دینی شعور ہے وہیں ملک کے معاملات اور آئین کی عظمت، انفرادیت اور افادیت کی تعلیم بھی ضروری ہے، ہمارے دینی مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ملک کے آئین کی تعلیم کا بھی انتظام کیا جائے تاکہ ہمارے بچے ، ہمارے حقوق اور فرائض کا علم حاصل کرسکیں اور اچھے ہندوستانی بن کر ملک کی ترقی کا حصہ بن پائیں۔ کیونکہ مسلمان ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ ہے جس کی شمولیت کے بغیر یہ ملک جمہورنہیں ہوسکتا۔سوال: اکثر مسلم عوامی نمائندے اپنے طبقے کی امیدوں پر نہیں اترتے،اس کی کیا وجوہات ہیں؟رحمن خان: مختلف سیاسی جماعتوں کے مسلم نمائندے یہ سمجھیں کہ وہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کے مفادات کے تحفظ اور ان کے مسائل کی یکسوئی کیلئے اپنے طبقے کیلئے جوابدہ ہیں۔ ان نمائندوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں نمائندگی کے جو مواقع ملے ہیں وہ مسلمان ہونے کے ناطے ملے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے انہیں آزادی ملنا چاہئے۔سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہمارے مسلم نمائندوں میں جب یہ احساس جاگ اٹھے گا کہ ہمیں بلا خوف ہمارے معاشرے کی نمائندگی کرنی ہے تو مسلمانوں کے مسائل کا تدارک ممکن ہوسکے گا۔ مسلمانوں کو بھی یہ چاہئے کہ اپنے اداروں کے زیر اہتمام اپنے نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے جواب دہی کے اجلاس منعقد کریں۔سوال: مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت پر آپکی کیا رائے ہے؟رحمن خان: مسلمانوں کو آپسی اختلافات کو بھلاکر، انا پرستی کے قول سے باہر آنا چاہئے۔ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا مشکل ہی سہی ہمیں متحد ہوکر ہمارے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالنا ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی یہ جو روش انا پرستی کے باعث ہمارے معاشرے میں درآتی ہے اس سے چھٹکارا پانا ہے، ورنہ ہم کمزور قوم بن کر رہ جائیںگے۔ مایوسی کے دائروں سے نکل کر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کئے بغیر غیروں کوذمہ دار ٹھہرانے کی روش سے آزاد ہونا چاہئے۔سوال: ملک میں آئے دن ہجومی تشدد نے مسلمانوں میں دہشت عام کردی ہے۔ آپ کے تاثرات ؟رحمن خان: آنے والے الیکشن کے مد نظر حکومت ہجومی تشدد کو روک نہیں پارہی ہے، یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے جہاں ملک میں سیکولرزم کو کمزور کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں، میرا یہ مشورہ ہے کہ پورے ملک میں مسلمان دوسرے قوموں کے مثبت اور اچھی سوچ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر ان عناصر کا مقابلہ کریں۔ صرف قانون کے ذریعہ ہی اس ماحول کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ماحول کو بدلنا ہے تو صحیح سوچ رکھنے والے دیگر برادران وطن کے ساتھ ملکر ہمیں یہ لڑائی لڑنا چاہئے۔ ہماری بڑی بڑی تنظیموں کو آگے آنا چاہئے اور باہمی یگانگت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔سوال: مسلمان کو آج بھی ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے، ایسا کیوں ہے۔؟رحمن خان: ہم میں انتشار ہے، ہم سیاسی پارٹیوں کے غلام ہوگئے ہیں، ہمارے ووٹ خود ہم بٹنے دیتے ہیں۔Polarisationکے شکارہم خود ہوتے رہے ہیں، سیاسی حیثیت کوہماری منوانے کیلئے سیاسی ہتھگنڈوں سے ہمیںباز رہنا چاہئے اور متحد ہوکر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے، ہمارا طرز فکر وعمل اس طرح سنجیدہ اور دور اندیش ہو، کوئی بھی سیاسی پارٹی ہمیں برائے نام اپنے مفاد کے لئے آلۂ کار نہ سمجھے۔
   [email protected]     Cell 9986831777    

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا