میرا قصور

0
42

ڈاکٹر محمد مستمر
ہریانہ اردو اکادمی،پنچکولہ

مجھے چنڈی گڑھ سے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے لئے ریل گاڑی پکڑنی تھی ۔آناََ فاناََمیں مجھے یہ حکم ملتا ہے کہ تمہیں سرکاری کام سے فریدآباد جانا ہے چناچہ میں ریزرویشن بھی نہیں کراسکتا تھا ۔ویسے تو چنڈی گڑھ سے بسوں کی سروِس بہت اچھی ہے تا ہم جو بات اور جو راحت ریل کی سواری میں ہے وہ بس میں نہیں ہے۔ یہ ۱۲ ۲۰؍کی بات ہے جولائی کا مہینہ اوپرسے رمضان جسم پسینے سے شرا بور ۔ماحول میں گھٹن ۔اور اس پر طُرہ یہ کہ جولائی کے مہینے میں پروائی چلنے کی وجہ سے جہاں ایک جانب زمین اور دیواروںمیں رطوبت اپنا اثر دکھا تی ہے تو دوسری جانب انسان کے جسم پر بھی یہ پُروا ہو ااپنے اثرات مرتسم کرتی ہے اور بدن میں چپچپاہٹ پید اہو جاتی ہے ۔ ذرا سا پسینہ آیا تو بدن میں بوٗ اور کپڑے چپکنے لگتے ہیں ۔ دن میں جتنی مرتبہ نہا لو کم ہے ۔گھنٹہ دو گھنٹہ بعد پھر وہی کیفیت ہو جاتی ہے ۔میری لئے شام کے ۵؍ بجے کی ’ہمالہ کوین ‘گاڑی ہی سوٹ کرتی تھی جو سیدھے نئی دلی اُتارتی ہے ۔ میَں نئی دلی کا ٹکٹ لیتا ہوں اور ہمالیہ کوین میں بیٹھ جا تا ہوں ۔ ڈیڑھ دو گھنٹہ بعد افطار کا وقت بھی ہو نا تھا اس لئے میَں افطار کے لئے چند ضروری اشیائے خوردنی بھی خرید لیتا ہوں ۔ میَں اپنے باس سے معذرت بھی چاہتا ہوںکہ وہ فرید آباد اس شخص کو بھج دیں جو غیر مسلم ہو کیوں کہ روزہ کی وجہ سے مجھے یہ سفر گراں گزرے گا ۔ لیکن میرا باس اپنے ایک جملے کے ساتھ میری بات کو ردّ کر دیتا ہے ’’کہ سرکاری کاموں میں اپنی عبادت کا عذر پیش نہیں کیا جا تا ہے ۔‘‘  مجھے چنڈی گڑھ سے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے لئے ریل گاڑی پکڑنی تھی ۔آناََ فاناََمیں مجھے یہ حکم ملتا ہے کہ تمہیں سرکاری کام سے فریدآباد جانا ہے چناچہ میں ریزرویشن بھی نہیں کراسکتا تھا ۔ویسے تو چنڈی گڑھ سے بسوں کی سروِس بہت اچھی ہے تا ہم جو بات اور جو راحت ریل کی سواری میں ہے وہ بس میں نہیں ہے۔ یہ ۱۲ ۲۰؍کی بات ہے جولائی کا مہینہ اوپرسے رمضان جسم پسینے سے شرا بور ۔ماحول میں گھٹن ۔اور اس پر طُرہ یہ کہ جولائی کے مہینے میں پروائی چلنے کی وجہ سے جہاں ایک جانب زمین اور دیواروںمیں رطوبت اپنا اثر دکھا تی ہے تو دوسری جانب انسان کے جسم پر بھی یہ پُروا ہو ااپنے اثرات مرتسم کرتی ہے اور بدن میں چپچپاہٹ پید اہو جاتی ہے ۔ ذرا سا پسینہ آیا تو بدن میں بوٗ اور کپڑے چپکنے لگتے ہیں ۔ دن میں جتنی مرتبہ نہا لو کم ہے ۔گھنٹہ دو گھنٹہ بعد پھر وہی کیفیت ہو جاتی ہے ۔میری لئے شام کے ۵؍ بجے کی ’ہمالہ کوین ‘گاڑی ہی سوٹ کرتی تھی جو سیدھے نئی دلی اُتارتی ہے ۔ میَں نئی دلی کا ٹکٹ لیتا ہوں اور ہمالیہ کوین میں بیٹھ جا تا ہوں ۔ ڈیڑھ دو گھنٹہ بعد افطار کا وقت بھی ہو نا تھا اس لئے میَں افطار کے لئے چند ضروری اشیائے خوردنی بھی خرید لیتا ہوں ۔ میَں اپنے باس سے معذرت بھی چاہتا ہوںکہ وہ فرید آباد اس شخص کو بھج دیں جو غیر مسلم ہو کیوں کہ روزہ کی وجہ سے مجھے یہ سفر گراں گزرے گا ۔ لیکن میرا باس اپنے ایک جملے کے ساتھ میری بات کو ردّ کر دیتا ہے ’’کہ سرکاری کاموں میں اپنی عبادت کا عذر پیش نہیں کیا جا تا ہے ۔‘‘   میں مجبور ہو جاتاہوں اور فریدآباد مجھے جا نا پڑتا ہے ۔ پیاس اور بھوک کی وجہ سے میرا بُرا حال ہو جاتا ہے ۔ ریل گاڑی میں ہی میں روزہ افطار کرتا ہوں ، یہ میرے لئے اچھا ہوتا ہے کہ جنرل ڈبہ میں زیادہ رش نہیں تھا اور مجھے آسانی سے بیٹھنے کے لئے سیٹ مل جاتی ہے ۔جیسے ہی ریل گاڑی پانی پاپت پہنچتی ہے تو میں اپنے قریب میں بیٹھے ہوئے ایک ہم سفر سے پو چھتا ہوں کہ’’ یہ ریل گاڑی نئی دلّی کس وقت پہنچا دے گی ۔۔۔؟!‘‘ میرا ہم سفر میری طرف کو عجیب عجیب اور ٹھہری ٹھہری نظروں سے دیکھتا ہے ۔ میں کہتا ہوں ’’ بھائی صاحب کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔! وہ کہتا ہے کہ ’’ بابو جی ۔۔۔! یہ ریل گاڑی نئی دّلی نہیں جاتی ہے ۔ ۔۔! ‘‘میں اپنی بات پر زور دے کر کہتا ہوں کہ ’’نہیں مجھے تویہی بتا گیا ہے کہ ہمالیہ کوین نئی دلی جاتی ہے ۔‘‘۔۔۔اور مجھے دفتر کے لوگوں نے بھی یہی بتا یا تھا کہ کہ ہمالیہ کوین نئی دلی جاتی ہے ۔ میرا ہم سفر کہتا ہے کہ ’’ دراصل یہ پہلے جاتی تھی اب نہیں جاتی ہے ۔ اب سرائے روہلہ تک ہی جاتی ہے ۔۔۔‘‘ میں فوراََ تذبذب کی حالت میں آ جاتاہوں ۔۔۔اور اپنے ہم سفر سے کہتا ہوں کہ ’’ اب کیا کرنا چاہے ۔۔۔؟!‘‘ وہ میری رہنمائی فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ ’’ اس کے پیچھے امرتسر سے’ شانِ پنجاب ‘ آرہی ہے ، آپ اس میں بیٹھ جائیے۔‘‘میں تہہ دل سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ہمالیہ کوین سے نیچے اُتر جاتا ہوں ۔  میں تقریباََ ۱۵؍ منٹ پانی پت ریلوے اسٹیشن پر شانِ پنجاب کا انتظار کرتاہوں ۔ ۱۵؍ منٹ کے کم و بیش کے بعد شانِ پنجاب آکر رُک جاتی ہے اور میں بڑی شان کے ساتھ ، مطمئن ہوکر بے فکر جنرل کوچ میں بیٹھ جاتا ہوں ۔ میں مطمئن تھا اور راحت بھی محسوس کر رہا تھا ۔ چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا ۔ اﷲجو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے ۔۔۔ عشا کا وقت ہو چکا تھا ۔ موسم بھی آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہوتا جا رہا تھا ۔ رات کا اندھیرا بھی تیزی کے ساتھ اپنی چادر پھیالانے لگا تھا ۔۔۔دور دور ہوٗ ہوٗ کا عالم تھا ۔۔۔ برسات کی وجہ سے پتنگے اور بھُنگے کافی تعداد میں پیدا ہوگئے تھے جو ریل گاڑی کے شیشوں سے ٹکراکر آنکھوں میں لگ رہے تھے۔  پیڑ پودے اندھیرے میں ایسے لگ رہے تھے کہ جیسے کوئی چھلاوے وارفتگی کے عالم میں گھوم گھوم کر رقص کر رہے ہوں ۔ سرپٹ دوڑتی ہوئی رات کی تاریکی میں ٹرین سیٹی بجاتی ہوئی جو سماعی پیکر پید اکر رہی تھی ۔۔۔اس سے مجھے بار بار مجاز کی نطم ’ رات اور ریل ‘ کی یا د آرہی تھی ۔۔۔جس کو میں نے پہلی بار اپنے نصاب کی کتاب دسویں میں پڑھاتھا۔ ۔۔اور میں سوچ رہا تھا کہ یوں تو ریل کے اوپر بہت سی نظمیں لکھی گئی ہیں لیکن جو بات مجاز کی نظم میں ہے وہ یقینی طور پر کسی میں نہیں ہے ۔ جیسے جیسے ریل گاڑی تاریکی کو چیرتی ہوئی ۔۔۔سیٹی بجاتی ہوئی ۔۔۔اپنا زور دکھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ، رہ رہ کے مجھے ’رات اور ریل ‘نظم کا ایک ایک مصرعہ یا دآ رہا تھا ۔۔۔      اب دلی آنے والی تھی اور شانِ پنجاب نے دلی میں انٹری کر لی تھی ۔ انٹری کرنے کے با وجود بھی اپنے قائم مقام پر پہنچتے پہنچتے عموماََ ٹرینیں ایک ایک گھنٹہ کا وقت لے لیتی ہیں ۔ ٹرینیں ہی کیا کریں ۔۔۔سگنل ہی نہیں مل پاتا ہے اور یہ ایک گھنٹہ اتنا بورنگ اور تھکا نے دینے والا ہو تا ہے کہ معاذاﷲ ۔۔۔ خیر شانِ پنجاب پلیٹ فارم نمبر ۱۲؍ پر پہنچتی ہے ۔ میں آرام سے نیچے اُتر تا ہوں اور باہر نکلنے کا راستہ پکڑتا ہوں ۔۔۔دروازے پر ٹی ٹی کھڑا ہو تا ہے ۔۔۔میں دیکھتا ہوں کہ اس نے پانچ چھے لوگوں کوایک طرف لائن میں لگا رکھا ہے جو کسی نہ کسی طور پر غیر قانونی روپ سے سفر کر رہے تھے ۔ ٹی ٹی مجھے بھی روک لیتا ہے اور ٹکٹ دکھانے کے لئے کہتا ہے ۔۔۔میں بے خوف و خطر بغیر کسی گھبراہٹ کے ٹکٹ جیب سے نکالتا ہوں اور ٹی ٹی کے حوالے کر دیتا ہوں ۔ ۔۔وہ اُلٹ پلٹ کر ٹکٹ کا معائنہ کرتا ہے اور مجھ سے گویا ہوتا ہے ۔ ’’ کونسی گاڑی سے اُترے ہو ۔۔۔؟! ‘‘ میں بغیر کسی جھجھک کے جواب دیتا ہوں ۔ ’’ شانِ پنجاب سے ۔۔۔!‘‘ ’’ لائن میں لگ جاؤ ۔۔۔!‘‘ میرا جواب سُن کر وہ کہتا ہے ۔میں تعجب کے ساتھ اس کا منہ تکنے لگتا ہوں ۔۔۔’’ سر مجھے کس بات پر لائن میں لگا رہے ہو ۔۔۔؟! ‘‘ میں دریافت کر تاہوں ۔ ’’ اس وجہ سے کہ تمھارے پاس ایکسپریس کا ٹکٹ کا ہے اور جس گاڑی سے تم اُترے ہو، وہ سُپر فاسٹ گاڑی ہے ۔۔۔‘‘میں بڑی عاجزی کے ساتھ پوری روداد ٹی ٹی کو سُناتا ہوں ۔۔۔لیکن وہ یقین نہیں کرتا ہے ۔ ’’ اس طرح کی کہانیاں تو ہمیں روزانہ سبھی سناتے ہیں ۔‘‘ وہ رعب جھاڑتے ہوئے کہتا ہے ۔ حالانکہ میرا سچ اور جھوٹ تو اس بات سے ہی صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ’ ہمالہ یہ کوین‘ریل گاڑی چنڈی گڑھ سے بن کر چلتی ہے اور میں چنڈی گڑھ سے آ رہا تھا ۔۔۔میرے پاس ٹکٹ چنڈی گڑھ سے نئی دلی کا تھا۔ اور شانِ پنجاب امرتسر سے آتی ہے ۔۔۔کچھ دیر سب لوگ لائن میں کھڑے رہتے ہیں اور عجیب عجیب نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہیں ۔ سب کے چہرے ہلکے ہلکے اُترے ہوئے تھے ۔۔۔سب لوگ ٹی ٹی کی خوشا مد کرنے لگتے ہیں ۔۔۔سر ۔۔۔ہی ہی۔۔۔ دیکھ لیجئے۔۔۔سوری سر ۔۔۔اب کے غلطی نہ ہو گی ۔۔۔میں بھی ٹی ٹی سے ملتجی نگاہوں سے درخواست کر تا ہوں ۔وہ سب لوگوں کو چُپ ہو نے کے لئے کہتا ہے ۔۔۔اور پھر باری باری سب کے نام پو چھتا ہے ۔ سب سے بعد میں وہ مجھ سے میرا نام پوچھتا ہے ۔ میں جواب دیتا ہوں ۔۔۔’’محمد مستمر ۔۔۔!‘‘ان چھے لوگوں میں صرف میَں ہی مسلمان تھا ۔ وہ مجھے ایک طرف کر دیتا ہے ۔۔۔اور سب لوگوں سے کہتا ہے کہ تم سب جاؤ ۔ میَں فوراََ موقع کی نزاکت کو سمجھ جاتا ہوں ۔ میں ٹی ٹی سے گو یا ہوتا ہوں ۔ ’’ سر ۔۔۔! جو قصور میرا ہے وہی ان سب لوگوں کا بھی ہے پھر آپ نے ان سب کوچھوڑ دیا اور مجھے آپ کہہ رہے ہیں کہ ۲۵۰؍ روپے کی پرچی کٹے گی ۔۔۔‘‘وہ میری طرف کو آنکھیں نکالتا ہے اور کہتا ہے ۔’’ہمیں قانون سکھا رہا ہے ۔۔۔! سالے اندر ٹھوک دیں گے ۔ ‘‘اب ٹی ٹی کے پاس دو آر پی ایف کے جوان بھی آگئے تھے ۔ وہ دونوں میرا گریبان پکڑ تے ہیں اور ٹی ٹی ان سے کہتا ہے کہ اسے نیچے دفتر میں لے کرچلو ۔۔۔میں زبان سے کچھ نہیں بولتا ہوں ۔ خدا شاہد ہے کہ کرب کی ایک لہر فوراََ میرے آنسوؤں میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔۔۔اور ایک ساتھ کئی قطرے میری آنکھوں سے نکل کر ٹپر ٹپر نیچے گر جاتے ہیں جو ریل گاڑی کی پڑنے والی پر چھائیوں میںان تینوں کو دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔ مجھے مالے گاؤں ، بٹلہ ہاؤس ، مکہ مسجد اور سنکٹ موچن مندر کی وارداتیں ایک ساتھ یادآ جاتی ہیں ۔ میں خاموشی کے ساتھان تینوں کے ساتھ نیچے دفتر چلا جاتا ہوں ۔۔۔پرچی بنا نے والا افسر یا بابو جو بھی ہو۔۔۔۲۵۰؍ روپے کی میری پرچی بناتا ہے ۔۔۔اور مجھے پھر، دستخط کرنے کے لئے کہتا ہے۔۔۔میں بڑی فلو میںدستخط کر دیتا ہوں ۔۔۔میرے دستخط دیکھ کر وہ یوں ردِ عمل ظاہر کرتا ہے ۔ کہ شاید پڑھا لکھا لگتا ہے ۔۔۔؟‘‘میں اسے جواب دیتا ہوں ۔۔۔’’ کیا تمھاری نظر میں سارے مسلمان ان پڑھ ہوتے ہیں ۔۔۔؟!‘‘ وہ چاروں کے چاروں میری طرف کو دیکھتے رہتے ہیں ۔۔۔میں پرچی لے کر دفتر سے باہر نکل جاتاہوں ۔۔۔مجھے اپنے قصور کا پتا لگ چکا تھا ۔۔۔میرا قصور تھا ایک مسلمان ہونا ۔۔۔اور میں آہستہ آہستہ قدموں کو اُٹھاتا ہوا ۔۔۔یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اﷲ جو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے ۔۔۔! اور پھر میرے ذہن میں فوراََ یہ سوال بجلی بن کر کوند تا ہے کہ جو آج ہو اہے کیایہ بھی اچھا ہی ہوا ہے ۔۔۔؟ ! ابھی میں اسی ایقان کے میزان میں جھکولے کھا رہا تھا کہ دل کی آواز میرے کانوں میں دستک دیتی ہے ’’ کہ ہاں جوکچھ آج ہو اہے اچھا ہی ہو اہے ۔۔۔!اگر آج تمھارے ساتھ یہ واقعہ ۔۔۔یہ حادثہ پیش نہ آتا تو تم کیسے آر ایس ایس کی ذہنیت کو جان پاتے۔۔۔!‘‘

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا