پہلی تپش

0
33

۰۰۰
محمدزبیر مظہر پنوار
(حاصلپور ” پاکستان)
۰۰۰

دور کہیں پہاڑوں اور سمندروں کے پار گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ تیروں کی بارش نیزوں سے بجلی کی سی تیزی سے حملے اور تلواروں سے سر دھڑ سے الگ ہوتے چلے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی سورماؤں کا غرور دہکتے کوئلوں کی راکھ میں بدل گیا۔ راکھ اڑی ہوا میں غائب ہوئی دیوتا بن کر مسلم ہو گئی۔ دور کہیں پہاڑوں اور سمندروں کے پار گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ تیروں کی بارش نیزوں سے بجلی کی سی تیزی سے حملے اور تلواروں سے سر دھڑ سے الگ ہوتے چلے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی سورماؤں کا غرور دہکتے کوئلوں کی راکھ میں بدل گیا۔ راکھ اڑی ہوا میں غائب ہوئی دیوتا بن کر مسلم ہو گئی۔ہر طرف نعشوں کے ڈھیر تھے۔ خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ وہ جن کا گمان تھا ہم دنیا کے سب سے زیادہ مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ نجانے کیوں کسی خوشفہمی میں مبتلاء ہوئے ساری دنیا پہ قبضہ کرنے کی مہم کا آغاز کر چکے تھے۔ ایسی مہم جو دیوانے کا خواب تھی۔۔ بیبی لان سے چلے روم فارس ایشائے کوچک تک اپنے تئیں آپ انقلاب برپا کرتے تیزی سے میری طرف لپکے چلے آ رہے تھے۔  ایسا انقلاب جس میں ” میں نے سنا براہ راست کوئی زیوس دیوتا ملوث تھا۔ خبریں مل رہیں تھیں کہ دیوتا زیوس کو سرخ رنگ سے بیحد محبت تھی۔ سکندر اور اسکی فوجوں کی طاقت زیوس کا غرور تھی۔۔ شاید اسی لیے وہ سب سے بے نیاز ہوئے دھرتی پہ انسانی کھوپڑیوں کی پنیری  لگاتے جا رہے تھے اور خون کو اسی پنیری کی نمود و افزائش میں استمعال کیے جاتے تھے۔ انکا دیوتا زیوس تھا کہ ہر کامیابی پہ پھولے نہ سماتا۔ ویسے بھی وہ دیوتا تھا اور جب کوئی دیوتا ہوا کرتا ہے اسے عام انسانوں سے بھلے سروکار ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ تو صرف عوام کے پیشواء کی مرضی پہ چلتا ہے۔ تعریف و توصیف سننا” اور اس پہ اترانا اسکی شان ہوا کرتی ہے۔ ویسے بھی دیوتاؤں کی ہٹ دھرمی کو تکبیر بنانا اور اسے تکمیل تک پہنچانا لوگوں کا خواب رہا ہے۔بدلے میں چاہے کوئی جانور کی کھوپڑی اڑے یا انسان کی ” کیا فرق پڑتا ہے۔ دیوتا خوش انسان خوش۔زیوس اور سکندر اکثر آپس میں ہمکلام ہوا کرتے تھے مگر زیوس تھا کسی مسٹری کی طرح موجود ہو کر بھی غائب تھا۔ لوگ سکندر کو زیوس کا بیٹا کہتے اور سکندر خود کو زیوس ثانی کہتا اور رجز کہتا کہ تمام زمین پہ بس اسی کو ہی حکمرانی کا حق ہے۔ جبکہ تاریخ کہتی ہے کہ سکندر اور زیوس بھول گئے تھے کہ دنیا میں موجود باقی دیوتا اتنے ہلکے نہیں تھے جنہیں اٹھا کر زمین پہ آسانی سے پٹخا جا سکتا۔۔سرزمین ہندوستان میں داخلے کے وقت اپنی فتوحات کی سرمستی میں سکندر اور زیوس پدھار تو بیٹھے مگر قدم قدم پر میں اور میرے دیوتا انکی پریشانیوں میں اضافہ کرتے رہے۔ گویا یوں ہوا کہ زیوس اور سکندر کی فوجیں تلملا اٹھی۔ چیخ اٹھی۔ یہاں آ کر زیوس صرف خوابوں اور خیالی دنیا تک ہی محدود ہو گیا تھا۔ اسے جتنا پکارا جاتا وہ اتنا ہی پیچھے ہٹتا جاتا۔ سندھو دیوتا کے اس پار زیوس کی بھلے اوقات ہی کیا تھی جبکہ اکیلا سندھو موئن جوداڑو کو نگل چکا تھا۔ زیوس اور سکندر کی قوت ختم ہو چکی تھی۔ کتنے احمق تھے یہ لوگ کہ نہیں جانتے کہ یہاں ہر دوسرا شخص اور عورت سرسوتی کالی شیو براہما جیسے دیوی دیوتاؤں کے اوتار ہوا کرتے ہیں۔ یہاں تو صرف پانچ پانڈو ” کوروں کی فوج کو تہس نہس کر گئے تھے۔ یونانیوں کو یہاں آئے مہینوں گزر گئے تھے۔ بھوک پیاس بیماری سے نڈھال فوج اوپر سے کوئی بھی خاطر خواہ کامیابی سکندر کو نہ ملی۔  بالآخر سکندر نے پھر سے فوج کو اکٹھا کیا اور جنگ کے لیے آخری بار آمادہ کیا۔ کچھ مانے تو کچھ نہ مانے۔ خیر جنگ شروع ہو چکی تھی۔ پورس”  (شیو اور براہما) کے روپ میں لڑا۔۔ سکندر اس بار بھی بیدردی سے لڑا مگر جلد ہی میدان جنگ میں زخمی ہو کر گر پڑا۔۔ عین اسی وقت زیوس نے اڑان بھری اور آسمانوں کے پار کسی مقام پہ سب سے بڑے مقامی دیوتا سے ملاقات کی اور واپسی کی منت سماجت کی۔۔ مقامی دیوتا نے کہا ” ٹھیک ہے چلے جاؤ یہاں سے باحفاظت۔ میں ضمانت دیتا ہوں۔۔ یاد رکھنا کسی دیوتا کے شایان شان نہیں کہ کسی دیوتا اور اسکے بیٹے کو مارے۔ادھر فارس میں زیوس کی خاطر جس پنیری کو سکندر اور اسکی فوج لگا آئی تھی وہاں بھی اگنی دیوتا کا قہر ڈھے پڑا تھا اور محافظین تتر بتر ہوتے چلے گئے۔بالآخر سکندر نے واپسی کا حکم دیا۔ کشتیاں چلیں سکندر نے واپسی کی تیاری پکڑی اور سرحدوں کے پار نکل گئے۔۔ اس وقت میں نے زور سے قہقہ لگایا ” میرے قہقے کی ہی دیر تھی کہ سکندر اور زیوس اپنی ہی فوج کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔۔ تاریخ کہتی ہے کہ سکندر کی کھوپڑی کی پنیری والی جگہہ لوگوں نے ڈھونڈ لی تھی مگر زیوس کی تلاش آج تک جاری ۔۔ اور میں ہاں میں وہی چٹان سے چٹان کی ضربت سے برآمد ہوئی وہ چنگاری ہوں۔ جس نے انسان کو پہلی بار تپش دی تھی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا