غزل

0
92

آفتاب اجمیری

اپنے حْسن کے پیمانے سے تو نے اگر چھلکائی آگ
پی کر تیرے نام کی صہبا دے گی اور دُیائی آگ
پیار کے شعلوں نے رْخ بدلا ، کچھ ایسی بھڑکائی آگ
دو سپنوں میں ایک جوالا بن کر کیوں لہرائی آگ
بھوت بسیرا سرد پڑا تھا ، چاند کا چولہا کیا جلتا
شام کی بوڑھی جادو گرنی ، کسی کے گھر سے لائی آگ
تو ننھی سی چنگاری ہے جو بھڑکے گی اور ابھی
میں واہ راکھ کا ڈھیر ہوں جس سے روٹھ گئی ہر جائی آگ
آزادی کے دیوانوں نے کام کیا بے داری کا
گاؤں گاؤں سے شعلے اْٹھے شہروں میں پھیلائی آگ
دنیا والوں سے کیوں کر ہم پیار کی اْمیدیں کرتے
دنیا والوں نے تو ہر سو نفرت کی بھڑکائی آگ
آپ کے ظلم و جور پہ کتنا صبر و سکوں سے کام لیا
میل ملاپ کی خاطر ہم نے پھر بھی بہت بھائی آگ
آفتاب کے دل کے ارماں آخر جل کر خاک ہوئے
باتوں باتوں میں جب اس نے کلفت کی برسائی آگ

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا