خطہ پیر پنجال اور گوجر قوم ؛کیسی بلندی ،کیسی پستی

0
482

۰۰۰
پروفیسر قدوس جاوید
سابق صدر ،شعبہ اردو کشمیر یونیورسیٹی
9419010472
۰۰۰

قسط1

  • قوم کوئی بھی ہو ، اس کی تاریخ عروج و زوال کے جلتے بجھتے چراغوں سے عبارت ہوتی ہے ۔ تاریخی اعتبار سے ، آریوں کے بعد ،گوجر قوم کے قافلے بھی ۵۰۰ قبل مسیح کے آس پاس وسط ایشیاکے گورجستان اور بحیرہ خذر Caspian Sea) )  کے علاقوں سے نکل کر نہ جانے کتنے ماہ و سال کے سرد و گرم جھیلتے ہوئے برِصغیر کے دریائے سندھ  و پنجاب کے ساحلوں پر اترے اور پھر اپنی محنت و مشقت ،جانبازی اور جگرکاری کی بدولت دوسری قوموں سے آگے نکلتے  چلے گئے ۔یہاں تک کہ پانچویں، چھٹی صدی تک آتے آتے گوجروں نے بر صغیر میں ہندوستان اور افغانستا ن کے ایک بڑے علاقے پر اپنی عظیم الشان سلطنت بھی قائم کرلی ۔تیرہویں صدی عیسوی تک گوجر سلطنت عروج پر رہی لیکن پھر غیر ملکی مسلم حکمرانوں  کے ہاتھوں ہی گوجر سلطنت کا زوال شروع ہوا یہاں تک کہ گوجروں کو اپنے اپنے ٹھکانوں سے ہجرت کرنی پڑی ۔گوجروں کے کئی قافلے  پہلے تو پنجاب کی طرف آئے اور پھر وہاں سے بھی نکل کر  شمال کی جانب کاغان ،سوات، ہزارہ ،گلگت اور جموں کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پھیل گئے ۔ گوجروں کے جو قافلے جموں و کشمیر میں آکر آباد ہوئے ان کی د و جماعتیں تھیں ایک جماعت ان گوجروں کی تھی جو راجپوتانہ ،کاٹھیاواڑ اور گجرات سے نکل کر سیدھی جموں و کشمیر کی پہاڑیوں کو اپنا مستقل نشیمن بنا لیا ۔ دوسری جماعت سیالکوٹ ،راولپنڈی، جہلم ، اور گوجرانوالا سے ہجرت کر کے جموں و کشمیر آکر سکونت پذیر ہوگئی تھی لیکن یاد رہے کہ بر صغیر کے مختلف علاقوں سے جموں و کشمیر میںآباد ہوتے رہنے کی داستان کئی صدیوں پر محیط ہے ۔پنڈت کلہن نے ’’راج ترنگنی ‘‘ میں لکھا ہے ، قوم کوئی بھی ہو ، اس کی تاریخ عروج و زوال کے جلتے بجھتے چراغوں سے عبارت ہوتی ہے ۔ تاریخی اعتبار سے ، آریوں کے بعد ،گوجر قوم کے قافلے بھی ۵۰۰ قبل مسیح کے آس پاس وسط ایشیاکے گورجستان اور بحیرہ خذر Caspian Sea) )  کے علاقوں سے نکل کر نہ جانے کتنے ماہ و سال کے سرد و گرم جھیلتے ہوئے برِصغیر کے دریائے سندھ  و پنجاب کے ساحلوں پر اترے اور پھر اپنی محنت و مشقت ،جانبازی اور جگرکاری کی بدولت دوسری قوموں سے آگے نکلتے  چلے گئے ۔یہاں تک کہ پانچویں، چھٹی صدی تک آتے آتے گوجروں نے بر صغیر میں ہندوستان اور افغانستا ن کے ایک بڑے علاقے پر اپنی عظیم الشان سلطنت بھی قائم کرلی ۔تیرہویں صدی عیسوی تک گوجر سلطنت عروج پر رہی لیکن پھر غیر ملکی مسلم حکمرانوں  کے ہاتھوں ہی گوجر سلطنت کا زوال شروع ہوا یہاں تک کہ گوجروں کو اپنے اپنے ٹھکانوں سے ہجرت کرنی پڑی ۔گوجروں کے کئی قافلے  پہلے تو پنجاب کی طرف آئے اور پھر وہاں سے بھی نکل کر  شمال کی جانب کاغان ،سوات، ہزارہ ،گلگت اور جموں کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پھیل گئے ۔ گوجروں کے جو قافلے جموں و کشمیر میں آکر آباد ہوئے ان کی د و جماعتیں تھیں ایک جماعت ان گوجروں کی تھی جو راجپوتانہ ،کاٹھیاواڑ اور گجرات سے نکل کر سیدھی جموں و کشمیر کی پہاڑیوں کو اپنا مستقل نشیمن بنا لیا ۔ دوسری جماعت سیالکوٹ ،راولپنڈی، جہلم ، اور گوجرانوالا سے ہجرت کر کے جموں و کشمیر آکر سکونت پذیر ہوگئی تھی لیکن یاد رہے کہ بر صغیر کے مختلف علاقوں سے جموں و کشمیر میںآباد ہوتے رہنے کی داستان کئی صدیوں پر محیط ہے ۔پنڈت کلہن نے ’’راج ترنگنی ‘‘ میں لکھا ہے ،   ۸۹۰ء۔میں کشمیر کے راجہ شنکر ورمن  نے گُرجر راجہ الکھان کو شکست دے دی جو   افغانستان کے بادشاہ کا دوست تھا۔گرجر راجہ نے اسے اپنے راج کا ایک علاقہ تحفے میں دے کر اپنی حکومت کو محفوظ کرلیا ۔اس اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نویں دسویں صدی سے ہی گوجروں کاکشمیر کے راجاووں کے ساتھ سیاسی مراسم تھے اور وقت آنے پر وہ کشمیر کے راجاووں کے دشمنوں کے خلاف جنگ بھی کرتے تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے علاقے میں داخل ہونے کے لئے کسی بھی حملہ آور کو گوجروں کے علاقوں سے گذرنا پڑتا تھا لیکن جری اور جانباز گوجروں  سے مقابلہ کرنے کی ہمت کم ہی لوگوں کو ہوتی تھی ۔روایت ہے کہ جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملوں کی شروعات کی تو اس کا پہلامقابلہ گوجر راجاووں سے ہی ہوا تھا اور محمود غزنوی کو واپس لوٹنا پڑا تھا ۔۱۰۱۴ء میں ترلوچن پال لوہر کوٹ کا حکمراں تھا اور اس کی فوج میں گوجر جوانوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی ۔قلع لوہر کوٹ کے کھنڈرات  کے باقیات آج بھی لورن کے دائیں کنارے پر ایک پہاڑی گاووں گیگی وانڈ  کے بالائی حصے پر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔                        پیر پنچال :۔ ہندوستان کے قدرتی محافظ ’ہمالیہ‘ کے پہلو بہ پہلو بلند و بالا پہاڑی سلسلوں ،شاہ بلوط، اورصنوبر ،کے درختوں کی قطاروں ،سبزہ زاروں، آبشاروں،پھلوں اور پھولوں کے جنگلات اور سرسبز کھیتوں اور میدانوں سے مالامال ریاست جموں و کشمیر کا علاقہ ’’پیر پنجال‘‘زمانہ قدیم سے آج تک تاریخ کے نہ جانے کتنے نشیب و فراز کا گواہ رہا ہے ۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں کے جیالوں نے صدیوں تک، یکے بعد دیگرے ،محمود غزنوی،اور مغل اعظم شہنشاہ اکبر سے لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ تک کی فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے ایک عرصہ تک انھیں اس ریاست پر غاصبانہ قبضہ کرنے سے باز رکھا۔لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ہر دور میں پیر پنجال کے عوام کو ہی سب سے زیادہ،جبر و استحصال کا شکار ہونا پڑاہے اگر تجزیہ کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ملک کی تقسیم اور ریاست میں آزاد عوامی حکومت کے قیام کے بعد بھی پیر پنجال کے لوگوں کو ،غربت ،ناخواندگی اور زندگی کے اکثر شعبوں میں پسماندگی سے ابھی تک نجات نہیں مل سکی  ہے ۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔آزادی کے تقریباً پون صدی گزر جانے کے باوجود ابھی تک پیر پنجال کے پونچھ ،راجوری سورن کوٹ جیسے شہروں کو ریلوے لائن سے جوڑا نہیں جا سکا ہے ۔پیر پنجال کے علاقے میں کسی بھی طرح کے کل کارخانے  بھی قائم نہیں کئے جا سکے ہیں ۔طبی سہولیات کی صورت حال بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ سڑک ،پانی، بجلی کے مسائل بھی اب تک جیوں کے تیوں برقرار ہیں ۔        لیکن’’پیر پنجال ‘‘کی  پس ماندگی کا سب سے بڑا سبب اس علاقے کے لوگوں کا تعلیمی پچھڑاپن ہے۔تعلیمی پسماندگی کی وجہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کی غربت، بیروزگاری  اور معاشی بدحالی ہی نہیںبلکہ مختلف قبائل کی اکثریت والے اس علاقے پیر پنجال کی جانب سے ارباب اقتدار کی شعوری بے توجہی بھی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیر پنجال کے عوام ،خاص طور پر محب وطن ،محنت کش ،جانباز اور جگر دار گوجر بکروال قبائل، نے صدیوں سے ، اس ریاست کے سماجی وثقافتی اور سیاسی و اخلاقی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے جو بیش بہا قربانیاں دیتے رہے ہیں اُن قربانیوں کو اکثر و بیشتر سیاسی رہنماوئوں نے یاد نہیں رکھا ہے ۔یہ بات درست ہے کہ۱۹۴۷ء۔میں ایک طویل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے بعد جب شیرکشمیر شیخ محمد عبد اللہ کی قیادت میںعوامی حکومت قائم ہوئی تو ’’نیا کشمیر ‘‘کی تعمیر کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے کے لئے نیشنل کانفرنس کی حکومت نے تعلیم کے فروغ و ارتقاپر بھی خصوصی توجہ دی ۔آزاد ریاست جموں و کشمیر کے دوسرے علاقوں کی طرح خطہ پیر پنجال میں بھی رفتہ ر فتہ اسکولوں اور کالجوں کی تعداد میں کسی حد تک اضافہ بھی ہوتا رہا لیکن پیر پنجال کے عوام کی مالی بدحالی ،ان کی خانہ بدوشی ،رسوم ورواج اور نفسیات کے مطابق خاطر خواہ تعلیمی نظام مرتب نہیں کیا گیا،اور نہ ہی درس و تدریس آمدو رفت اور تعلیمی اداروں میںقیام  کا معقول انتظام ہی کیا گیا ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی کے کچھ برسوں کے بعد ہی پہلے کشمیر میں اور پھر جموں شہر میںاعلی تعلیم کے لئے یونیورسیٹیاں قائم کی گئیں لیکن تعلیمی اعتبار سے سب سے زیادہ پس ماندہ خطہ پیر پنجال کے طالب علموں کو ایک طویل مدت تک اعلی تعلیم کے لئے ایک جامع تعلیمی مرکز کی سہولت سے محروم ہی رہنا پڑا جب تک کہ ۵،۱۹۴ء میں پیر پنجال کی مقبول عام شخصیت جناب مسعود احمد چودھری کی قیادت میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسیٹی کا قیام عمل میں نہیں آگیا ۔ ریاست جموں و کشمیر کے مشہور سماجی دانشور اور سابق تجربہ کار پولس آفیسر جناب مسعود احمد چودھری کی تحریک پر راجوری (تھنہ منڈی )میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسیٹی کا قیام صرف ایک یونیورسیٹی کا ہی قیام نہیںتھا،بلکہ صدیوں سے غربت ،بیروزگاری پسماندگی اور استحصال کی چکیوںمیںپستے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کی نوید بھی ہے کیو نکہ ٓٓآج کے صارفینیConsumeristic ماحول میں صرف اور صرف تعلیم ہی وہ حربہ ہے جس سے لیس ہو کر کوئی قوم یا فرد زندگی اور زمانہ کے ،ہر لمحہ سامنے آنے والے چیلنجوں کا سامنا کر سکتا ہے۔     مثل مشہور ہے کہ ’’عالمِ ‘‘کی موت ’’عالمَ‘‘ کی موت ہوتی ہے ۔اس اعتبار سے اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کسی علمی مرکز کی تعمیر ،ایک جہان تازہ کی تشکیل کے مترادف ہے ۔ چنانچہ پیر پنجال کے تھنہ منڈی (راجوری) میں’’بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسیٹی ‘‘کے قیام کو بھی پیر پنجال کے پس ماندہ علاقوں پونچھ ،راجوری،سورن کوٹ اور دیگر متصل علاقوں کے لوگوں کے خوش حال مستقبل کی تعمیر کی جانب اٹھایا گیا ایک تاریخی دانشورانہ قدم ہی قرار دیا جائے گا ۔لیکن بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسیٹی کے قیام  کی برکتوں کو عصری زندگیاور زمانہ کے تقاضوں کے ترازو میں تولنے کے لئے ضروری ہے کہ راجوری اور پونچھ کے حوالے سے ’’پیر پنجال‘‘ کی پس ماندگی کو اختصار کے ساتھ تاریخ کے آئینے میں دیکھا جا ئے ۔ (اس کی ضرورت یوں بھی ہے کہ پیر پنجال کی کوئی معتبر تاریخ لکھنے کی جانب کم ہی توجہ دی گئی ہے ۔لیکن یہاں بھی صرف اس علاقے میں تعلیم کے فروغ کے حوالے سے بعض اشارے ہی کئے جانے کی گنجائش ہے ۔)             لفظ  ’پیر‘ ، فارسی ، اردو  پہاڑی ،گوجری ،  ڈوگری اور کشمیری کئی زبانوں میں ،عظیم ،بزرگ  مذہبی رہنما ، اور بلند،وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔’’پانژال‘‘ کشمیری لفظ ہے جس کے معنی اونچی بلند جگہ کے ہیں مشہور مورخ مسٹر ڈریوؔکے حولے سے مانا جاتا ہے کہ’’ پیر پنجال‘‘ کی اصطلاح میں لفظ ’ پیر‘ غیبی قوتوں کے حامل بزرگ حضرت شیخ احمد کی دینی عظمت اور بزرگی کی مناسبت  سے جوڑاگیا ہے جن کا مزار شاہراہ مغل (مغل روڈ)پر اُس برفانی درے میں ہے جسے ’’پیر گلی‘‘ یا’’ پیر مرگ‘‘ کہتے ہیں ۔ روائت ہے کہ یہ بزرگ پہلے ہندو جوگی تھے بعد میں شیخ العالم شیخ نور الدین علیہ الرحمہ یا امیر کبیر سید علی ھمدانی کے ہاتھوں مسلمان ہو گئے تھے ۔ جموں و کشمیر میں گوجر قوم کی آمد اور سکانت کے بارے میں ،اب تک کی معلومات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ، آریوں کے بعد ۵۰۰قبل مسیح  کے آس پاس سے گوجرروں کے قافلے  بر صغیر میں دریائے سندھ و پنجاجاب کے ساحلوں پر اترے  اور  آج کی تاریخ میں پیر پنجال سے مراد ،بانہال سے مغرب کی جانب جانے والا وہ کوہستانی سلسلہ ہے جو راجوری ،پونچھ،اور درہ حاجی پیر اور اوڑی سے ہوتا ہوا شمال مشرق کی طرف مڑ جا تا ہے ۔درہ بانہال سے درہ حاجی پیر تک اس خطہ کی لمبائی ۲۴۰۔کلو میٹر اور چوڑائی ۹۰۔کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔پنڈت کلہن نے’’ راج ترنگنی‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’گیارہویں صدی عیسوی میں پیر پنجال کے دامن میں تین بڑی ریاستیں قائم تھیں ، ۱۔ریاست لوہر کوٹ(لورن)۔ ۲۔ریاست کالنجر(کوٹلی)۔ ۳۔ریاست ر اجپوری(راجوری)         ’’ خطہ پیر پنجال‘‘ کے قدیم باشندے ہندو دھرم کے پیرو کار تھے ۔دین اسلام اس علاقے میں پنجاب اور سندھ کے مسلمانوںسے رابطے کی وجہ سے گیارہویں صدی سے قبل ہی متعارف ہو چکا تھا( یعنی محمد بن قاسم کی آمد(۷۱۲ء۔) کے بعداور محمود غزنوی کے ہندوستان میں داخل ہونے( ۱۰۱۱ء)سے قبل ) نویں صدی عیسوی سے گیارہویں صدی عیسوی تک  پیر پنجال اور کشمیر میں ہندو راجاوئوں کی حکومتیں تھیں محمود غزنوی، لاہور سے آگے نکل کر کشمیر فتح کرنے کی غرض سے اپنے لشکر کے ساتھ ۱۰۱۳ء۔۱۰۱۴ء۔اور ۱۰۲۱ء ۔میں تین بار خطہ’’ پیر پنجا ل ‘‘تک آیا۔ لیکن موسمی اور سفری حالات کی خرابی کے سبب ریاست پونچھ کی راجدھانی لوہر کوٹ(لورن) کے ’’توسہ میدان‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔محمود غزنوی نے واپسی کے لئے ریاست ر اجوری کے ’وادی سرن‘ اور’ مینڈھر‘کا راستہ اختیار کیا ۔مسلم بادشاہوں کا طریقہ تھا کہ جب وہ کسی علاقے کی طرف کوُچ یا لشکر کشی کرتے تو ان کے ساتھ علما اور داعیان دین کی بھی ایک خا صی تعداد ہوا کرتی تھی کیونکہ ان مسلم بادشاہون یا سالاروں کا مقصد محض ملکوں اور علاقوں کو فتح کر نا ہی نہیں ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے ، بلکہ ان کا مقصد دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت بھی ہوا کرتا تھا ۔چنانچہ تیسری بار جب محمود غزنوی کشمیر فتح کئے بغیر واپس جانے لگا تو بہت سارے علمائے دین اور دیگر مسلمانوں کو راجوری پونچھ میں ہی اسلام کو متعارف کروانے، مساجد اور مکاتب قائم کرنے پر مامور کر گیا ۔اس طرح پیر پنجال میں مسلمانوں کی آمد اور قیام کا باضابطہ سلسلہ گیارہویں صدی میں محمود غزنوی کی فوج کشی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے ۔، محمود غزنوی کی فوج کشی کے  بعد اس  خطے میں تعلیمی سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے ’’اس سے قبل کسی بھی حوالے سے اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد کا کوئیمستند ثبوت نہیں ملتا ۔البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ پنجاب سے ملحق ہونے کی کے باعث  شاہراہ نمک کے راستے ،اکا دکا مسلمان اس علاقے میں آئے ہوں ،لیکن ان کاکہیں کوئی تحریری تذکرہ نہیں ملتا ۔راجوری کے نوشہرہ قصبہ میں موجود’’ مغلیہ مسجد‘سے ملحقہ جگہ پر ایک بڑے دار العلوم کا قیام محمود غزنوی کے ساتھ آنے والے ان مبلغین اسلام‘ کے ہاتھوں وجود میں آیا جو اس پہاڑی خطے اور’’ شاہراہ نمک ‘‘پر ایک بڑا علمی ودینی مرکز بن گیا جہاں سیالکوٹ اور پنجاب وغیرہ کے مختلف علاقوں سے طالبان دین آکر علم حاصل کرتے  تھے ‘‘  ۔۱۔  خطہ پیر پنجا ل میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا دار العلوم تھا جہاں تمام مروجہ اسلامی علوم کا درس د یا جاتا تھا ۔ کشمیر کے مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ محمد یعقوب صرفیؔ نے بھی یہاں علم حدیث کی تدریس کا فریضہ انجام دیا تھا۔اس طرح راجوری کے علاقے میں گیارہویں صدی تک آتے آتے اسلام اور اسلامی تعلیمات کا آ غا ز ہو چکا تھا لیکن پھر سیاسی عدم استحکام ،شورش اور بڑھتی ہوئی طوا ئف الملوکی کے سبب  اس علاقے میں ایک طویل عرصے تک تعلیم یا دینی تعلیم کا سلسلہ ربط و ضبط کے ساتھ قائم نہ رہ سکا لیکن چونکہ محمود غزنوی گرچہ کشمیر تک نہ پہنچ سکا پھر بھی راجوری اور پونچھ کے بہت سارے علاقوں پر اس کا تسلط قائم ہو چکا تھا ۔اور یہ علاقے غزنوی سلطنت کے با ج گذار بن چکے تھے اس لئے ایسے علاقوں میں دینی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور پنجاب سے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں مسلمانوں کی آمد و رفت بھی جاری رہتی تھی کئی مورخین کے مطابق ،جن میں ابو ریحان البیرونیؔ بھی شامل ہے، غزنوی عہد حکومت میں راجور ی کو پنجاب اور کشمیر کے بیچ میں واقع ہونے کی وجہ سے ایک اہم’’ تجارتی منڈی‘‘ کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی، راجوری سے لاہور کا فاصلہ تقریباًً ڈیڑھ سوکلو میٹر ہے اور سرینگر کشمیر بھی شوپیان  کے راستے ،راجوری سے تقریباًً اتنے ہی فاصلے پر ہے ۔ لاہور اور کشمیر دونوں طرف سے تجاًًر اور خریدار راجوری آتے اور خرید و فروخت کرتے ۔ بارہویں صدی تک آتے آتے پیر پنجال کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی آبادیوں میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ۔’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں درج ہے کہ بت شکن محمود غزنوی نے اپنے  علمائے دین اور مبلغین کو پونچھ،راجوری سے لے کر کشمیر تک پھیلا دیا تھا جو جگہ جگہ مسجدیں اور مدرسے قائم کرتے اور ساتھ ہی غیر مسلموں میں تبلیغ دین کرتے اور انھیں ان کی مرضی سے مسلمان بناتے ۔ادھر وادئی کشمیر کی جانب سے بھی امیر کبیر سید علی ہمدانی، حضرت شیخ نور الدین نورانی اور اور انکے مریدین اور مبلغین کی کوششوں سے دین اسلام کی روشنی کشمیر کے حدود سے نکل کر ایک طرف پیر پنجال کی جانب اور دوسری طرف لیہہ،لداخ کی طرف بھی پھیلنے لگی تھی ۔ کئی صدیاں گذرنے کے بعد جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت قائم ہوئی تو رفتہ رفتہ ہندوستان کے شمال سے لے کر جنوب تک اور مغرب سے مشرق تک کے اکثر و بیشتر علاقے سلطنت مغلیہ کے زیر نگیں آگئے تھے لیکن کشمیر کی وادی ابھی بھی انکی دسترس سے باہر تھی ۔چنانچہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر نے جب فتح کشمیر کا ارادہ کیا توپہلے اس نے ’بھمبر‘، اور’ راجوری‘ کے راجاووں کے تعاون سے اپنے ایک جنرل، محمد قاسم خان قابلی کی سربراہی میں ۱۵۸۷ء میں آمد و رفت کے لئے  ’بھمبر ‘سے سرینگر تک ایک سڑک بنوائی جسے آج بھی ’’مغل روڈ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ آج کی تاریخ میں ’’مغل روڈ ‘‘پیر پنجال اور کشمیر کے عوام کے لئے’ ’شہہ رگ‘‘کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔بہر حال’فتح کشمیر‘ کے بعد ، ۱۵۸۹ء میں شہنشاہ اکبر سیاحت کی غرض سے لاہور سے نکل کر راجوری پہنچا جہان اس وقت کے راجوری کے راجہ مست خان ولی نے  اکبر اعظم کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔شہنشاہ اکبر کو اس علاقہ کے دشوار گذارپہاڑی راستوں کا علم تھا اس لئے وہ فن تعمیر کے ماہرین اور کاریگروں کو بھی اپنے ساتھ ہی لایاتھا ۔’’ اقبال نامہ اکبری‘‘ کے مطابق شہنشاہ اکبر نے اس شاہراہ (مغل روڈ ) کی تعمیراور ہمواری کے لئے تین ہزارسنگ تراش اور دس ہزار کارگذار ،اپنی روانگی سے پہلے ہی ’بھمبر‘، راجوری وغیرہ علاقوں میں بھیج دئے تھے ۔ راجوری کے راجہ مست خان کو حکم دے کر شہنشاہ اکبر نے ان سے نوشہرہ میں دریا کے کنارے ایک بڑی سرائے تعمیر کروائی جسمیں شاہی قافلوں اور بیگمات کے لئے آرامدہ خواب گاہیں سجا ئی گئی تھیں، فوجی افسران کے لئے الگ سے مہمان خانے،اور عام سپاہیوں اور خدمت گاروں کے لئے اقامت خانے بھی تعمیر کئے گئے تھے ۔۔۔۔۔ ۰۰۰۰۰۰۰ جاری ۰۰۰۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا