غزل

0
68

وقت کے ظالم سمندر میں پریشانی کے ساتھ
ڈوب جاتا ہے کوئی کیوں اتنی آسانی کیساتھ
میں وہی ہوں اور میرا مرتبہ مجھ سے بلند
نام اپنا لے رہا ہوں میں بھی حیرانی کے ساتھ
میری سانسوں کی مہک کا دور تک چرچا ہوا
رات جب میں نے گزاری رات کی رانی کے ساتھ
میں نے تو کچھ آستیں کے سانپ گنوائے تھے یار
تم نے کیوں آنکھیں جھکا لی ہیں پشیمانی کے ساتھ
اک تبسم کا بھرم آباد ہونٹوں پر کے
جی رہے ہیں لوگ اپنی اپنی ویرانی کے ساتھ
اک پری اک جادوگرنی کے علاوہ بھی کہیں
ہو گ رخصت ک قصے مری نانی کے ساتھ
کربلا والے اگر ہیں محترم ! تو محترم
نوش مت جامِ شہادت کیجئے پانی کے ساتھ
مر گیا مصداق بھی سلطان ٹیپو کی طرح
دیکھ کر ہمراز اپنا دشمنِ جانی کے ساتھ
مصداق اعظمی

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا