اپنے ورثے کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرتی کالبیلیہ برادری

0
154

 

 

 

 

گھنشیام ساداوت
اجمیر، راجستھان

ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذاہب، ذاتوں اور برادریوں کی سب سے بڑی تعداد آباد ہے۔ کچھ کمیونٹیز کا وجود ہزاروں سال پرانا سمجھا جاتا ہے جبکہ کچھ کمیونٹیز ایسی ہیں جو اتنی پرانی ہیں کہ ان کے اصل وجود کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ کمیونٹیز ایسی ہیں جن کی اصل 11ویں یا 12ویں صدی سے ہے۔ تاہم اس جدید دور میں ان کمیونٹیز میں سے بہت سی ایسی ہیں جنہوں نے آج بھی اپنی ثقافت اور ورثے کو اس کی اصل شکل میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ یہ کمیونٹی نہ صرف جدید ادویات سے زیادہ اپنے دیسی علاج پر یقین رکھتی ہے بلکہ اسے اپناتی بھی ہے۔ تاہم، اس کا طبی طریقہ کسی سائنسی ثبوت پر مبنی نہیں ہوتاہے۔ ایسی حالت میں اسے مصدقہ اور درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ لیکن یہ کمیونٹی برسوں سے اس طریقے کو اپنا رہی ہے۔ راجستھان کی کالبیلیا برادری بھی ان میں سے ایک ہے۔ جو نسل در نسل دیسی طریقہ سے آنکھوں پر لگانے کے لیے سورما (کاجل) تیار کرتی رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسی سورما کی وجہ سے ان کی برادری میں کبھی کسی کی آنکھ کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔ تاہم اب اس کمیونٹی کی نئی نسل جدیدیت اور سائنسی طب سے متاثر ہوکر اپنے ورثے پر یقین نہیں کر اس سے دور ہونے لگی ہے۔کالبیلیہ برادری دنیا بھر میں سانپوں کو پکڑنے اور خانہ بدوش زندگی گزارنے کے لیے مشہور ہے، اسے سانپوں کا جادوگر، جوگی یا خانہ بدوش برادری بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے رقص اور موسیقی کی بھی ایک خاص پہچان ہے۔ یہ کمیونٹی 12 ویں صدی میں گرو گورکھ ناتھ کے شاگرد سے اپنے وجود کو جوڑتی ہے۔

کالبیلیا کی زیادہ تر برادریاں خانہ بدوش زندگی گزارتی ہیں۔ اسے حکومت کی طرف سے شیڈول ٹرائب کا درجہ ملا ہواہے۔ اپنے خانہ بدوش طرز زندگی کی وجہ سے وہ اکثر دیہات کے مضافات میں اپنی عارضی رہائش گاہ بنا لیتے ہیں۔ نسلوں سے جاری اس عمل کی وجہ سے انہیں مقامی نباتات اور حیوانات کے بارے میں خاص معلومات حاصل ہیں۔ اس علم کی بنیاد پر وہ کئی اقسام کے آیورویدک علاج کے بارے میں بھی جانکاری رکھتے ہیں۔ تاہم، پہلے کے مقابلے میں، اس کمیونٹی نے اب ایک جگہ مستقل رہائش کے طور پر رہنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر کے پاس آبائی جائیداد نہیں ہے۔کالبیلیا قبیلے کی سب سے زیادہ آبادی راجستھان کے پالی ضلع میں ہے۔ ان کی آبادی کی ایک بڑی تعداد ضلع اجمیر اور اس کے آس پاس کے دیہات میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس برادری کی ایک بڑی تعداد ضلع کے گگھرا پنچایت میں واقع ناچن باوڑی گاؤں میں آباد ہے۔ اس کے علاوہ سردار سنگھ کی ڈھانی، کشن گڑھ، کالا تالاب، جنڈا روپ نگر اور ارائی میں بھی اس برادری کی بڑی تعداد موجود ہے۔ کمیونٹی کی دیسی کاجل کے بارے میں 80 سالہ بیدام دیوی کا کہنا ہے کہ اسے کمیونٹی میں پیدا ہونے والے بچے سے لے کر 100 سال کے بزرگ تک ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے کمیونٹی کے کسی فرد کی آنکھوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچا۔

اس بنیاد پر وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس کا استعمال کرنے والے ان کی کمیونٹی کے کسی بھی فرد کی نظر قدرتی طور پرکبھی بھی کمزور نہیں ہوئی اور اسے کبھی چشمہ پہننے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔بیدام دیوی بتاتی ہیں کہ یہ سورما کمیونٹی کے لیے خالص دیسی شکل میں تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سانپ کے زہر،رتن جوت، سمندری جھاگ، الائچی کے بیج، پاتال تمبڈی اور بیل کی جڑ وغیرہ کے مرکب سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق کرتے وقت، کمیونٹی کے گرووں کے ذریعہ دیے گئے منتروں کا جاپ کیا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے استعمال کی وجہ سے ان کی کمیونٹی کا کوئی فرد طویل عرصے سے اپنی بینائی سے محروم نہیں ہوا ہے اور نہ ہی موتیا بند یا آنکھ کے فلو یا پانی کی آنکھ میں مبتلا ہونے جیسی بیماری میں مبتلا ہوتاہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی برادری اس سورما کو مہنگے داموں فروخت بھی کرتی ہے جسے دیہی برادری کے بہت سے لوگ خریدتے ہیں جو دیسی علاج پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم وہ اس کے لیے کوئی سائنسی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ شاید اسی لیے ان کا خیال ہے کہ ن کی اپنی برادری کی نئی نسل جو منطق اور استدلال کی بنیاد پر شواہد پر یقین رکھتی تھی، اب اس پر یقین نہیں رکھتی اور جدید طب پر زیادہ یقین کرنے لگی ہے۔ اسی لیے اب یہ سورما پہلے کی نسبت کالبیلیہ برادری میں کم مقدار میں تیار کیا جاتا ہے۔

بیدام دیوی ناچن باوڑی میں رہنے والی کالبیلیا برادری کے قدیم ترین ارکان میں سے ایک ہیں۔ ان کے شوہر کا 15 سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے دونوں بیٹے بھی چند سال قبل انتقال کر گئے تھے۔ ان دونوں کی بیوہ بیویاں اپنے بچوں سمیت بیدام دیوی کے پاس رہتی ہیں۔ بیدام دیوی کو جہاں ہر ماہ بڑھاپے کی پنشن ملتی ہے، وہیں ان کی بہوؤں کو بھی حکومت کی طرف سے دی جانے والی بیوہ پنشن کا فائدہ ملتا ہے۔ اس وقت ان کا سب سے بڑا پوتا انیل گھر کا کمانے والا ہے۔وہ کالبیلیہ برادری کے سانپ پکڑنے کے روایتی کام کی بجائے پینٹر کا کام کرتا ہے۔ بیدام دیوی کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے ان کی بیرادری کی نئی نسل نے سانپ پکڑنے یا سانپوں کا کھیل دکھانے کے لیے گاؤں گاؤں جانے کے بجائے کاروبار، مزدوری، ماربل فیکٹریوں میں مزدوری اورگاڑی چلانے کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔ اس کے علاوہ نئی نسل میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور بھی بڑھ گیا ہے۔ معاشرے کے زیادہ تر بچے مقامی اسکولوں میں جانے لگے ہیں۔ تاہم لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اس معاشرے میں اب بھی زیادہ شعور نہیں ہے۔ معاشرے کی اکثر لڑکیاں ابھی تک دسویں جماعت تک نہیں پہنچ پائی ہیں۔ جو کہ تشویشناک ہے۔کلبلیہ برادری کی نئی نسل کی سانپوں کو پکڑنے سے دوری کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے سانپوں کے حوالے سے بنائے گئے سخت قوانین بھی ہیں۔ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت سانپوں کو پالنے پر جیل یا جرمانے کی سزا ہے۔ تاہم بیدام دیوی پرجوش انداز میں کہتی ہیں کہ آج بھی گاؤں یا شہر میں کہیں بھی گھروں، مکانوں، دکانوں یا پرانی عمارتوں میں سانپ نظر آجائے تو لوگ اسے پکڑنے کے لیے ہمیں ہی پکارتے ہیں۔ لوگ خوشی سے ہمیں سانپ پکڑنے کے بدلے پیسے اور کپڑے دیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کی برادری میں سانپ کو اب بھی خاندان کا ایک اہم رکن ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ معاشرے میں جب لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اسے تحفے کے طور پر سانپ اور کتا دیا جاتا ہے۔ سانپوں سے اس محبت نے معاشرے کے بزرگوں کو اس کے زہر اور دیگر جڑی بوٹیوں کو ملا کر دیسی سورما بنانے کی ترغیب دی تھی۔ جسے وہ نسل در نسل بغیر کسی ٹھوس سائنسی ثبوت کے اپناتے چلے آ رہے ہیں۔تاہم کالبیلیہ معاشرے کی نئی نسل سائنسی حقائق کی بنیاد پر اس دیسی طریقہ علاج کے بجائے جدید ادویات کو ترجیح دینے لگی ہے لیکن بیدام دیوی جیسی بزرگ آج بھی اپنے معاشرے کے اس ورثے پر نہ صرف فخر کرتی ہیں بلکہ اسے بچانے اور اگلی نسل تک پہنچانے کے لیے بھی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ (چرخہ فیچرس)
5 Attachments
• Scanned by Gmail

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا