سرکاری اسکیموں تک عوامی رسائی

0
160
سرکار کی جانب سے عوام کو براہ راست سہولت
پہنچانے کے لئے لائی گئی سرکاری اسکیمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عوا م اب جانتی ہے قدرے عوام کو سرکاری اسکیموں کے متعلق بیداری بھی ہے جس کی وجہ سرکاری کی اشہاری مہم یا پھر عوام سطح پر عوام کا سرکاروں کے تئیں امیدوں  کا سمندر ہے عوام کیلئے سرکار کی جانب سے بہت ساری اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ تقریبا ہر سطح کی عوام کے لئے سرکار کی جانب سے عوا م کو فائدہ پہنچانے کے لئے اسکیمیں ہیں بے جا نہ ہوگا یہ بہت اچھی بات ہے وقتا فوقتا سرکا رکی جانب سے نئی اسکیموں کو بھی لایا جاتا ہے یا پھر پہلی سرکاروں کی جانب سے لائی گئی اسکیموں کے نام تبدیل کرکے ان اسکیموں کو عوام میں لایا جاتا ہے لیکن عوامی سطح پر سرکار ی اسکیموں سے فائدہ لینے کے لئے عام انسان کو کمپیوٹر کی دوکانوں سے سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے پڑھتے ہیں عوام اس سے پریشان ہوکر سرکاری اسکیموں کا زیادہ پیچھا کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں کئی سرکاری اسکیموں سے فائدہ لینے کے لئے جن دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے ان سے ایسا لگتا ہے کہ یہ عوام کے لئے نہیں بلکہ برائے نام بنائی گئی اسکیمیں ہیں ۔ جمو ں و کشمیرمیں پردھان منتری ایواس یوجنا جس کا ذکر تقریبا منتری سے لیکر سنتری تک سب کرتے ہیں کی کا اگر یوٹی جموں وکشمیر میں جائزہ لیا جائے اس کا بھی کچھ حال بے حال ہے اواس یوجنا میں اولا تو جو لیسٹیں تیار ہوتی ہے ا نکو تیار کرنے میں اور لسٹ میں نام ڈلوانے کے لئے اچھی خاصی محنت پنچ سے لیکر متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ افیسران کے دفاتر کے چکر کاٹ کرکرنی پڑھتی ہے اس کے بعد جب نام آجاتا ہے پھر اس کے لئے سب سے اہم دستاویز راشن کارڈ ہے جوکہ جموں و کشمیر میں پچھلے کئی سالوں سے نہیں بن رہے ہیں جس کی وجہ تک بھی عام عوام کی رسائی نہیں ہے عام آدمی آخرکار تمام دستاویز ات مکمل کرنے کے بعد یہاں آکر محکمہ ملازمین جوزمین پر کام کررہے ہیںکے زریعہ پرسن ٹیج دیکر کام کروانے کے لئے الگ سے محنت کرنے لگ جاتاہے یہی حال کچھ ممکن اسکیم کا بھی ہے یہی حال کچھ صحت کاارڈعوام میں مشہور (مودی کارڈ ) کا بھی ہے اس تک بھی رسائی عوام آدمی کے بس میں نہیں ڈیجی ٹلایزیشن کے بعد ایک بات ضرور ہوئی ہے کمپوٹر کی دوکانوں پر عوام کی اچھی خاصی بھیڑ اور مالکان کے من مانے ریٹ کی مار عوا م ہی جھیل رہی ہے جس سے عوام کو نجات حاصل کرنی تو اپنا ووٹ کام کی بنیاد پر دینے کی ضرورت ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا