خارستان کا مسافر (خود نوشت سوانح حیات)

0
75

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
سابق صدر شعبۂ اُردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)

2005؁ء میں جب مجھے ماسٹر گریڈ ملا تو مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول بپ(زون چنہنی)میں تعینات کیا گیا ۔جنوری 2006؁ء میں ،میں نے جموں وکشمیر بینک شاخ چنہنی سے جموں میں مکان تعمیر کرنے کی خاطر قرض لیا جو تقریباً دولاکھ روپے کی رقم تھی ۔اس رقم کے علاوہ بھی کوئی ڈیڑھ لاکھ اور خرچنے کے بعد میرے مکان کا ڈھانچہ تیار ہوگیا ۔
جولائی2007؁ء کے آخری ہفتے میں مجھے ہائی اسکول بپ سے تبدیل کرکے گورنمنٹ ہائی اسکول دھناس (زون چنہنی)میں تعینات کردیا گیا ۔ میں نے9 ،اگست 2007؁ء کو دھناس ہائی اسکول میں جوائن کیا اور جنوری 2013؁ء تک اس اسکول میں اپنے تعلیمی فرائض انجام دیتا رہا ۔
2011؁ء میں ،میں ایک روز اپنے ہم پیشہ ساتھی اور دوست کرشن کمار ابرول کے ساتھ دھناس ہائی اسکول سے چار بجے کے بعد چنہنی کی طرف آرہا تھا کہ اسی دوران میری اہلیہ نے مجھے فون پہ یہ مایوس کُن خبر سُنائی کہ میرے بیٹے رضاالرحمن کی دادی یعنی میری امّاں کو ظہرکی نماز پڑھتے ہوئے اٹیک ہوگیا ہے اور وہ جموں بترا اسپتال میں ایمرجنسی وارڈ میں ہیں ۔میں بہت مایوس ہوا ۔امّاں بڑے بھائی کے پاس جموں میں رہتی تھی ۔میں رات کو ہی اپنے بھائی محمد ایوب وانی کے ساتھ جموں کی طرف روانہ ہوا۔ہم دونوں جب بترااسپتال پہنچے تو امّاں بڑی نازک پوزیشن میں تھی ۔ایمرجنسی وارڈ میں وہ آکسیجن کے سہارے سانس لے رہی تھی ۔میں امّاں سے کوئی بھی بات نہیں کرپایا ۔میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے ،میں رو پڑا ۔زندگی اور موت کی کشمکش میںبالآخر امّاں شکروار کودن کے پورے ایک بج کربیس منٹ پر اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئی ! ماں کا بے لوث پیار اور ممتا بھری چھاؤں سے میں محروم ہوگیا!آج بھی ماں سے وابستہ کئی یادیں مجھے تڑپارہی ہیں !
2011؁ء کا سال میری زندگی کا ایک ایسا سال ہے جس میں مجھے نہ صرف اپنی ماں جیسی عظیم ہستی کی ممتااور نیک دُعاؤں سے محروم ہونا پڑا بلکہ مجھے منافقوں کی منافقت،بے غیرتوں کی بے غیرتی اور نفسِ امّارہ کے پجاریوں کے باعث اپنے حق سے بھی محروم ہونا پڑا ۔اُردو کے دُکان داروں نے مجھے میرے حق سے محروم رکھنے کی ہر ممکن کوششیں کیں ۔میرے اللہ کارحم وکرم اگر میرے شامل حال نہ ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ میں اپنا ذہنی توازن کھوگیا ہوتا ۔اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ میں اس دُنیا میں ابھی تک سانس لے رہا ہوں ۔میرا تلخ تجربہ یہ کہتا ہے کہ ہندوستان کی زیادہ تریونیورسٹیوں میں کسی پوسٹ پہ سلیکشن سے پہلے ہی سلیکشن ہوچکی ہوتی ہے۔اُس کے بعد انٹرویو کا ڈراماشروع ہوتا ہے۔بہت کم لوگ یونیورسٹیوں میں ایسے موجود ہیں جو ایماندا ر ہیں اور حقدار اُمید واروں کو اُن کا حق دلاناچاہتے ہیں ۔ورنہ اکثر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ سلیکشن سے پہلے ہی سلیکشن ہوچکی ہوتی ہے ۔پروفیسر قدوس جاوید صاحب میرے مزاج کے آدمی ہیں ۔میں اُن کی ذہانت اور علمی وادبی صلاحیتوں کا معترف ہوں ۔وہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کا مادہ رکھتے ہیں ۔اُنھوں نے یونیورسٹیوں میں اُردو کی پوسٹوں پہ سلیکشن کے بارے میں اپنے ایک مضمون ’’اُردو دُنیا کا المیہ۔ جرِ ثقیل کے قتیل‘‘میںاُردو کے مستحق اُمیدواروں کو اُردو شعبوں سے دُور رکھے جانے کی وجوہات کاذکر بڑے عالمانہ اور منصفانہ انداز میں کیا ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید اردو تحقیق وتنقید اور فکریات ونظریات کے لحاظ سے ایک معتبر ومنفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ مابعد جدید ادبی تھیوری کا شعری ونثری اصناف پہ اطلاق ، اسکے مزاج ومنہاج کی افہام وتفہیم میں اُنھوںنے نہایت عرق ریزی سے کام کیا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے شعبئہ اردو میں پروفیسر اور صدرِشعبہ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دینے کے بعد اُنھیں سبکدوش ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے۔ گذ شتہ آٹھ برس پہلے اُنھیں سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے شعبئہ اردو کا صدر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس طرح اُنھیں ایک بار پھر ایک بڑے علمی وادبی ادارے میں تقریباًڈیڑھ برس اردو کی خدمت کا موقع ملا۔ پروفیسر قدوس جاوید کی ادبی نگارشات کا مطالعہ کرنے کے دوران اس بات کا پتا چلتا ہے کہ موصوف کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا ہے۔اُن کی عقابی نگاہیں ادب سمندر پر محوِگردش رہتی ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی، فارسی اور کسی حدتک عربی اصطلاحات سے بھی کماحقہ واقف ہیں۔ اُن کے بصیرت افروز مضامین اخبارات ورسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ تحقیق وتنقید میں دلائل وشواہد اور حوالے و حواشی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے بلکہ ان کے بغیر تو تحقیق وتنقید غیر معتبر اور ُمشتبہ ٹھہرتی ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید کے تحقیقی وتنقیدی مضامین میں دلائل وشواہد اور حوالے وحواشی کاپاس ولحاظ تو نظرآتا ہی ہے اس کے علاوہ اُن کا منطقی اسلوب بیان دلگرفتہ کہا جاسکتا ہے۔حق بات تو یہ ہے کہ لکھتے لکھتے اور پڑھتے پڑھتے اُن کا ذہن کافی مشاق اور دل حساس ہوگیا ہے۔موضوعاتی تنوّ ع اور نئی اصطلاحات وتراکیب کے استعمال نے اُن کی تحریروں کو اور زیادہ معلوماتی اور قابل مطالعہ بنایا ہے۔ اُردو کی نابغئہ روزگار ہستیوں کی طرح پرفیسر قدوس جاوید کو بھی اس بات کا شدید احساس ہے کہ اُردو کی بقا اس کے فر وغ اور عمدہ خدمات کے لیے ذہین، محنتی،قابل ترین ، ایماندار، شریف النّفس اور اُردو زبان وادب سے جنون کی حدتک لگاؤ رکھنے والے اسکالروں کو ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے اردوشعبوں میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر سلیکٹ کیا جانا نہایت ضروری ہے لیکن پروفیسر موصوف کو اس سلسلے میں عملی صورتحال بہت مایوس کُن اور روح فرسا نظرآرہی ہے۔ اس تلخ حقیقت کا اظہار اُنھوں نے بڑی بے باکی ، نیک نیتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ اپنے ایک مضمون بعنوان’’ اُردو دنیاکا المیہ۔جر ِ ثقیل کے قتیل‘‘ میں کیا ہے جو جموں وکشمیر کے مشہور اور معیاری روز نامہ ’’کشمیر عظمیٰ ‘‘ مورخہ12 مئی2016 ء بروز جمعرات، ص نمبر6 پہ شائع ہوا ہے۔ فاضل مصنف نے اس مضمون میں ذاتی تجربے اور مشاہدے کی شفاف عینک سے بالخصوص یونیورسیٹیوں کے اُردو شعبوں میں ذہین، باصلاحیت ، محنتی اور دیانتدار اُمیدواروں کے بدلے نااہل اور ناآشنائے علم وادب اُمیدواروں کی سلیکشن کا جوڈراما دیکھا ہے اُس کا موثر اظہار تحریری صورت میں اپنے مضمون میں کیا ہے۔ جو ذہن ودل کو جھنجھوڑتا ہے اور ہرخاص وعام کے لیے ایک المیہ اورلمحئہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ زندہ ضمیر زندہ وتابندہ تحریریں لکھواتا ہے جبکہ مردہ ضمیر آدمی کو موہ مایہ کے مکڑ جال میں پھنسائے رکھتا ہے۔ پروفیسر قدوس جاوید کے مذ کورہ مضمون کوپڑھنے کے بعد اس پُر مسرت بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک روشن ضمیر ، حق گو وحق پرست ادبی شخصیت ہیں کہ جنھوں نے یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں اساتذ ہ کی تقرری کے معاملے میں باصلاحیت امیدواروں کے ساتھ قابل مذمت برتاؤ کو تعلیمی دہشت گردی Educatonal terrorisim))کے نام سے موسوم کیا ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو اُن کا مضمون بالکل ایک نئے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ جوسوفیصدی صداقت پر مبنی ہے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ گذ شتہ پانچ سات برسوں میں بعض ایسے اساتذہ جو خوشامد ، چاپلوسی اور تگڑم بازی میں ماہر ہیں پروفیسر بننے میں کامیاب ہوئے جن کی وجہ سے کئی باصلاحیت اور حقدار امیدواروں کا حق بڑی بے رحمی سے چھینا گیا ہے۔بقول پروفیسر قدوس جاوید :
’’گذ شتہ پانچ سات برسوں میں بعض ایسے اساتذ اردو شعبوں میں’’پروفیسر‘‘بننے میں کامیاب
ہوگئے ہیں جن کی زبان دانی، ادبی ذوق وشوق، مبلغ علم، حتیٰ کہ عام اخلاقیات تک مشتبہ ہے۔
یہ حضرات اپنی علمیت، ادبی خدمات یا دیگر اکیڈمک سرگرمیوں کے بجائے جوڑ جگاڑ کی بے پناہ
خوبیوں کی بنا پر پروفیسر اور پھر صدرِ شعبہ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں ،مبینہ طور پر ایسے چند
پروفیسران اور صدور کا ایک ’’محاذ‘‘ہے۔کسی بھی یونیورسٹی یا کالج میں کوئی بھی انٹرویو ہو اس
متحدہ محاذ کے پروفیسر حضرات ہی ایکسپرٹ ہوتے ہیں اور انٹرویو میں متفقہ طور پر اُنھیں
اُمیدواروں کا انتخاب ہوتا ہے جن کا انتخاب وہ کرنا چاہتے ہیں۔معاملہ اُردو کا ہوتا ہے، اس
لیے سلیکشن کمیٹی کے غیر اُردو داں ممبران عموماً خاموش ہی رہتے ہیں اور سلیکشن کا پورا اختیار صدر
ِشعبہ اور ایکسپرٹ کو سونپ دیتے ہیں جو پہلے سے ہی آپس میں طے کئے ہوتے ہیں کہ کس
امیدوار کو سلیکٹ کرنا ہے اور کسے ریجیکٹ، آسامیاں ایک سے زیادہ ہوں تو ایسے پروفیسر اور
صدور سلیکشن میں اکثرایک تیرا ایک میرا کی بنیاد پر آپس میں بندر بانٹ بھی کرلیتے ہیں۔انٹرویو
کی حیثیت محض ایک رسمی خانہ پُر ی کی ہو کر رہ گئی ہے‘‘
مندرجہ بالا اقتباس کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ پروفیسر قدوس جاوید نے ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں اساتذ ہ کی تقرری کے سلسلے میں پس پردہ ہورہی جس دھاندلی،بے ایمانی اور بندر بانٹ کا ذکر کیا ہے وہ تشویشناک بھی ہے اور حیران کُن بھی۔ ویسے سبھی یونیورسٹیوں میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ہندوستان کی کئی یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں اب بھی قابل، ایماندار اور حق پرست پروفیسر موجود ہیں لیکن اُن کی تعداد قلیل ہے۔ دراصل یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں اسسٹنٹ پروفیسر، ایسو سی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کی پوسٹ کی تشہیر(Advertisement) سے پہلے صدر ِشعبہ یہ طے کرتا ہے کہ اس پوسٹ پہ کس کی سلیکشن کروانی ہے اور کیسے کروانی ہے۔ اسکے بعد پوسٹ کی تشہیر کی جاتی ہے۔ایکسپرٹس کی لسٹ چونکہ صدرِ شعبہ کے ہاتھوں وائس چانسلر صاحب کے آفس میں جاتی ہے اور اس طرح صدر ِشعبہ پہلے ہی ایکسپرٹس سے رابطہ قائم کرلیتا ہے اور انٹرویو کی رسمی خانہ پری کے تحت وہ بآسانی اپنے من چاہے امیدوار کی سلیکشن کروانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔پروفیسر قدوس جاوید نے اپنے مضمون میں ایک جگہ قابل نوجوانوں کو اُردو شعبوں سے دُور رکھے جانے کی دوسری وجہ ان الفاظ میں بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں: ’’باصلاحیت نوجوانوں کو ارادتاً اُردو شعبوں سے دُور رکھاجارہا ہے کیونکہ ایسے قابل نوجوان اگر شعبے
میںآگئے تو تدریس و تحقیق کا معیار تو یقینا بلند ہوگا لیکن نامنہاد، خود غرض اور مفاد پرست اُردو کے سینئر پروفیسران اور اردو شعبوں کے صدور کے لسانی اور ادبی سوجھ بوجھ کے معیار کا بھانڈا پھوٹ جائے گا‘‘ پروفیسر قدوس جاوید کی تحقیق کے مطابق یہ تو واضح ہوگیا کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے اُردو شعبوں میں انٹرویو سے پہلے ہی صدرِ شعبہ اورایکسپرٹس (Experts) آپس میں یہ طے کرلیتے ہیں کہ کس امیدوار کو سلیکٹ اور کس کو ریجیکٹ کرنا ہے لیکن اب مسٔلہ یہ ہے کہ اس ناانصافی اور حق تلفی پہ قابو کیسے پایا جائے؟ اسکے لیے میں یہاں چند سجھاو ٔدینا چاہتا ہوں۔میں وثوق سے یہ کہتا ہوں کہ ان سجھاو ٔیا مشوروں کو اگر یونیورسٹی گرا نٹ کمیشن ( UGC) اور تمام ریاستوں کے حکام باضابطہ طور پر منظوری دیں تو راتوں کو اپنا لہو جلانے والے ذہین، شریف النّفس ،دیانت دار اور محنتی اُمید واروں کو ضروراُن کا حق مل کے رہے گا۔ پہلا سجھاو ٔیہ کہ ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری کا پورا اختیار ہر ریاست کے گورنر صاحب کو دیا جائے۔ایکسپرٹس کی لسٹ وہ خود تیار کروائیں۔ایکسپرٹس کہاں سے بلائے گئے ہیں اور اُنھیں کہاں ٹھہرایا گیا ہے اس کاعلم صرف گورنرصاحب کو ہو۔انٹرویو کی کاروائی مقررہ تاریخ پر وائس چانسلر صاحب کے خوش نما اور روح پرور ہال میں ہو۔ اُن کے دلکش علم وادب کے ٹیبل پہ سامنے ترتیب وار قرآن مجید،انجیل مقدس، شریمد بھگوت گیتا اور گروگرنتھ صاحب یہ تمام مقدس کتابیں رکھی جائیں۔ انٹرویو کی کاروائی شروع کروانے سے پہلے وائس چانسلر صاحب انٹرویو لینے والے تمام ممبران سے اپنے اپنے دین دھرم کے مطابق حلف برداری کی مقدس رسم ادا کروائیں اور خصوصی طور پر ا ُ نھیں یہ ہدائت دیں کہ وہ ایشور اللہ کو حاضر وناظر رکھ کر عدل وانصاف برتیں۔ دُوسرا سجھاو ٔیہ کہ یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر یا پروفیسر کی پوسٹ کے لیے آئی۔اے۔ایس کے ضابطے کو نافظ کیا جائے یعنی ایک ایسا مسابقتی امتحان ( Secreening Test )رکھا جائے جو آئی۔ اے۔ایس کے معیار کا ہو۔ تیسرا اور آخری سجھاؤ یہ کہ یونیورسیٹیوں کے تمام طلبہ چاہے وہ ایم۔اے، ایم۔ایس۔سی، ایم۔کام یا ایم۔فل ،پی۔ایچ۔ڈی کررہے ہوں یا کرچکے ہوں مندرجہ بالا مطالبات کی منظوری کے لیے صدائے احتجاج بلند کریں کیونکہ مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’بن روئے ماں بچّے کو دُودھ نہیں دیتی‘‘
پڑھے لکھے بے عمل سماج کا تقاضہ یہ ہے کہ مصلحتاً جھوٹ بولا جائے۔ اس پہ مستزاد یہ کہ عصری خباثت آمیز معاشرے کی منافقت ایماندار ،شریف النّفس، محنتی اور ذہین لوگوں کو چہرے بدل بدل کر نوچ رہی ہے۔ایک بہت بڑے دُکھ کی بات یہ ہے کہ ظلم کو مقدّر سمجھا جاتا ہے۔
میرے خیال میں کالجوں کے اسسٹنٹ پروفیسروں اور پروفیسروں کو یونیورسٹی کا اسسٹنٹ پروفیسر یا پروفیسر بننے کا شوق دل میں نہیں پالنا چاہیے کیونکہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور کالج کے پروفیسر میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا ہے۔
کاش پروفیسر قدوس جاوید کے مبارک ہاتھوں مذ کورہ مضمون بہت پہلے لکھا گیا ہوتا تو کچھ اور بات ہوتی لیکن اس کے باوجود آفریںاورصدہاآفریں اُنھیں کہ اُنھوں نے ’’ اُردو دنیا کا المیہ۔جرثقیل کے قتیل‘‘ جیسا معرکتہ الآرا مضمون لکھ کر درجنوں قابل ترین، محنتی، ایماندار اور علم وادب کے متوالوں کی حق تلفی اور ظلم وزیادتی کے خلاف ایک طرح کا بگُل بجادیا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دُعاگو ہوں کہ پروفیسر قدوس جاوید کی طرح میرا رشتہ بھی کاغذ ، قلم اور کتاب کے ساتھ زندگی کے آخری لمحے تک برقرا رہے ۔اگرچہ کہ رفعت شروشؔ کے یہ اشعار میرے علمی وادبی ذوق وشوق اور حق تلفی پہ صادق آتے ہیں ؎
ہزار بار حادثات میرے ہم سفر بنے
مگر میں راہ ِ شوق میں یونہی رواں دواں رہا
ہزار بار دامن حیات خار زار میں الجھ گیا
مگر میں گامزن رہا بہار کی تلا ش میں
جنوری2013؁ء میں میرا تبادلہ دیولتا نام کی ایک انتہائی قابل،رحم دل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی قدردان خاتون اوراُس وقت کی ڈائریکٹراسکول ایجوکیشن جموں نے گورنمنٹ ہائی اسکول دھناس(زون چنہنی،ضلع اُدھم پور)سے گورنمنٹ ہائی اسکول چک لارگن بجالتہ(زون گاندھی نگر) جموں کردیا ۔یہ دن بھی میرے لیے ایک بڑی خوشی کادن تھا ۔میں چونکہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ سنجواں فردوس آباد میں اپنے مکان میں رہائش پذیر تھا۔اس لیے بجالتہ میرے گھر سے کوئی زیادہ دُور نہیں تھا ۔قصبہ بجالتہ اور خاص کر ہائی اسکول چک لارگن بجالتہ سے جُڑی کئی کھٹی میٹھی یادیں میرا دامن ِدل تھامے ہوئی ہیں۔میرے دوسست محمد سلیم ملک میرے جوائن کرنے کے چھ ماہ بعد ہائی اسکول بجالتہ سے بحیثیت ہیڈ ماسٹر سُبکدوش ہوگئے تھے ۔میرے عزیز ہم پیشہ ساتھیوں میں وجے شرما،رویندر،دویندر اور روہت شرماکے علاوہ محمد جمیل اور جناب محمد پرویز ہیڈماسڑ آج بھی میری نظروں کے سامنے ہیں ۔مجھے یاد ہے اپریل 2015؁ء میں ریڈیو کشمیر جموں نے ہائی اسکول چک لارگن بجالتہ میں ایک ڈوگری مشاعرے کا اہتمام کیا تھا ۔بجالتہ کے ڈوگری کلب کے ممبران نے مجھے بھی اس مشاعرے کاحصہ بننے پر مجبور کیا تھا اور باضابطہ اپنی ڈوگری نظم یا غزل کے ساتھ آنے کی دعوت دی تھی ۔ میں نے پہلی فرصت میں انکار کردیا لیکن ڈوگری کے شیدائیوں نے میری کوئی بھی بات نہیں مانی ۔میں نے اسکول سے گھر آکر اپنی ایک مخصوص دُھن میں اپنے ہی دل کو بہلانے کے لیے ڈوگری میں ’’میریاں گلّاں‘‘نام کی ایک نظم تیار کردی ۔میری اہلیہ ٹھیٹھ ڈوگری بولتی ہے ۔میں نے جب اُسے اپنی نظم سُنائی تو وہ پہلے مُسکرائی اور پھر پوچھنے لگی’’کیا آپ نے خود لکھی ہے؟‘‘میں نے کہا ’’ہاں میں نے خود لکھی ہے‘‘اُسے میری نظم پسند آگئی تھی۔دوسرے دن جب میں نے مشاعرے میں یہ نظم پڑھی تو تمام سامعین نے اسے بہت پسند کیا، خاص کر ریڈیو کشمیر جموں کے اُس وقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر سمبیال صا حب بہت خوش ہوئے ۔دراصل اس نظم میں رواداری ،بھائی چارے اور آپسی میل ملاپ کی باتیں شامل تھیں۔مجھے ریڈیو کشمیر جموں کی جانب سے اس ڈوگری نظم پر4000 روپے معاوضہ ملا تھا۔بجالتہ ہائی اسکول میں ،میں نے 15،اگست کے دن اپنا لکھا ایک ڈراما بچّوں سے اسٹیج کروایا تھاجسے وہاں کی عوام نے بہت پسند کیا تھا۔
2014؁ء میں اُترپردیش اُردو اکادمی نے میری تحقیقی وتنقیدی مضامین پہ مشتمل کتاب ’’اعتبار ومعیار‘‘کو انعام کا مستحق قراردیا اور مجھے اس کتاب پہ 5000روپے کا انعام موصول ہوا ۔اسی سال مالیگاؤں (مہاراشٹر)میں مجھے یک روزہ قومی سیمینار میں جانے کا موقع ملاتھا جہاں مجھے ’’وقارِادب ‘‘ایوارڈسے نوازاگیا ۔اس سیمینار میں، میں نے ’’اُردو افسانچے میں انسانی نفسیات اور معاشرے کی عکّاسی‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا تھا ۔اُردو افسانچے پہ یہ ایک اہم سیمینا ر تھا جس میں میری ملاقات پہلی بار اُردو کے معروف افسانچہ نگار جناب رونق جمال سے ہوئی تھی ۔اُن کے علاوہ احمد عثمانی ( مدیر ماہنامہ’’بیباک‘‘)عظیم راہی ،ہارون اختر اور ایم مبین جیسے افسانہ نگاروں سے بھی ملاقات ہوئی تھی ۔
ہائی اسکول چک لارگن بجالتہ زون گاندھی نگر(جموں) میں ڈیوٹی کے دوران ایک روز مجھے گورنر آفس جموں سے فون آیا کہ مجھے آنے والے کل گورنر صاحب کے آ فس میں حاضر ہونا ہوگا ۔میں نے چونکہ کچھ روز قبل گورنر صاحب کے نام ایک دراخوست لکھی تھی کہ میں اُن کے ہاتھوں اپنی تازہ مطبوعہ کتاب ’’اُردوادب میں تانیثیت‘‘(Feminism in urdu Literature)کی رسم رونمائی چاہتا ہوں ۔اس لیے میری درخواست منظور کرلی گئی تھی۔دوسرے دن میں پورے گیارہ بجے دن کو راج بھون پہنچ گیا ۔این این وہرا صاحب اُن دنوں ریاست جموں وکشمیر کے گورنر تھے۔نہایت شریف ،جہاں دیدہ، کمال کے منتظم ِاعلیٰ اور ادب نواز بھی ۔مجھے خدام نے الگ ایک کمرے میں بٹھایا ۔فوراً میرے لیے چائے ،بسکٹ اور مٹھائی لائی گئی ۔چائے پینے کے بعد مجھے این ا ین وہراصاحب نے اپنے پاس بلایا ۔میں اُن کی خدمت میںبڑے ادب واحترام کے ساتھ دروازے کے اندر داخل ہوا تو وہ اپنی شاہانہ کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔مجھ سے بڑے پُر تپاک انداز میں ہاتھ ملایا پھر دوسری کرسی پہ میرے رُبرو بیٹھ گئے ۔میں نے اپنی کتاب اُنھیں پیش کی۔اُنھوں نے فوراً کیمرہ مین کو بلایا ۔فوٹو کھنچوایا اور پھر کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہنے لگے
’’آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے ‘‘
میں نے عاجزی کے ساتھ کہا
’’جناب کوشش کرتا ہوں کہ کوئی اچھا کام کرجاؤں ‘‘
پھر اُنھوں نے نوابی دور کے لکھنو میں اُردو کلچر کے بارے میں بڑی معلوماتی باتیں بتائیں ۔اُنھیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں اب تک ایک اسکول ٹیچر کی حیثیت سے کام کررہاہوں تو مایوس ہوئے ۔پھر مجھے یہ مشورہ دیا کہنے لگے
’’جب بھی کہیں کسی یونیورسٹی میں اُردوپوسٹ کی تشہیرہو تو آپ فارم بھر دیجیے ‘‘
میری یادوں کے البم میں یہ دن بھی محفوظ ہوگیا ہے ۔
2014؁ء میں مجھے باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کی جانب سے ایک دفتری دعوت نامہ موصول ہوا جس کا مضمون یہ تھا کہ مجھے 10،اگست 2014؁ء کو جموں میں راجوری یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں دن کو 10بجے اُردو اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ کے لیے انٹرویو میں شامل ہونا ہے ۔انٹرویو سے تین دن قبل میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے اُردو کے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ کشمیر چلا گیا ۔ اُردو کے ایک اچھے فکشن نگار جناب وحشی سعید نے اُن اُدبا اور شعرا ء کو کشمیر کی سیروتفریح اور اپنے شہنشاہ ہوٹل میں ادبی مجلس کی رونق بننے کی خاطرمدعو کیا تھا ۔ان بیرون ریاست اُدبا اور شعرا نے ایک ہفتہ کشمیر میں ٹھہرنے کا پروگرام بنایا تھا ۔میں نے جب جناب وحشی سعید او ر جناب نورشاہ جیسے بُزرگ ادیبوں کے سامنے اپنے انٹرویو کی بات رکھی اور اُن سے مشورہ چاہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تو اُنھوں نے مجھے انٹرویو دینے پر آمادہ کیا، میں کسی بھی صورت میں انٹرویو دینے کے لیے تیار نہیں ہورہا تھا ۔میں نے مجبور ہوکر ہوائی جہاز کا ٹکٹ بنوایا اور دوسرے دن نہ چاہتے ہوئے سرینگر سے جموں بذریعہ ہوائی جہاز انٹرویو دینے چلا آیا ۔ یہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا۔بچپن سے اکثر زمین سے اوپر اور آسمان سے نیچے یعنی خلا میں ہوائی جہازوں کوبڑی اونچی آوازمیں اڑتے دیکھتا آیا تھا لیکن جہاز پہ سوار ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔ دوسرے دن انٹرویو دینے چلاگیا ۔اس انٹرویو میں کُل آٹھ اُمیدوار شامل ہوئے تھے ۔میرانمبر آٹھواں تھا ۔45منٹ تک میرا انٹرویو ہوا تھا ۔سوالات پہ سوالات ،میری کتابوں اور رسائل کی نمائش کے بعد جب مجھ سے آخر پہ یہ پوچھا گیا کہ
’’ آپ اب تک اپنے حق سے محروم کیوں رہے ؟ کیا آپ کے خلاف کوئی مشن تو نہیں ہے ؟‘‘ میں نے انٹرویو لینے والے حضرات کو صرف اتنا ہی کہا تھا کہ ’’ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرے خلاف کوئی مشن ہے یا نہیں لیکن گھر میں میری کمسن بیٹی کبھی کبھی مجھ سے یہ سوال ضرور پوچھتی ہے کہ پاپا ! کیا جنت میں بھی شعبۂ اُردو قائم کیا گیا ہوگا ؟اس د ُنیا میں تو آپ کو آپ کا حق نہیں ملا ،کیا آخرت میں ملنے کی کوئی اُمید ہے ؟تومیں اُس کے سوال کا جواب نہیں دے پاتا ہوں،سوائے اس کے کہ میری آنکھوں سے گرم گرم آنسو بہنے لگتے ہیں !‘‘ میں اس انٹرویو میں سلیکٹ ہوگیا تھا ۔ممتحین(Experts )نے مجھے انصاف دلادیا تھا لیکن اُس وقت کے وائس چانسلر نے مجھے سلیکشن آڈر نہیں دیا تھا۔آڈر کا انتظار کرتے کرتے نو مہینے بیت گئے اور قابل حیرت بات یہ کہ اُس پوسٹ کی ایک بار پھر تشہیر کی گئی جس پہ میں سلیکٹ ہوچکا تھا ۔اُس کے فوراً بعد میں ہائی کورٹ چلا گیا اور اُس پہ روک لگوادی ۔تقریباً دو سال تک میں ہائی کورٹ جموں میں اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کیس لڑتارہا۔بالآخر میں نے بہ فضل اللہ دسمبر2016؁ء کے پہلے ہفتے میں کیس جیت لیا ۔جموں کے ایک سینئر وکیل جناب شیخ شکیل احمد نے میری وکالت کی تھی ۔یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ جب میں گورنمنٹ ہائی اسکول کشن پور منوال میںڈیوٹی دے رہا تھا ۔ 2015؁ء میں ،میں نے مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدر آباد میں اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر کی پوسٹ کے لیے انٹرویو دیا تھا۔میں جموں ایئر پورٹ پہ جہاز میں سوار ہوا تو میری فلائٹ سرینگر سے دہلی چلی گئی ۔رات کو اندارگاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے نزدیک ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرا تھا اور دوسرے دن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ میری فلائٹ کسی وجہ سے کینسل ہوگئی ہے تو اُس وقت میں سخت ذہنی اور نفسیاتی خلفشار میں مبتلا ہوگیا تھا ۔تیسرے دن انٹرویو تھا۔میں نے فوراً جموں اپنے ٹریول ایجنٹ کرن کو فون کیا تواُس نے فوری طور پر مجھے دوسری ایئر ٹکٹ بنا کر میل کردی اس طرح میں نے راحت کی سانس لی تھی اور دوسرے دن حیدر آباد کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔حیدر آباد میں میرے دو چاہنے والے اردو کے معروف اور ذہین پروفیسر رہتے ہیں اُن میں ایک کا نام پروفیسر مجید بیدار ہے اور دوسرے کا نام پروفیسر بیگ احساس ہے ( بیگ احساس اب دُنیا میں نہیں ہیں) ۔جموں سے روانہ ہونے سے پہلے ہی میں نے پروفیسر مجید بیدار صاحب کو اپنے انٹرویو دینے اور حیدر آباد آنے کی اطلاع دے دی تھی ۔وہ مجھے حیدر آباد کے ایئر پورٹ پر اپنے دوست کے ساتھ گاڑی میں لینے آئے تھے۔بڑی مشکل سے مسافروں کے ہجوم میں ،میں نے پروفیسر مجید بیدار صاحب کو پہچان لیا تھا ۔رات کا وقت تھا اور میں پہلی بار حیدر آباد جیسے گنجان اور وسیع وعریض شہر میں داخل ہواتھا ۔ مجید بیدار صاحب کے دوست کو رات کے وقت گاڑی چلاتے پتا نہیں چلا کہ ہمیں کس طرف جانا ہے، وہ تقریباً بیس کیلو میڑ دُورکسی اور ہی راستے پر چلا گیا ۔بعد میں یہ معلوم ہوا کہ ہم ایک غلط راستے پر آگئے ہیں ۔بہرحال اُنھوں نے مجھے رات کے تقریباً بارہ بجے ایک ہوٹل میں چھوڑ دیا تھا اور مجھے اپنی نیک دُعاؤں اور مشوروں کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے انٹر ویو میں کامیاب ہونے کا یقین دلایا تھا۔دوسرے دن انٹرویو ہوا بس وہی اپنی کتابوں اور رسالوں کا بوجھ لیے لیے پھرتا رہا ۔میرا یہ انٹرویو بھی بہت اچھا ہوا تھا لیکن اس سب کے باوجود میری یہاں بھی سلیکشن نہیں کی گئی تھی کیونکہ سلیکشن سے پہلے ہی سلیکشن ہوچکی تھی ۔اللہ نے شاید میری فریاد سُن لی تھی کہ اس سلیکشن کو بعد میں مسترد کردیا گیا۔ دوسال دو ماہ ہائی اسکول چک لارگن بجالتہ میں رہنے کے بعد میں جولائی 2015؁ء میں ہائی اسکول کشن پور منوال میں آگیا تھا ۔کشن پور ہائی اسکول میں ٹر ین میں آتا جاتا تھا ۔میں نے بہت سے مضامین اور کہانیاں ٹرین میں سفر کے دوران لکھی ہیں ۔ریلوے اسٹیشن جموں اور منوال کا پوار نقشہ میری یاداشت میں محفوظ ہے ۔مختلف محکمہ جات کے ملازمین کی اپنی ڈیوٹی پہ جانے کی دوڑ بھاگ آج بھی میری نظروں کے سامنے آرہی ہے جو کئی کہانیوں کو جنم دے سکتی ہے ۔جموں سے کشن پور جانے والے میرے ساتھیوں میں ماسٹر نریندر پال شرما اورماسٹر ہری سنگھ کے ساتھ بھی میری یادوں کا ایک سلسلہ جُڑا ہواہے۔کشن پور ہائی اسکول کا تمام اسٹاف بہت اچھا تھا خاص طور پر میں ماسٹر سوم راج کو زندگی کے کسی بھی موڑ پر نہیں بھول پاؤں گا جن کی انسان دوستی ،شرافت ،دیانتداری اور ہنس مکھ چہرے کا میں بہت قائل ہوں ۔اُنھوں نے کئی بار میری حق تلفیوں پر اظہارِتاسف کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ سے پُر اُمید اور خوش رہنے کا مشورہ دیاہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پہ بہت بڑ ا احسان رہا ہے کہ میں نے اسکول ایجوکیشن محکمے میں 29سال9ماہ اور4دن بحیثیت معلّم کام کیا اورجہاں کہیں بھی رہا مجھے لوگوں نے اور اپنے اسٹاف کے ممبران نے عزت واحترام کی نظر سے دیکھا ۔ 2015ء ہی میں ،میں نے گورمنٹ ہائی اسکول کشن پور میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہوئے جموں سجنواں میں اپنے مکان کی دوسری منزل کی تعمیر کے لئے آٹھ لاکھ روپے جی پی فنڈ سے اپنے بینک اکا ونٹ میںڈلوائے اور دوسری منزل کا کام شروع کروادیا۔میرے ایک جانے پہچانے دوست رندھیر چند انتال نے مکان کا نقشہ تیار کیا ۔دو بیڈ روم ، ملحقہ غسلخانے ، ایک بڑی لابی،رسوئی ،باہر چھوٹی سی بالکونی کو مکمل کرتے تقریباً ساڑھے تین سال لگ گئے ۔اس دوسری منزل کی تعمیر کا ٹھیکہ میں نے رویندر نام کے ایک بہاری مستری کو دیا ۔اُس نے مناسب ریٹ پر میراکام کسی حدتک اچھا کیا ۔بجلی ،پانی ،کھڑکیاں دروازے،رنگ روغن اور دوسری بہت ساری چیزیں لگاتے کرتے تقریباً بیس لاکھ روپیہ صَرف ہوا۔اب بھی بہت ساری چیزیں میرا مکان مجھ سے مانگتا ہے ۔میرے تجربے اور مشاہدے میں یہ بات آگئی ہے کہ مکان بنانے کے لئے کافی سرمایہ چایئے ۔بہ فضل اللہ دوسری منزل کا جوخواب میں نے کسی زمانے میں دیکھا تھا وہ شرمندہ ء تعبیرہوا۔2016 ؁ء میں بہار اُردو اکادمی نے میری تحقیقی وتنقیدی مضامین کی کتاب ’’شعور ِبصیرت‘‘ پہ 10,000روپے کا نعام دیا ۔میں نے اللہ کا شکرادا کیا ۔میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔بس یہ سب اللہ کا کرم ہے ، میرا کوئی کمال نہیں ہے ۔ 2016؁ ہی میں مجھے بہار اُردو اکادمی کے دوروزہ قومی سیمینار میںشرکت کرنے کا موقعہ ملا اس سیمینار کا موضوع تھا’’اُردو فکشن کے دوسو سال‘‘میں نے اس سیمینار میں اپنا افسانہ ’’قبر میں زندہ آدمی ‘ سُنایا تھا جسے کافی پسند کیا گیا تھا ۔ 12جنوری 2016؁ء کو مجھے ممبئی میں گلوبل ایچیور ایوارڈ سے نوازاگیا ۔دادر ویسٹ ممبئی میں یہ انعامات کی تقریب منعقد کی گئی تھی ۔میرے مقدّر کا ستارہ بڑے عجیب وغریب انداز میں چمکتا رہا ہے ۔میں نے کبھی خواب میںبھی نہیں دیکھا تھا کہ ایک دن مجھے ممبئی میں گلوبل ایچیور ایوارڈ ملے گا ۔یہ سب اللہ کا مجھ پہ خصوصی کرم تھا کہ میری علمی وادبی خدمات ، محنت ولگن اور ذوق وشوق کو ممبئی جیسے بڑے شہرمیں انعام واعزازکے ساتھ سراہا گیا۔ جاری۔۔۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا