سفاکی فوجیں

0
66

ایم۔یونس ؔ، کمرہٹی(کولکاتا)
9903651585

یہ جنگ تھوڑے ہی تھی۔ یہ تو سازشوں کا خونخوار کوہ آتش فشاں تھا۔ جسے منظم طریقے سے ان مظلوموں کے مادر وطن پر لا کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اس آتش فشاں کی کوکھ سے صرف ظلم بر بریت، خونخواری، وحشیانہ پن، غیر آدمیت کا خوفناک چہرہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی جدید اور جان لیوا ہتھیاروں ، بم و گولیوں کی بارش ہو رہی تھی۔ دنیا کے سارے انصاف کی دہائی دینے والے ممالک اور اقوام متحدہ کی عدلیہ ان ظلم ڈھانے والے صیہونی طاقتوں کو سزا دینے پر غالب نہیں ہو پا رہی تھی۔ انسانی بستیاں اب خون اور لاشوں کے ڈھیر پر کھڑی تھیں۔ اونچی اونچی عمارتیں انسانی نفوس کے ساتھ ملبوں کے ڈھیر میں بدل چکی تھیں۔ یہ مظلوم اپنی جان کی پناہ لینے کے لئے کیمپوں کی طرف آسرا تلاش کر رہے تھے۔ وہاں بھی یہ مظلوم محفوظ نہیں تھے۔ یہ بھی وحشی صیہونی فوجیوں کے بارود اور گولوں سے دھدھک رہی تھی۔ نہ مریض ہسپتالوں میں زندہ تھے اور نہ ہسپتال انسانوں کی زندگی دینے کے لائق بچے ہوئے تھے۔ شہر کی زندگی میں جتنے ہسپتال تھے ۔ چاہے وہ غزہ کا جنوبی علاقہ ہو یا شمالی علاقہ یا پھر خان یونس کا علاقہ ہو۔ سب پر ان درندوں کی غضبناکی اور سفاکیت کا لا متناعی سلسلہ جاری تھا۔ صیہونی فوجوں نے اپنے وحشیانہ انتقام کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بد تر گھنائونی حرکتوں پر اتر آئی تھیں۔ اتنا ہی نہیں یہ وحشی صیہونی فوجیں ان بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کو جہاں تہاں سے قید کرلیتی تھیں۔ انہیں گندی اذیتیں پہنچاتیں اور ان پر بے دریغ گولیاں چلا کر ہلاک کر دیتی تھیں۔ ہر روز یہ خونخوار بھیڑیئے سو ڈیڑھ سو مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کرتیں جیسے یہ ان کا صبح کی خوراک ہو۔ غضب تھا قیامت صغریٰ کا فگار سے بھرا ہوا یہ منظر کس قرآن پڑھنے والے کا دل نہ دہل جائے اس دل دوز ا المناک منظر کو دیکھ کر!؟کوئی بھی مظلوم فلسطینی ان فوجیوں کے سامنے اپنے حق کے لئے مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ مظلوموں کی ایسی لاشیں بھی برآمد ہوئی تھیں جن کی آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ یہ خونخواری اور دہشت گردی کا ایک سخت ظالمانہ چہرہ تھا۔
آہ و بکا سے بھری ہوئی یہ غزہ کی وادی آج دنیا کے سامنے بے یارو مددگار چیخ رہی تھی۔ ان کے کرب و آنسوئوں کو کائنات میں اڑنے والے پرندے بھی اپنی آنکھوں میں بھر کر اونچی اونچی شاہی عمارتوں پر بیٹھ کر ان شیش محل کے بادشاہوں کو پکار رہے تھے۔ پھر بھی ان کے آنسوئوں کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں تھا۔
وہ بوڑھا ستر سال کا تھا مگر فولاد کی طرح نہ شکن ہونے والا اجڑے ہوئے گھر سے ان ظالم فوجیوں نے اسے اپنی بندوق کی نوک پر گرفتار کر لیا تھا۔ وہ بہت بیمار تھا۔ اسے دوا کی سخت ضرورت تھی۔ اس نے ان جابر فوجیوں کے سامنے سختی سے اعتراض جتاتے ہوئے کہا’’ میں بیمار ہوں ، میں چل بھی نہیں پارہا ہوں، مجھے اسوقت دوا و علاج سخت ضرورت ہے۔‘‘ یہ اس کی بپتا تھی مگر کون اس پر رحم کھاتا!؟ ۔انسانوں کی اس بستی میں حیوانیت کا جنگل راج قائم ہو چکا تھا۔ ان کا اپنا ملک دشمنوں کے نرغے میں سقوط بنا ہوا تھا۔ زمین ان کی ، سرحدیں ان کی، ان باڑوں کو پھلانگنے والے یہ نا ہنجار فوجیں ان مظلوم فلسطینیوں کے سینے چیر کر ان کے خون کے فواروں سے اپنی توپوں کی نالوں کو ٹھنڈا کر رہے تھے ۔ یہ درندہ فوجیں اپنا خوفناک و ڈرائونا چہروں کولے کر اس ملک کے سارے مظلوم انسانون کے خون کو راکھشش کی طرح پی جانا چاہتی تھیں۔ یہ صیہونی فوجیں اس بیمار بوڑھے کو گھسٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے جاکر ایک منہدم مکان میں قید کر دیا تھا۔ اس قید خانہ میں اور بھی مظلوم لائے گئے تھے۔ انہیں ہر طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
یہ صیہونی فوجیں پانچ ماہ سے جنگجوئوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے۔ اپنے اسرائیلی ہم وطنوں کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ اسی خفتی جنون میںاپنی انسانی توازن کو کھو کر ہر لمحہ مظلوم فلسطینیوں پر حیوانی اور درندگی کا نیا نیا روپ اختیار کر رہے تھے۔ وہ فوجی دستے ان قید کئے گئے مظلوم فلسطینیوں پر مار پیٹ کے علاوہ انہیں بھوکا اور پیاسا تڑپتا چھوڑ دیے تھے۔ چار دنوں سے اس بیچارے بوڑھے ضعیف کو پینے کے لئے پانی نہیں دیا گیا تھا۔ وہ ظالم صیہونی فوجیں اتنی جابر تھیں کہ وہ اپنی بوتلوں سے پانی زمین پر اس کے سامنے گرا دیتے اور حقارت سے بوڑھے کو کہتے ’’ لو اب پانی پیو‘‘ وہ بوڑھا فلسطینی مجاہد بھی مکمل ایمان والا تھا۔ وہ جنون میں آکر ان فوجیوں کے سامنے اپنے ہاتھوں کو چیرتا اور خون کے تازہ تازہ ٹپکتے ہوئے قطروں کو اپنی خشک زبان پر لگا لیتا تھا۔ وہ جانتا تھا خون پینا حرام ہے۔ اس تڑپتی ہوئی پیاس کو بجھانے کا یہی ایک راستہ تھا۔ وہ اپنے خون سے زبان تر کرتے ہی ان دشمن فوجیوں سے نڈر ہو کر کہتا ’’دیکھو! میں نے اپنی پیاس بجھالی ۔‘‘یہ دنیا کا وہ بہادر مظلوم فلسطینی معمر مجاہد تھا جس کے حوصلوں کا جواب شاید ان نامراد اور بزدل صیہونی فوجی دستوں اور اسکے ہم نوا فسطائی طاقتوں کے پاس نہیں تھا۔ وہ درندہ وحشی فوجیں صرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کراسے دیکھ رہی تھیں۔ ان کے پاس اس کے اوپر تشدد ، مار پیٹ اور زدوکوب کرنے کا سوا کچھ بھی نہ تھا۔
دوسرا مظلوم فلسطینی قیدی جس کو اسرائیلی فوجوں نے اپنے شکنجے میں لے لیا تھا۔ وہ بھی گالی گلوج، مارپیٹ اور نازیبا تشدد کا شکار بنا ہوا تھا۔جب وہ اپنے ظلم ڈھانے سے بھی مطمئن نہیں ہوئے تو ان آمریت پسند فوجی دستوں نے اس کے بدن پر بھیگا کمبل ڈال دیا۔ بھیگے کمبل کی وجہ سے وہ ٹھنڈ سے کانپنے لگا۔ مگر اس کی روح موت پر حاوی تھی۔ اس وقت اس کے ملک میں انسانوں کی موت کی بارش ہو رہی تھی۔اگر اس کے سینے پر ایک گولی لگ جاتی تو اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں تھا۔ غزہ کی سرزمین مظلوم فلسطینیوں کی لاشوں کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔بندوق کی نالیوں سے نکلی ہوئی ہزاروں گولیاں غزہ کی وادی میں آندھیوں کی طرح انسانی جسموں کو چھلنی کر رہی تھیں۔ یہ مظلوم فلسطینی محفوظ جگہ کی تلاش میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ گھنٹوں گھنٹوں پیدل سفر کر رہے تھے۔ اسرائیلی درندوں کی تعینات چوکیاں ان تھکے ماندے نہتھے مظلوموں کو اپنے گھیرے میں لیکر ان کی جانچ کرتی تھیں۔ شک و شبہات کی بنیاد پر انہیں دہشت گرد سمجھ کر ان کے جسم کے کپڑے اترواتی یہاں تک زیر جامہ بھی بے ستر کر کے ننگا کھڑا دیتی تھیں جسے چاہتی اس کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کے موجود رشتہ داروں سے الگ لے جاکر موت کے گھاٹ اتار دیتی تھی۔نہایت ہی افسوس ناک اور دل سوز سانحہ تھا جہاں انسانی دہشت گردی کا یہ گھنائونا عمل خود فلسطینیوں کے وطن میں ان کی اپنی زمین پر ہو رہا تھا۔ سر کٹا، بازو کٹے، پائوں کٹے، دھڑکٹی لاشیں ’انسانی ہمدردی راہداری‘ پر جو انسانی جانوں کا محافظ تھا انہی راستوں کے کنارے پڑی بے گورو کفن سڑ رہی تھیں جنہیں پرندے نوچ نوچ کھا رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ ہماری نیتوں اور دل کے حال کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ مملکتیں جو معصوم فلسطینی بھائی ، بہنوں اور بچوں کو بھوکا بلکتا چھوڑ کر صیہونی طاقتوں کو رسد پہنچانے میں تعاون دے رہی ہیں۔ کل ان کی پکڑ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہونے والی ہے۔
ہم بس اتنا جانتے ہیں۔ جہاد کی لوجب جل اٹھتی ہے تو وہ کسی کفر کی طاقت کے آگے سرنگوںنہیں ہوتی ہے۔ یہ جنگ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک سخت آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام فلسطینیوں کے ایمان میں اس جہاد کی روح کو زندہ و جاوید رکھے آمین!
[email protected]
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا