ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر : بھارت کے دستور کی شان

0
114

 

 

 

 

 

ڈاکٹر غضنفراقبال

ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر کا نام بچو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ ان کا نام آج کی تاریخ میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کا جنم 14/اپریل 1891 کو مہار ذات کے ایک غریب خاندان میں مہائو مدھیہ پردیش میں ہوا تھا۔ ان کے والد کا نام رام جی اوران کی والد ہ کا نام بھیما بائی تھا۔ ان کا خاندانی نام سنکپال(Sankpal) تھا۔ یہ خاندان اصل میں موضع انباواڑے (Amba Wade) سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لیے اس خاندان کے لوگ اپنے نام کے ساتھ انباواڑے کر (Ambawadekar) بھی لکھتے۔ ڈاکٹر بھیم رائو انباواڑے کر سے امبیڈکر کیسے ہوئے اس کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ وہ اپنے والدین کی 14ویں اولاد تھے۔ ماں باپ لاڈ سے بھیم رائو کو بھیوا (Bhiva) کہتے تھے۔ کم سن بھیوا ابتدائی دورمیں ستارا کے جس اسکول میں جایا کرتا وہاں ایک برہمن اُستاد تھے جن کا خاندانی نام امبیڈکر تھا۔ برہمن استاد بھیوا سے بہت محبت کرتا، دوپہر کے کھانے کی چھٹی میں بھیوا کو اپنے گھر جانا پڑتا تھا جو بہت دور تھا۔ امبیڈکر کو یہ پسند نہ تھا اس لیے خود کے توشہ دان سے روزانہ کچھ روٹی، کچھ پھل کو بھیوا کو دیتے تھے۔ بھیوا کے ہاتھ چھوئے بغیر اوپر سے یہ چیزیں بھیوا کے ہاتھوں میں ڈال دیتے تھے۔ اُستاد برہمن ہونے کی وجہ سے بھیوا کو چھوتے نہیں تھے۔ اپنی آئندہ کی زندگی میں بھیم رائو امبیڈ کر اپنے استاد کے اس رویہ اور مہربانی کو فراموش نہ کرسکے۔ جب بھی وہ اپنے استاد کو یاد کرتے ان واقعات کو یاد کرتے تو ان کا گلہ بھرجاتا، آنکھوں میں آنسو آتے۔ ایک دن یوں ہوا تھا برہمن اُستاد جن کا نام امبیڈ کر تھا بھیوا سے کہا تھا کہ اس کا خاندانی نام امباواڑے کر کچھ بے تکا ہے کہا کہ ’’اس نام سے اچھا تو میرا نام امبیڈکر زیادہ مناسب ہے۔ اس لیے تم بھی میرا نام امبیڈکر ہی اپنالو‘‘۔ یہ کہہ کر امبیڈکر لکھ دیا۔ اس طرح بھیوا امباواڑے کر سے بھیوا امبیڈ کر ہوگیا۔ پھر انھوں نے اسی نام یعنی بھیم رائو امبیڈکر کے نام سے ساری دنیا میں شہرت پائی۔
بھیم رائو امبیڈکر کو ابتدائی تعلیم میں بڑی دقتیں پیش آئیں۔ کہاجاتا ہے کہ اسکول میں امبیڈکر کو پانی بھی نصیب نہیں ہوتاتھا۔ پانی کے بغیر انھوںنے کئی دن گذارے۔1905 میں ڈاکٹر امبیڈکر کے والد نے انھیں مراٹھی ہائی اسکول پھر سرکاری الفنسٹن ہائی اسکول میں داخلہ کرایا۔ یہاں سے 1907 میں امبیڈ کر نے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ اس امتحان میں انھوںنے سات سو پچاس میں سے چھ سو بیاسی نمبروں کے ساتھ امتیازی مقام حاصل کیاتھا۔ جس بنا پر ان کے اعزاز میں ایک جلسہ کا انعقاد کرکے انھیں استقبالیہ دیاگیا۔ اس جلسہ میں ان کو ’’لائف آف گوتم‘‘ کتاب تحفہ میں دی گئی تھی۔ امبیڈکر نے الفسٹن کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان اچھے نمبروں سے کامیاب کیا۔ 1912 میں انھوںنے بمبئی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اس دوران انھیں مہاراجہ بڑودہ سے پچیس روپے ماہانہ کا وظیفہ ملنے لگا تھا۔لہٰذا انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ سے واپسی کے بعد انھیں ریاست بڑودہ میں ملازمت مل گئی۔ تاہم چھوت چھات، اونچ نیچ اور بھید بھائو کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد بمبئی کے انگریز گورنر کی مہربانی سے انھیں ایک کالج میں پروفیسر کا منصب حاصل ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد انھوںنے مزید تعلیم حاصل کرنے کا عزم کیا اور خوداپنے اخراجات سے انگلستان جانے کا فیصلہ کیا۔ 1920 میں وہ لندن چلے گئے۔ لندن یونیورسٹی سے انھوںنے ڈی ایس سی کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد چند ماہ کے لیے وہ جرمنی گئے جہاں انھوںنے بون یونیورسٹی میں معاشیات کی تعلیم حاصل کی۔ 1917میں کولمبیا یونیورسٹی سے National Development for India A Historical and Analytical Studyکے عنوان سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ انھوںنے قانون، سیاسیات ومعاشیات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر کو بچپن ہی سے نصاب کی کتابوں کے علاوہ نئی نئی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کے والد ان کے مطالعہ کا شوق پورا کرنے کے لیے قرض لینے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ گھر کے زیورات بھی فروخت کرنے اور رہن رکھنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ یہی وجہ رہی کہ امبیڈکر کی ذاتی لائبریری اتنی بڑی تھی کہ اسے دیکھ کر ایسامحسوس ہوتا تھا کہ گویا یہ کوئی بین الاقوامی لائبریری ہو۔ اس لائبریری کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ایک بھی کتاب ایسی نہیں تھی کہ اس میں امبیڈکر کے فٹ نوٹ پنسل سے نہ لکھے گئے ہوں۔ ایسے تو بہت سے لوگ مل جائیں گے جن کا مطالعہ وسیع ہو، لیکن اس مطالعے میں تنقیدی رجحان کی بھی آمیزش ہو، ایسے بہت کم لوگ ملیں گے۔ ڈاکٹر امبیڈکر زبردست صلاحیتوں کے مالک ایک غیر معمولی انسان تھے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کی ابتدائی زندگی کی بات ہے بمبئی میں انھیں غریب مزدوروں کی کالونی میں گھر ملاتھا جس میں صرف ایک کمرہ تھا جو باروچی خانہ، غسل خانہ، خواب گاہ اور مطالعہ گاہ تھا جس میں دو افراد کے لیے بھی ٹھیک سے سونے کی جگہ نہیں تھی۔ اسی کمرے میں چاروں طرف گرہستی کا سامان رکھا ہوا تھا۔ اتنے چھوٹے کمرے میں پورا کنبہ کس طرح بسر کرتا ہوگا، یہ سوچا ہی جاسکتا ہے۔ ایسے ماحول میں پڑھائی لکھائی ایک مذاق لگتی ہے۔ لیکن ان کے والد نے اس کا بھی ایک راستہ نکالا۔ وہ یہ کہ شام کو پہلے بھیم سوجائیں اور دو بجے رات میں والدانھیں اٹھادیں گے۔ اس کے بعد صبح ہونے تک یہ اپنا مطالعہ کریں۔
ڈاکٹر امبیڈکر کے بچپن کا ایک واقعہ ہے ۔ گرمیوں کے دن تھے۔ایک دن وہ اپنے بڑے بھائی اور چھوٹے بھتیجے کے ساتھ اپنے والد سے ملنے کے لیے گورے گائوں گئے۔ جہاں ان کے والد خزانچی ہوا کرتے تھے۔ جب یہ ڈیوٹی سے ستارا ریلوے اسٹیشن پہنچے تو ان کے والد کسی وجہ سے انھیں لینے نہ آسکے۔ نئی جگہ، نیا ماحول، سب کچھ نیا، کسی اور کو جانتے بھی نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے کافی پریشان ہوئے۔ آخر کار انھوںنے اپنی پریشانی اسٹیشن ماسٹر کو بتائی۔ اس نے ایک بیل گاڑی کا انتظام کر دیا۔ گاڑی بان اونچی ذات کا تھا اسے جیسے ہی پتا چلا کہ یہ بچے اچھوت ہیں اس نے انھیں فوراً بیل گاڑی سے اُتاردیا۔ اگرچہ انھوںنے اسے دوگنا کرایہ دینے کی پیش کش کی۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔ انتہا یہ کہ راستے میں جب انھیں پیاس لگی تو کسی نے پانی نہیں پلایا۔ یہ تینوں بھوکے پیاسے پیدل چل کر آدھی رات میں اپنے والد کے پاس پہنچے۔ تب ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اچھوت ہے اور سماج میں نفرت کی نظر سے دیکھا جاتاہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کے بچپن میں سماج کے لوگ ان سے خراب سلوک کیا کرتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ انھیں شدید پیاس محسوس ہوئی تو انھوںنے ایک کنویں سے پانی پی لیا لیکن جیسے ہی کچھ لوگوں کو اس بات کا پتا چلا ان لوگوں نے ڈاکٹر امبیڈکر کی بے رحمی کے ساتھ پٹائی کردی۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ جب یہ اسکول جارہے تھے۔ اتفاق سے اس دن ان کے ساتھ بڑے بھائی نہیں تھے اور بارش کا بھی کوئی امکان نہیں تھا ورنہ انھیں تنہا اسکول نہ جانے دیا جاتا۔ ابھی انھوںنے آدھا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ تیز بارش سے بچنے کے لیے انھوںنے پاس کی ایک دیوار کے نیچے پناہ لینی چاہی،لیکن اس گھر کی ایک عورت انھیں دیکھ رہی تھی، اسے معلوم تھا کہ یہ اچھوت ہیں ۔ابھی یہ ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہو پائے تھے کہ اس عورت نے انھیں برستے پانی میں دھکا دے دیا جس سے یہ کیچڑ میں جاگرے اوراُن کی کتابیں کیچڑ میں لت پت ہوگئیں۔
ڈاکٹربھیم رائو امبیڈکر اپنی زندگی کا تین شخصیات کو اپنا راہ نما مانتے تھے۔ کبیر، جن سے انھوںنے بھگتی بھائونا اخذ کی۔ جیوتی رائو پھلے سے انھوںنے اونچی ذات کے مظالم کے خلاف آواز اُٹھانا سیکھی، مہاتما گوتم بدھ، جن سے ان میں اچھوتوں کی ترقی کے لیے لڑنے کا جذبہ بیدار ہوا۔ اس کے علاوہ وہ ڈارون اور کارل مارکس سے بھی بے حد متاثر تھے۔ کارل مارکس اور گوتم بدھ کے درمیان فرق بس یہ ہے کہ مارکس کا خیال تھا کہ اس وقت کے سماج میں غریبوں کا استحصال ہوتاتھا اور گوتم بدھ کا کہنا ہے کہ دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے۔ دکھ سے گوتم کی مراد غربت تھی۔ امبیڈکر نے بڑے افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ جس ملک میں مہاتما بدھ پیدا ہوئے اسی ملک کے لوگوں نے ان کے مذہب کو بھلادیا۔ میںاس ملک سے مذہبی تفریق اور اونچ نیچ مٹا کر رہوں گا۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کا یقین تھا کہ مذہبِ انسانیت کو اختیار کیے بغیر نہ تو یک جہتی قائم رہ سکتی ہے اور نہ جمہوریت ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ مذہب، ذات، زبان اور علاقہ پرستی سے بلند ہو کر قومی یکجہتی کو مستحکم کرنے پر زور دیتے رہتے تھے۔ وہ ایک روشن خیال، انسانیت دوست سماج کے خواب دیکھتے تھے۔ انھوںنے اپنی پوری زندگی دبے کچلے اور پسماندہ طبقوں کو ان کے حقوق دلانے، مذہبی کٹر پن دور کرنے کے لیے وقف کردی۔ دراصل وہ بھارت کے پسماندہ طبقات کے مصلح اور ایک سچے وطن پرست تھے۔ وہ سیاسی آزادی اور سماجی برابری کے مابین ایک مضبوط رشتے کے قائل تھے۔
ڈاکٹر امبیڈکر نے دوشادیاں کیں تھیں۔ ان کی پہلی شادی چودہ برس میں رما بائی سے ہوئی۔ 1935 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ 1948 میں ان کی دوسری شادی ڈاکٹر شاردا کبیر سے ہوئی جو ایک برہمن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد وہ ڈاکٹر سویتا امبیڈکر ہوگئیں اور زندگی کے آخری حصہ میں ’مائی‘ کہلائیں۔ ان کاانتقال 29/مئی 2003 میں ہوا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی پہلی بیوی سے اولادیں ہوئیں مگر صرف ایک بیٹا یشونت زندہ رہا۔ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر بھیم رائو کا تعلق سماج کے ایسے طبقے سے تھا جو صدیوں سے سماجی نابرابری، ظلم اور استحصال کا شکار تھا۔ مگر وہ ایک دردمند دل اور ہمت وشجاعت کی دولت لے کر پیدا ہوئے تھے۔ وہ پسماندہ ذاتوں کے لیے جداگانہ انتخابی بندوبست کے وکیل تھے۔اپنے نظریات کو عام کرنے کے لیے انھوںنے ’’موک نایک ‘‘ نام کا ایک اخبار شائع کرنا شروع کیا۔ اس دوران ایک سیاسی جلسے میں ان کی تقریر سے متاثر ہوکر کولہاپور کے مہاراجہ شاہو چہارم نے انھیں دعوت طعام دی۔ ان حالات میں یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا۔ 1936 میں امبیڈکرنے’انڈی پینڈینٹ لبیر پارٹی‘ کی بنیاد ڈالی۔ ان کی نئی جماعت نے 1937 میں مرکزی مجلس قانون ساز کے انتخاب میں حصہ لیا اوران کی حمایت نے 15نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور سیاسی تنظیم ’’آل انڈیا شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن ‘‘قائم کی۔ اسی دوران انھوںنے اپنی تعلیمی مہم بھی جاری رکھی۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے نصیحت کی تھی کہ تعلیم یافتہ بنو، منظم رہو اور جدوجہد کرتے رہو۔ انھوںنے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک تنظیم ’’پیوپلز ایجوکیشن سوسائٹی‘‘ قائم کی تھی۔ بمبئی میں انھوںنے مہاتما بدھ کے نام سے سدھارتھ کالج قائم کیا۔ اسی طرح اورنگ آباد دکن میں مُلند کالج قائم کیا۔ ملند ایک یونانی حکمراں تھا جو مہاتما بدھ کی تعلیمات سے بہت متاثر تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر بہت سے تعلیمی اداروں، فلاحی اداروں اور انجمنوںسے وابستہ رہے۔ تعلیم نسواں کی طرف انھوںنے خصوصی توجہ دی۔ انھوںنے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ’’ بہشکرت‘‘ اخبار جاری کیاتھا۔
بھارت کے آئین کو وضع کرنے کے لیے بہت سی کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں اور ان کمیٹیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈاکٹر امبیڈکر کی صدارت میں 19/اگست1947 کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی جس کے اراکین، کے ایم منشی، الادی کرشنا سوامی ایّر، این گوپال سوامی آینگر، بی ایل متر،محمد سعداللہ، ڈی پی کیتھان تھے۔ سربی این رائو کو اس کمیٹی کا قانونی مشیر مقرر کیاگیاتھا۔ امبیڈکر نے آئین سازی میں اہم کردار ادا کیا اسی سبب انھیں ’’معمارِ آئین‘‘ کہاجاتا ہے۔ وہ بھارت کی آزادی کے بعد بھارت کے اولین وزیر قانون رہے۔ پہلی گول میز کانفرنس میں اچھوتوں کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی۔ 1956 ناگپور میں منعقدہ ایک جلسے میں انھوںنے بدھ مذہب اختیار کیا۔
ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے کتابیں بھی لکھیں۔ ان کی تحریریں اچھوتوں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑادی۔ انھوںنے مراٹھی زبان میں شاعری بھی کی۔ وہ ایک باعمل اور دبے کچلے اور ستم رسیدہ طبقوں کے مسیحا اور اُن کے حقوق کے محافظ تھے۔ نومبر 1946 میں وہ بھارت کی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہاں اپنی پہلی تقریر میں ہی انھوںنے ’’بھارت ایک ہو‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ انھوںنے بھارت کے مظلوم افراد کو انصاف دلانے اوران کی فلاح کے لیے جتنا کام کیا اتنا کام کسی اور دوسرے قومی رہنما نے نہیں کیا۔ حکومتِ بھارت نے ان کے انتقال کے بعد انھیں ’’بھارت رتن‘‘ کا اعزاز دے کر ان کی جو عزت افزائی کی ہے وہ ہر طرح ان کے شایانِ شان ہے۔ ان کے ماننے والوں نے انھیں’’ بابا صاحب‘‘ کا خطاب عطاکر دیا۔
بھارت کے دبے کچلے، کمزور مصیبت زدہ لوگوں اوردلتوں کو بھارت کے آئین میں جگہ دلانے والے ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر نے6/دسمبر1956کو دہلی میں اپنی قیام گاہ پر آخری سانس لی۔ 7/دسمبر1956 کو دادر چوپاٹی ممبئی (مہاراشٹر) میں انتم سنسکار کیاگیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا