وہ شاعری ہی کیا جس میں آج اور سچ نہ ہو:محمد اعظم شاہد

0
98

انٹرویو کار
: ڈاکٹر غضنفر اقبال

O محمد اعظم شاہد(1959) ریاست کرناٹک کی اُردو نظمیہ شاعری کا معروف نام ہیں۔ وہ نظم گو شاعر کے علاوہ ایک نمایاں کالم نویس کی شناخت رکھتے ہیں۔وہ علمِ معاشیات کے مثالی استاد کلیاتی سطح پر رہے۔ محمد اعظم شاہد کی نظم اور کالم کثیرالنوع ابعاد رکھتے ہیں۔ O

غضنفراقبال: آپ کا تخلیقی عمل کیا ہے؟
محمد اعظم شاہد: کبھی کوئی خیال ذہن ودل میں اُبھرتاہے،اس کی پرتیں بہ دریج کھلتی ہیں،تخیل میں وہ خیال تحریر کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ وہی خیال گویا میرے ساتھ ہم کلام رہتاہے۔ کسی مناسب لمحے کی ساعت میں صفحۂ قرطاس پر وہ خیال لفظوں میں ڈھلنے لگتاہے۔میرے ذاتی تجربات، مشاہدات اور میرے احساسات کو لفظی پیراہن کبھی یک لخت مل جاتاہے تو کبھی سوچ اور قلم کا ساتھ طویل انتظار کی نذر ہوجاتاہے۔میرا یہ احساس ہے کہ تخلیقی عمل میں عطیۂ ودیعت کی کارفرمائی شامل رہتی ہے۔

س: اُردو نظم سے لگائو کی کیا وجہ رہی ہے؟
ج: نظم میں اظہار خیال کی روانی اور سلاست نے مجھے متاثر کیا ہے۔ ردیف قافیہ کی بندشوں میں اُلجھے بغیر نظم میرے لیے وسعت اظہار عطاکرتی ہے،جو میرے اندر گذر رہی ہے وہ میں راست نظم میں کہتا ہوں۔

س: اُردو نظم میں آپ کس نظریے کے قائل ہیں؟
ج: تخیل اور حقیقت نگاری کے امتزاج سے نظم گوئی میں اپنا ایک الگ رنگ اور طرزِ اظہار کو اپنانے کی کوشش کی ہے میں نے۔نظم میں ہمارے کل ، آج اور کل کی عکاسی میرے نزدیک اہم ہے۔ اپنی بات میرے ہم نوائوںکے روبہ رو کسی بھی تصنع کے بغیر پیش کرنے کا قائل ہوں۔اس ضمن میں طبع آزمائی سے گذررہاہوں۔

س: اُردو نظم کیسے تشکیل پاتی ہے؟
ج: کوئی نکتہ یا کوئی خیال ایک بے نور زرہ سا سطح فکر پر سرگوشیوں میں مجھ سے مخاطب رہتاہے۔ پھر میرے احساسات کی تپش میں ڈھل کر پھیلتا جاتاہے۔میرے قلم میں سمٹنے بے تاب رہتاہے۔بارہا بضد رہتا ہے کہ لفظوں میں آباد کروں اس کو لکھ لیتا ہوںجب اپنے احساس کو ایک انجانے کرب سے راحت پاتاہوں جس کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔

س: آپ نے اب تک کن کن موضوعات کو اپنی نظم نگاری کا حصہ بنایا ہے؟
ج: اپنی کیفیات کی قوسِ قزاح کو میں نے نظموں میں رنگنے کی کوشش کی ہے۔ میری بیتی، جگ بیتی،میرے دور کی ہر جھلک میرے موضوعات میں سمائی ہوئی ہے۔گذرتے شب وروز کے ہر احساس کو میں نے نظموں میں پرویاہے۔

س: کیا اُردو نظم حضرت اقبال کی نظموں کی بازگشت ہے یا کسی اورنظم گو شاعر کی ؟
ج: مولانا حالی کے مقدمہ شعر وشاعری نے حقیقت نگاری اور مقصدیت کی راہیں روشن کیں۔ مولاناحالی ،حسرت موہانی،مولانا شبلی اوردیگر نے نظم گوئی میں صداقتوں کو آشکار کیا۔ علامہ اقبال نے نظم کو نئے آفاق سے روشناس کروایا۔اس طرح فی زما نہ اُردو کے کہنہ مشق شاعروں نے اُردو نظم کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ ہمارے ہاں آج بھی نظم گوئی کے حوالے سے کئی اہم شعرا ہیں جنھوںنے نئے لکھنے والوں کو متاثرکیا ہے۔ ہندوپاک میں کئی نوجوان شعرا عمدہ نظمیں لکھ رہے ہیں۔
س: مابعد جدیدیت کے زیرِ اثر نظم کے پیش منظر کو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
ج: فرسودہ اور روایتی موضوعات سے انحراف کرتے ہوئے مابعد جدیدیت نے اختراعی اور بامقصد نقطۂ اظہار کو تقویت بخشی ہے۔آج نظم ہمارے عہد حاضرکی عکاسی بنی ہوئی ہے۔ اس رجحان کو میں نظم کے حوالے سے خوش آئند سمجھتاہوں۔وہ شاعری ہی کیا جس میں ہمارا آج نہ ہو،سچ نہ ہو۔نظم کے موجودہ پیش منظر میں مجھے جاوید اختر کا یہ شعر بر محل نظر آتاہے:
کن لفظوں میں اتنی کڑوی اتنی کسیلی بات لکھوں
شعر کی میں تہذیب نبھائوں یا اپنے حالات لکھوں
س: کیا ریاست کرناٹک کے نظم گو شعرا نے قومی منظر نامے کے نظموں کے سرمایہ میں اضافہ کیا ہے؟
ج: یقینا کرناٹک کے نظم گو شعرا نے نظم گوئی کے قومی منظر نامے میں اپنی پہچان بنائی ہے۔ اور اپنی شعری فکر سے اس کے سرمایہ میں اضافہ بھی کیا ہے۔ محمود ایاز،حمید الماس ،خلیل مامون، حمید سہروردی، راہی فدائی، ساجد حمید،حامد اکمل،سلیمان خمار، انور مینائی، رزاق افسر، شید ا رومانی،شائستہ یوسف،ضیا میر،راز امتیاز اوراکرم نقاش جیسے ہمارے شعرا نے قومی سطح پر نظم گوئی کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔

س: آپ نظمیہ شاعری کے لیے زبان واسلوب کو اہمیت دیتے ہیں یامواد اور موضوع کو؟
ج: اولیت مواد اور موضوع کو ہی دینا پسند کرتاہوں مگر حسن اظہار کے لیے زبان واسلوب بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

س: کالم نگاری کا پس منظر کیاہے؟
ج: اخبارات ورسائل میں کسی خاص موضوع پر یا موضوعات پر کالموں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔مزاحیہ کالم جن میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کے ساتھ طنز ومزاح کا عنصر بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ یہ کالم بڑے اشتیاق سے پڑھے جاتے رہے ہیں۔زیادہ تر وہ کالم جن میں کالم نویس اپنے منفرد لہجے میں اپنے قارئین سے گفتگو کے انداز میں لکھتے ہیںفی زمانہ مقبول رہے ہیں۔کالم نگاری انشائیہ کی یہ خاص صنف ہے۔دیگر زبانوں کے شانہ بہ شانہ اُردو میں بھی کالم نگاری نے اپنے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے پروان پارہی ہے۔ آج بھی اس کا سلسلہ دراز ہے۔

س: کالم نویسی کا ماضی تابناک اور حال روشن ہے،مستقبل کیاہے؟
ج: اخبارات ورسائل آج کل آن لائن بھی دستیاب ہیں۔سوشیل میڈیا کے ذریعے بھی قارئین اپنے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کا سامان حاصل کررہے ہیں۔ کئی کالم نویسوں کے کالم آج کل آن لائن بھی بڑے شوق سے پڑھے جارہے ہیں۔مگر کالم نگاری کی اُردو میں دیگر زبانوں کے موازنے میں وہ قدردانی نہیں ہے جس کا وہ عین استحقاق رکھتی ہے۔

س: کیا اُردو کالم نگاری معاصر زبانوں کے اخبارات کا ساتھ دے رہی ہے؟
ج: جی ہاں،مگراُردو اخبارات میں کالم نگاری کے حوالے سے مزید توجہ کی ضرورت ہے۔دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے کالموں کے موضوعات انتہائی وسیع اورمتنوع ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اُردو اخبارات میں اس پہلو پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

س: گودی میڈیا نے جمہوری نظام میں زور ماراہے۔اس کی بھارتی معاشرے میں کس طرح روایت پڑی؟
ج: صحافت کی اعلیٰ قدروں کو جب بھی فراموش کیا گیا تخریب کاری کا رجحان معاشرے میں پروان چڑھنے لگا۔ سیاسی ساجھے داری اور انتخابی سیاست نے میڈیاکے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بالخصوص اقتدار پر غیر جمہوری طورپر قابض ہونے فسطائی نظریات کو معاشرے میں پھیلانے کی سازش رہی ہے۔ جب سے بھارت میں مذہب کے نام پر بنیاد پرستی،مذہبی منافرت کو عام کرنے اور جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرنے کی کارستانیاں پچھلے دس پندرہ برسوں سے سر اُٹھانے لگی ہیں تب سے میڈیا کے کم وبیش اسّی فیصد ادارے حکومت وقت کی گود میں گوشۂ عافیت ڈھونڈنے لگے ہیں۔ گودی میڈیا نے بھارتی معاشرے میں خبروں کی ترسیل کو تجارت بنا کر صحافتی قدروں کو نہ صرف پامال کیا ہے بلکہ کافی بدنام بھی کیا ہے۔ گودی میڈیا سیاسی جماعتوں کا آلۂ کار بن کر سودے بازی میں ملوث ہے۔یہ رجحان جمہوری نظام کے استحکام اور بقائے باہمی کے لیے نہ صرف تشویش ناک ثابت ہورہا ہے بلکہ سنگین نتائج کا پیش خیمہ بھی ثابت ہورہاہے۔
س: آپ کی وابستگی علم معاشیات کی تدریس سے رہی ہے۔معیارِ تعلیم کے انحطاط پذیر ہونے کے ذمہ دار کون ہیں؟
ج: مادیت کے موجودہ دور میں تعلیم بھی تجارت بن گئی ہے۔کئی تعلیمی اداروں میں صرف خواندگی پر توجہ دی جارہی ہے۔اعلیٰ انسانی قدروں سے مزین تعلیم اور شخصیت سازی پر کم ہی توجہ ہے۔ تعلیمی اداروں کے مالکان اکثر بڑے کارپوریٹ ہائوسز ہیں۔سرکاری اسکول،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اِن دنوں نصابی اُمور میں زعفرانیت سرائیت کرتی جارہی ہے۔

س: آپ کا کالم اور نظمیں پڑھنے والے قاری کے لیے آپ کا پیغام؟
ج: ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘ اپنے تجربات،مشاہدات وتجربات کو میںنے اپنی تحریروں سے میرے قارئین کو روشناس کرنے کی ممکنہ کوششیں کی ہیں۔ہر نظم اور ہر کالم قلم بند کرنے کے بعد ذہن ودل میں یہی آرزو قارئین کے تئیں اُجاگر ہوتی ہے’’شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات‘‘۔
قلم کار کی کاوشیں قارئین کے ذوقِ مطالعے سے ہم کنار ہوتی ہیں تو تخلیقی سفر رواں دواں رہتا ہے۔قارئین سے اُن کا تاثر وتجزیہ جب لکھنے والے تک پہنچے گا تب لکھنے کا عمل تقویت سے رو بہ رو ہوگا۔

vvv

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا