سی اے اے پر امریکی رکن پارلیمنٹ کا تلخ بیان

0
57

کہاہم مسلمانوں کے لیے پریشان ہیں، قانون رمضان میں نافذ ہوا
بھارت کو مذہب سے بالاتر ہو کر انسانی حقوق کی بنیاد پر ایسا فیصلہ لینا چاہیے:بین کارڈن
لازوال ڈیسک

واشنگٹن؍؍سی اے اے پر امریکہ امریکی سینیٹر بین کارڈن نے بھارت میں نافذ شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 پر سخت بیان دیا ہے۔ امریکی رکن پارلیمنٹ بین کارڈن نے ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون 2019 کے حالیہ نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم رمضان کے مہینے میں سی اے اے کے نفاذ کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں پریشان ہیں۔‘‘ امریکی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ بھارت کو مذہب سے بالاتر ہو کر انسانی حقوق کی بنیاد پر ایسا فیصلہ لینا چاہیے۔
درحقیقت امریکی رکن پارلیمنٹ بین کارڈن خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے سی اے اے کو ایک متنازعہ قانون قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں ہندوستانی شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کو لے کر بہت پریشان ہوں۔ میں خاص طور پر اس بات سے پریشان ہوں کہ اس قانون کا ہندوستانی مسلمانوں پر کیا اثر پڑے گا‘‘۔
بین کارڈن نے کہا کہ امریکہ بھارت تعلقات کی مضبوطی کے دوران یہ ضروری ہے کہ ہمارا تعاون مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بنیاد پر ہو۔ کارڈن نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان سی اے اے کے نفاذ سے بہت پریشان ہیں، اس کی سب سے بری بات یہ ہے کہ یہ قانون رمضان کے مہینے میں لاگو کیا گیا تھا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں ہندوستان کے مسلمانوں پر اس قانون کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی سینیٹر کارڈن سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ نے بھی سی اے اے پر بیان دیا تھا۔ اس دوران بھی سی اے اے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، پھر ہندوستان نے امریکہ کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ غلط معلومات کی بنیاد پر امریکہ کے بیانات غیر منصفانہ ہیں۔ تاہم، اس دوران امریکہ کے ہندو پی اے سی ٹی اور گلوبل ہندو ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے سی اے اے کی حمایت کی۔
گلوبل ہندو ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے وی ایس نائپال نے کہا کہ سی اے اے پڑوسی ممالک میں ستائی ہوئی اقلیتوں کو شہریت دینے کا قانون ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کے خلاف مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ جبری تبدیلی مذہب، قتل، عصمت دری اور ہر طرح کے مظالم سے تنگ آکر ہندوستان آئے لوگوں کو اب ان کے حقوق مل چکے ہیں۔ بھارتی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس قانون کا بھارتی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہندو، مسلم، سکھ اور پارسی مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کا قانون ہے جو پڑوسی ممالک سے بھاگ کر آئے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا