غزل

0
39

جو تاجدار حصارِ انا میں رہتے ہیں
وہاں کے لوگ نئی کربلا میں رہتے ہیں

ہمارے قد کا تصوّر تمہارے بس میں نہیں
ہم آسمان ہیں، تحت الثریٰ میں رہتے ہیں

انا، فریب، عداوت، نفاق اور سازش
یہ سارے شر تو کسی بے وفا میں رہتے ہیں

یہ اور بات ہماری سمجھ میں آتے نہیں
کئی اِشارے تِری اِک ادا میں رہتے ہیں

میں اْس مقام پہ پہنچا ہوں روشنی لیکر
تمام راستے میری دِشا میں رہتے ہیں

مِرا مزاج زمانے سے ہے الگ سالکؔ
مِرے چراغ ہمیشہ ہوا میں رہتے ہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا